خبریں

پیگاسس جاسوسی کو جمہوریت کے بدنما داغ کے طور پر دیکھتا ہوں: صحافی روپیش کمار سنگھ

انٹرویو: جھارکھنڈ کے رام گڑھ میں رہنے والے آزادصحافی روپیش کمار سنگھ اور ان سے وابستہ تین فون نمبر پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے جاسوسی کی ممکنہ فہرست میں شامل ہیں۔ اس بارے میں روپیش کمار سنگھ سے بات چیت۔

روپیش کمار سنگھ(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

روپیش کمار سنگھ(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

ممکنہ نگرانی فہرست میں شامل ہونے کی بات پر کیاردعمل  تھا؟

جب مجھے پتہ چلا اس بات کا کہ میرا اور میری شریک حیات اور گھر کے ایک فرد کا نام فہرست میں سامنے آیا ہے تو اندر سے بہت ہی غصہ تھا۔ حیرانی نہیں ہوئی، لیکن غصہ بہت زیادہ ہے کہ مطلب آپ کسی کی پرائیویسی کے ساتھ اس طرح سے کھلواڑ کیسے کر سکتے ہیں۔

میں اپنے بیڈروم میں کیا کر رہا ہوں، میں کس سے بات کر رہا ہوں اور صرف میرے ہی نہیں، آپ ایک صحافی کی آواز کو دبانے کے لیے آپ ان کے گھروالوں کا بھی فون ٹیپ کر رہے ہیں، جن کو ہماری صحافت سے اتنا مطلب نہیں ہے۔

خود کو جمہوری بتانے والے ملک میں صحافیوں کانام جاسوسی کی ممکنہ لسٹ میں ہونا، کچھ کے فون میں اسپائی ویئر کاملنا کیا سوال کھڑے کرتا ہے؟

ہمارے ملک میں جمہوریت ہے۔ یہ جمہوری نظام  کے تحت ثابت ہو رہا ہے تو ابھی کے جو حکمراں ہیں، انہوں نے سیدھا سیدھا اس جمہوریت پر قبضہ کر لیا ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں اور کہ یہ وہ پہلے قدم پر ہیں۔

جہاں تک ہم صحافیوں کی بات ہے، تو صاف سی بات ہے کہ ہم ذرائع کے بھروسے کام کرتے ہیں۔ ہمیں گاؤں سے فون آتا ہے کہ ہمارے گاؤں میں یہ مسئلہ  ہے یا یہ تحریک  چل رہی ہے، آپ آئیے۔ اب کوئی بھی ہمیں کیوں فون کرےگا۔ وہ آدمی، اگلا ڈر جائےگا۔

ایسا میرے ساتھ پہلے بھی ہوا، اب ہمیں پتہ چل رہا ہے کہ تب ہماری جاسوسی ہو رہی تھی، اس لیے کہ میں کہیں بھی فون کرتا تھا کہ میں آ رہا ہوں تو وہاں پر میرے پہنچنے سے پہلے کچھ دوسرے لوگ پہنچ جاتے تھے اور بولتے تھے کہ کس کو بلا رہے ہو، کیوں بلا رہے ہو۔

تو اس طرح کے واقعات  بھی رونما ہوئےہیں اور اسے میں جمہوری نظام کے لیے ایک بہت بڑے بدنما داغ کےطور پر دیکھتا ہوں۔ اور یہ نظام جو ہے، یہ اس جمہوریت پر قبضہ کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ سازش ہی نہیں کر رہا ہے، بلکہ اس کا پالا اس کھیل کو پار کر چکا ہے۔

ہندوستان میں ابھی بالخصوص صحافت کے لیے میں مان سکتا ہوں کہ یہ ایک غیراعلانیہ ایمرجنسی ہے۔ یہ اعلان  نہیں کیا گیا ہے، یہ غیراعلانیہ  ایمرجنسی  ہے اور حال کے ہی واقعات کو دیکھ لیجیے، کس طرح سے دینک بھاسکر، بھارت سماچار کے دفاتر میں انکم ٹیکس کے چھاپے پڑے ہیں۔کورونا کی دوسری لہر کے دوران  دینک بھاسکر نے بہت ہی اچھی رپورٹنگ کی، بھارت سماچار کے برجیش جی لگاتار یوپی کے سوالوں پر بولتے رہے ہیں۔

آنے والے وقتوں میں بالخصوص صحافیوں کی جاسوسی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد لوگ تو ڈریں گے ہی اور یہ جمہوریت کے لیے بہت ہی خطرناک ہے۔ اس سرکار نے ہمارے ملک کو ایمرجنسی کے حالات میں لا دیا ہے، جو آگے چل کر اگر ہم صحافت میں ہیں تو سرکار کے کے ذریعے جو ناکہ بندی کی گئی ہے، اس کو توڑکر ہی ہم لوگوں کو باہر نکلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے ذرائع  کو پھر سے تیار ہوگا۔ کہہ سکتے ہیں کہ یہ صحافت  کا ایک شدید بحرانی دور ہے۔

آپ کے اس فہرست میں شامل ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

ہمارے ملک میں قدرتی وسائل  کی لوٹ ہوتی رہتی ہے، ان کا استحصال  ہوتا ہے۔ میں جس صوبے میں رہتا ہوں اور جو خبریں کور کرتا ہوں، وہ قدرتی وسائل  کی لوٹ سے جڑی ہوتی ہیں۔ میری زیادہ تر خبریں جھارکھنڈ میں جو نقل مکانی  کی پریشانی  ہے، ان  کی جو تحریک ہے، یہاں جو فورس انکاؤنٹر ہے، آدی واسیوں کی ماؤنوازکے نام پر جو بڑے پیمانے گرفتاری ہوئی ہے، انہیں جیل میں بند کیا گیا ہے، تو میں اس جدوجہد  کو بڑے  فلک پر رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اور ان وسائل کی لوٹ میں صرف جھارکھنڈ کے لوگ شامل نہیں ہیں، بلکہ پوری دنیا کے ملکی  غیرملکی  سرمایہ کار، جنہیں ہماری سرکار نے دعوت دی ہے وہ  قدرتی وسائل  کی لوٹ کرتے ہیں۔ میں اس پر لکھ رہا تھا، بول رہا تھا، سو مجھے لگتا ہے کہ اسی لیے میرانام اس فہرست میں ہے۔

فہرست میں نام ہونے کی بات عوامی  ہونے کے بعد کس طرح کا ردعمل مل رہاہے؟

سب سے پہلے تو جب میرا نام آیا تو جو بھی میرے فرینڈ سرکل کے لوگ تھے یا جو مجھے، میرے کام کو جانتے تھے، ان کا اچھا رسپانس آیا۔ جو بھی جھارکھنڈ اورملک  کے جدوجہد کرنے والے لوگ تھے، انہوں نےخصوصی طور پر فون کیا۔

اتنا ہونے کے بعدبھی انہوں نے اسی رات سے فون کرنا شروع کیا، کہا کہ آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ جس سوال کو اٹھا رہے ہیں اور جس کی وجہ سے آج اس حالت میں ہیں، جو آپ کے ساتھ کیا گیا ہے، اس کے لیے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

میں جن کی آواز اٹھاتا ہوں، جو ہمارے لوگ تھے اور میں جن کی آواز اٹھا رہا ہوں، ان تمام گاؤں سے بھی مجھے فون آ رہے ہیں کہ آپ کے ساتھ ہم لوگ ہیں۔ ڈرنے کی بات نہیں ہے۔ مجھے لوگوں کا،بالخصوص جو پروگریسو لوگ ہیں، جوجدوجہد کرنےوالے لوگ ہیں، ان کی حمایت  ملی ہے۔

میں گودی میڈیا کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ وہ گاؤں جہاں ابھی میں رہ رہا ہوں، بہت سارے ہندی اخبار ہیں اور چینل بھی ہیں، لیکن کسی نے بھی مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔ ان کے لیے میں صحافت کرتا بھی نہیں ہوں۔ میں صحافت کرتا ہوں عوام کے لیے اور عوام ہمارے ساتھ ہے اورجدوجہد کرنے والےلوگ ہمارے ساتھ ہیں اور یہ اچھا ردعمل آیا ہے۔

بہتوں نے کہا کہ آپ سپریم کورٹ جائیں، ہوگا تو ہم لوگ آپ کو چندہ کرکے دیں گے، گاؤں گاؤں سے اس طرح کا پیغام  ملا ہے۔

سرکار جاسوسی کی بات سے ا نکارکر رہی ہے۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟

یہ تو سب سے پہلی بات ہے کہ یہ جو ہماری مرکزی حکومت ہے، یہ جھوٹی ہے اور یہ ڈرپوک سرکار ہے۔ اس کے جھوٹ کو پوری دنیا نے دیکھا۔ ہندوستان میں آکسیجن کے بنا لوگوں کی موت  ہوئی، انہوں نے لوک سبھا میں کہا کہ کوئی نہیں مرا۔

تو میں کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ نے (جاسوسی)نہیں کروایا ہے اور آپ کے ملک کے اتنے صحافیوں، نوکرشاہوں، آپ کے وزیروں ، اپوزیشن کے رہنما وغیرہ کا فون کسی دوسرے ملک کے لوگوں نے سرولانس پر رکھا ہوا ہے تو میں کہہ رہا ہوں کہ یہ ہمارے ملک  کی خودمختاریت کے لیے خطرہ  ہے۔

اور اگر آپ کہتے ہیں کہ ہم ایک سب سے طاقتور ملک  ہیں، ہم ایک خودمختار ملک  ہیں تو آپ اس پر کارروائی کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ یہ تو آپ کے ملک  کی اور بھی عزت کا سوال ہونا چاہیے۔

کہیے کہ ہمارے ملک کے لوگوں کا دوسرے ملک کے لوگ کیسے جاسوسی کروا سکتے ہیں۔ یہ بڑا سوال ہے۔ اگر اس نے نہیں کیا ہے تو میں کہتا ہوں کہ سرکار جھوٹ بول رہی ہے، کیونکہ تب تو آپ کو جانچ کروانی چاہیے کہ کیونکہ اس چیز کا خودمختاریت  پرخطرہ  ہے۔

اس معاملے کو لےکر کیا کورٹ کا رخ کریں گے؟

میں نے ابھی کہا آپ کو کہ میں تو ایک فری لانس جرنلسٹ ہوں اور جو سپریم کورٹ کا خرچ ہے، وہ بھی برداشت  کرنے کی حالت  میں نہیں ہوں، لیکن لوگوں کی حمایت ہمارے ساتھ ہے۔ تو میں نے کل بھی وکیلوں کو بلایا، صلاح لیا ہے۔ وہ لوگ بھی صلاح لیں گے اور اس پر کیا خرچ آئےگا، وہ سب دیکھیں گے، لیکن اگر صحافی اجتماعی طور پر کورٹ جائیں، اس کے لیے میں اپیل بھی کر رہا ہوں تو لگتا ہے کہ زیادہ اثر پڑےگا اور اگر نہیں ہوتا ہے تو ہم صلاح لے رہے ہیں۔

میں ذاتی  طور پر بھی سپریم کورٹ میں رٹ فائل کروانے کی کوشش کروں گا۔ میں نے پہلے ہی کہا کہ میں خرچ اٹھانے کی حالت میں نہیں ہوں، پھر بھی ہم لوگ کوشش کریں گے، کیونکہ یہ میری پرائیویسی  پر سرکار نے حملہ کیا ہے۔

سرکار پوری طرح سے آئین مخالف ثابت ہوئی ہے۔ آئین  نے ہمیں حق دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پرائیویسی  کا حق  لوگوں کا بنیادی حق ہے تو انہوں نے ہماری پرائیویسی  کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے تو ہم تو کورٹ جا ئیں گے، لیکن اگر سب لوگ مل کر جائیں تو زیادہ اچھا ہے، نہیں تو میں ذاتی  طور پر بھی جاؤں گا۔