خبریں

الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی سرکار سے پوچھا-کفیل خان چار سالوں سے سسپنڈ کیوں

ڈاکٹرکفیل خان 2017 میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے، جب گورکھپور کے بی آرڈی میڈیکل کالج میں ایک ہفتے کے اندر60 سے زیادہ بچوں کی موت مبینہ طورپر آکسیجن کی کمی سے ہو گئی تھی۔اس  واقعہ  کے بعد انسیفلائٹس وارڈ میں تعینات ڈاکٹر خان کو سسپنڈ کر دیا گیا تھا۔ وہ لگ بھگ نو مہینے تک جیل میں بھی رہے تھے۔

ڈاکٹر کفیل۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/drkafeelkhanofficial)

ڈاکٹر کفیل۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/drkafeelkhanofficial)

نئی دہلی:الہ آباد ہائی کورٹ نے گورکھپور کے بی آرڈی میڈیکل کالج سے ڈاکٹر کفیل خان کو چار سالوں کے لیےسسپنڈ کیے جانے کے معاملے پر اتر پردیش سرکار سے جواب طلب کیا ہے۔دراصل کفیل خان نے اپنی معطلی  کو چیلنج دیتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ میں رٹ عرضی  دائر کی تھی، جس پرشنوائی کرتے ہوئے عدالت نے سرکار سے کفیل خان کو سسپنڈ رکھنے کی وجہ  پوچھی ہے۔

اس کے ساتھ ہی عدالت نے یوپی سرکار سے ابھی تک معاملے میں محکمہ جاتی کارر وائی پوری نہ ہونے پر بھی سوال کیا ہے۔جسٹس یشونت ورما کی بنچ  نے کہا کہ اتر پردیش سرکار معطلی کے اس حکم  کا جواز بتانے کے لیےمجبور ہے۔

بتا دیں کہ دو ستمبر 2017 کو ڈاکٹرکفیل خان کو گورکھپور کے بی آرڈی اسپتال میں مبینہ طور پر آکسیجن کی کمی سے نوزائیدوں کی موت کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ لگ بھگ نو مہینے تک جیل میں رہے تھے۔ وہ اس معاملے میں نو ملزمین میں سے ایک تھے۔

نوزائیدوں  کی موت کے دو سال بعد 27 ستمبر 2019 کو کفیل خان کو معاملے میں تمام الزامات سے بری کر دیا گیا تھا۔ اسپتال کی انٹرنل  جانچ کمیٹی  نے انہیں معاملے میں الزام سے بری  کر دیا تھا۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، کفیل خان کے ساتھ سسپنڈ کیے گئے دیگر تمام ملزمین کو بحال کر دیا گیا ہے، لیکن کفیل کو کئی جانچ میں کلین چٹ ملنے کے بعد بھی بحال نہیں کیا گیا۔ہندستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، گورکھپور اسپتال میں آکسیجن سپلائی کی مبینہ کمی کے بعد کفیل خان نے کئی نوزائیدوں  کی زندگی بچانے کے لیے آکسیجن سلنڈر کا انتظام  کیا تھا۔

اس کے باوجود آئی پی سی کی دفعہ409 (مجرمانہ طور پر غداری)، 308 (غیر ارادتاًقتل کی کوشش)اور 120بی (مجرمانہ طور پر سازش)کے تحت ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ان پر یہ بھی الزام  لگایا گیا کہ میڈیکل آکسیجن کی کمی کی وجہ  ان کی لاپرواہی تھی۔

حالانکہ، جانچ کمیٹی  کا کہنا ہے کہ وہ انسیفلائٹس وارڈ کے نوڈل افسر نہیں تھے اور ان کی لاپرواہی کی وجہ سے موتیں نہیں ہوئیں۔

بتا دیں کہ 12 دسمبر 2019 کو نے شہریت  قانون (سی اےاے) کے خلاف علی گڑھ  مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو)میں دسمبر میں مبینہ طور پر اشتعال انگیز خطاب  دینے کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل خان کو اتر پردیش کے ایس ٹی ایف نےممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ وہاں وہ  سی اےا ے مخالف  ریلی میں حصہ لینے گئے تھے۔

علی گڑھ کی ایک عدالت نے انہیں ضمانت دی تھی، لیکن انہیں جیل سے رہا نہیں کیا گیا تھا، کیونکہ اتر پردیش پولیس نے ان پر این ایس اےکے تحت معاملہ درج کیا تھا۔پچھلے سال ستمبر میں الہ آباد ہائی کورٹ نے این ایس اے کے تحت کفیل کی حراست کو رد کر دیا تھا اور سرکار کو انہیں فوراً رہا کرنے کے حکم دیے تھے۔

یہاں تک کہ اس وقت کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلےمیں دخل اندازی سے انکار کر دیا تھا۔ڈاکٹر خان2017 میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب بی آرڈی میڈیکل کالج، گورکھپور میں ایک ہفتے کے اندر60 سے زیادہ بچوں کی موت مبینہ طور پر آکسیجن کی کمی سے ہو گئی تھی۔

اس واقعہ  کے بعد انسیفلائٹس وارڈ میں تعینات ڈاکٹر خان کو میڈیکل کالج سے سسپنڈ کر دیا گیا تھا۔ انہیں انسیفلائٹس وارڈ میں اپنی  ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرنے اور ایک نجی پریکٹس چلانے کے الزام  میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں