خبریں

’پولیس نے میرے بھائی کو ماردیا اور اب وہ نہیں چاہتے کہ ہم اس کی قبر پر دعا بھی کر پائیں‘

گزشتہ دنوں جموں وکشمیر پولیس نے ایک انکاؤنٹر میں عمران قیوم نام کےایک شخص کو دہشت گرد بتاتے ہوئے مار گرانے کے بعد ان کو دفن کر دیا۔عمران کے اہل خانہ  نے پولیس کے دعووں کی تردیدکرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فرضی انکاؤنٹر تھا۔ انہوں نے معاملے کی جانچ کے لیےلیفٹیننٹ گورنراورسینئر پولیس افسران کو خط بھی لکھا ہے۔

عمران قیوم کے والد۔ (فوٹو: منیب الاسلام)

عمران قیوم کے والد۔ (فوٹو: منیب الاسلام)

نئی دہلی: حال ہی میں جموں وکشمیر پولیس کے ذریعےدہشت گرد بتاتے ہوئے ایک انکاؤنٹر میں مارے گئے عمران قیوم کے اہل خانہ نے واقعہ  پر گہری ناراضگی کااظہار کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ پولیس نے منصوبہ بند طریقے سے ان کاقتل  کیا ہے۔

عبدالقیوم ڈار نےآخری بار اپنے بیٹےعمران قیوم کو 20 جولائی کو جنوبی  کشمیر کے اننت ناگ ضلع میں ان کے گھر سےتقریباً 500 میٹر دوری پر ایک پمپ اسٹیشن کے پاس دیکھا تھا۔والد نے کہا، ‘اگر میرا بیٹا دہشت گرد تھا، تو اسے کھلے عام گھومنے کی اجازت کیوں تھی؟ یہاں تک کہ اس نے ہمارے ساتھ عید بھی منائی اور قربانی کا گوشت بھی بانٹا تھا۔’

انہوں نے کہا،‘اسے ایک فرضی انکاؤنٹر میں مارا گیا ہے۔انہیں(پولیس)اب کم از کم اس کی لاش  لوٹا دینی چاہیے تاکہ ہم تجہیز وتکفین کر سکیں۔’

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران گھر سے بھاگ گئے تھے، جبکہ اہل خانہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے دوست یا چچازاد بھائیوں کے یہاں رہ رہے تھے۔ عمران کے دو چچا ان کے پڑوس کے بوٹینگو گاؤں میں رہتے ہیں۔

ان کے چچا نے کہا، ‘انہوں نے ہمارے یہاں کچھ راتیں بتائی تھیں۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتے تھے اور اکثر ان کے ساتھ رات گزارتےتھے۔ گھر سے بھاگ جانے کے بعد بھی وہ ہر دن باپ، بھائی یا چچازادبھائی کو دکھ جاتے تھے۔’

جموں وکشمیر پولیس نےاپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کلگام ضلع میں ایک نامعلوم دہشت گرد کو مار گرایا ہے۔

انہوں نے کہا،‘گاؤں سرسانو کلگام میں دہشت گرد کی موجودگی کے بارے میں خصوصی ان پٹ کی بنیاد پر کلگام پولیس اور 34 آر آر کے ذریعے تلاشی مہم شروع کی گئی تھی۔ اس دوران پھولوں میں چھپے دہشت گردوں  نے سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ شروع کر دی، جس کی جوابی کارروائی میں مٹھ بھیڑ ہوئی۔’

پولیس نے آگے کہا،‘اس دوران ایک دہشت گرد مارا گیا جس کی پہچان ابھی تک نہیں کی جا سکی ہے۔لاش  کے پاس سے ہتھیار اور گولا بارود سمیت کئی سامان برآمد ہوئے ہیں۔تمام  برآمدسامان کو آگے کی جانچ اور دوسرےدہشت گردانہ جرائم میں ان کی شمولیت کی جانچ کے لیے کیس ریکارڈ میں لے لیا گیا ہے۔’

ویسے اس سلسلےمیں ایک معاملہ(ایف آئی آر نمبر 46/2021) درج کیا گیا ہے، لیکن ابھی تک سرکاری  طور پر دہشت گرد  کی پہچان کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر پولیس کی جانب سے اپنی سرکاری ویب سائٹ پر جاری کیے گئےروزانہ  بلیٹن میں انکاؤنٹر کا ذکر تک نہیں ہے۔

پولیس ذرائع  کا کہنا ہے کہ غیر قانونی نشہ آوراشیا ہیروئن لینے کو لےکرعمران کا علاج چل رہا تھا۔ ان کے نام پر نارکوٹک ڈرگس اینڈ سائکوٹراپک سبسٹینس ایکٹ (این ڈی پی ایس)کے تحت درج دو ایف آئی آر بھی درج ہے۔

دی وائر کے ذریعے حاصل کیے گئےعمران کےمیڈیکل ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے سال سے ان کے ہیروئن چھوڑنے کی علامتوں میں اصلاح  ہوئی ہے۔ وہ آخری بار فروری میں اسپتال گئے تھے۔

عمران قیوم کی ماں۔ (فوٹو: منیب الاسلام)

عمران قیوم کی ماں۔ (فوٹو: منیب الاسلام)

عمران کے چھوٹے بھائی زاہد نے کہا کہ اہل خانہ  نے جو تصویر دیکھی تھی، اس کی چھاتی کے پاس گولی کے نشان تھے۔

زاہد نے کہا،‘ہم الگ الگ تھانوں میں تقریباً تین گھنٹے تک لاش ڈھونڈتے رہے، جہاں پولیس اہلکار ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ ریفر کرتے رہے۔ ہم آخر میں شام تقریباً ساڑھے پانچ بجے سرینگر پی سی آر پہنچے جہاں ہمیں بتایا گیا کہ انہیں ہندواڑہ میں دفن کیا جا چکا ہے۔’

بھائی نے کہا، ‘انہوں نے میرے بھائی کو مار ڈالا ہے اور اب وہ نہیں چاہتے کہ ہم ان کی قبر پر دعا بھی کرپائیں۔’

پچھلے کچھ سالوں میں جموں وکشمیر پولیس سیکیورٹی فورسز کے ساتھ انکاؤنٹر میں مارے گئےمقامی دہشت گردوں کی لاش  ان کے اہل خانہ کو سونپنے سے انکار کرتی رہی ہے۔سیکیورٹی ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ انکاؤنٹر میں مارے گئے مقامی دہشت گردوں  کے آخری رسومات کی ادائیگی دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کی بھرتی کے لیے ہاٹ اسپاٹ میں بدل جاتی ہے۔

اس کے بجائے ایسے لوگوں کو ان کے گھروں سے دور قبرستانوں میں دفن کیا جاتا ہے، حالانکہ اہل خانہ کے کچھ افراد کو آخری رسومات میں شامل ہونے کی اجازت ہوتی ہے۔لیکن عمران کے معاملے میں گھروالوں کو ان کا چہرہ دیکھنے یا ان کی تجہیزوتکفین کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔

زاہد نے کہا،‘وہ دہشت گرد نہیں تھا۔ تین مہینے پہلے ہی اسے نوکری ملی تھی۔ مجھے اب بھی شک ہے کہ تصویر میں دکھ رہی لاش میرے بھائی کی تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ زندہ ہے۔’

اننت ناگ اور کلگام پولیس کے سینئرسپرنٹنڈنٹ آف پولیس امتیاز حسین اور گریندرپال سنگھ نے عمران کے اہل خانہ  کے الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

اہل خانہ نے جموں وکشمیر انتظامیہ کو قتل کی جانچ کے حکم دینے کے لیے لکھا ہے۔

عمران کےوالد نے اننت ناگ کے ڈپٹی کمشنرپیوش سنگلا کو خط لکھ کر کہا، ‘میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ برائے مہربانی اس معاملے کو ذاتی طور پر دیکھیں اور گھروالوں کو اس کی لاش کو واپس دلانے میں مدد کریں۔ اس معاملے کی ٹھیک سے جانچ کرنے کے لیے ایک ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے تاکہ انصاف ہو۔ ہم قانون پر عمل  کرنے والے لوگ ہیں۔’

معاملے کی جانچ کے لیے لکھا گیا خط۔

معاملے کی جانچ کے لیے لکھا گیا خط۔

خط کو جموں کشمیر کےلیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا اور پولیس انتظامیہ کے دیگر سینئر افسران کو بھی بھیجا گیا ہے۔ سنگلا نے کہا کہ انتظامیہ  ‘معاملے کو دیکھ رہا ہے۔’

یہ پہلی بار نہیں ہے جب سیکیورٹی ایجنسیوں کے ذریعے کشمیری نوجوان پردہشت گردی میں شامل ہونے کا الزام  لگانے کو لےکر گھر والوں  نے مخالفت کی ہے۔

پچھلے مہینے30جون کو کلگام ضلع کے چمر گاؤں میں ہوئے انکاؤنٹر میں17سالہ ذاکر بشیر نام کے ایک شخص کا قتل کیا گیا تھا۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دہشت گردی  میں شامل تھے، لیکن ان کے اہل خانہ نے دعووں کی تردید کی تھی۔

پچھلے سال دسمبر مہینے میں سرینگر کے باہری علاقے میں ایک انکاؤنٹر میں20سالہ اعجاز مقبول کو مار دیا گیا تھا۔ یہاں بھی پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک دہشت گرد تھے، جبکہ ان کےوالد مقبول غنی، جو جموں  وکشمیر پولیس میں کام کرتے ہیں، نے میڈیا کو بتایا تھا کہ وہ اگلے سال پنجاب یونیورسٹی میں پوسٹ گریجو یٹ کورس میں داخلہ  لینے کامنصوبہ بنا رہے تھے۔

اس سے پہلے پچھلے سال جولائی میں جموں کے راجوری کے تین مزدور، جو شوپیاں ضلع میں لاپتہ ہو گئے تھے، فوج کے ذریعے ایک فرضی انکاؤنٹر میں مارے گئے تھے۔ویسے تو پولیس نے اس کی جانچ شروع کی تھی، لیکن مسلح افواج کے خلاف فوجداری کارر وائی کرنے میں شامل طریقہ کار کے مسائل کی وجہ سے اسے روک دیا گیا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)