خبریں

اتر پردیش: دو مکانات مسلمانوں کو فروخت کیے جانے پر مقامی لوگوں نے ’نقل مکانی‘ کی دھمکی دی

واقعہ  مرادآباد کے لاجپت نگر کا ہے۔ ایس ایس پی کے ساتھ علاقے کا دورہ کرنے کے بعد ڈی ایم شیلیندر کمار سنگھ نے کہا کہ انتطامیہ  کی جانچ میں پایا گیا کہ یہ پراپرٹی  کا معاملہ ہے۔ سامنے آیا ہے کہ کچھ مقامی لوگ  ان دونوں مکانات کو خریدنے کے خواہش مندتھے اور اب انہیں پتہ چلا ہے کہ وہ پہلے ہی فروخت ہو چکے ہیں۔

مرادآباد کے لاجپت نگر میں لگا بینر۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

مرادآباد کے لاجپت نگر میں لگا بینر۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: مغربی  اتر پردیش کے مرادآباد کے ایک علاقے میں دو پراپرٹی  مسلمانوں کوفروخت کیے جانے کے بعد نقل مکانی  کی دھمکی دیتے ہوئے وہاں کے رہنے والوں نے پوسٹر لگاکر اپنے گھروں کو بیچنے کا اعلان  کیا ہے۔ حالانکہ ضلع انتظامیہ  نے اشارہ  دیا کہ یہ معاملہ ایک پراپرٹی تنازعہ  سے وابستہ  ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، مرادآباد کے لاجپت نگر علاقے میں واقع شیو مندر کالونی کے لگ بھگ ہر دروازے پر پوسٹر لگا ہے جس پر لکھا ہے، ‘ساموہک پلائن، یہ مکان بکاؤ ہے۔ سمپرک کریں۔’

یہ پوسٹر پچھلےہفتے  کے اواخر میں لگائے گئے اور مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ایسا پڑوس کی دو پراپرٹی  مسلمانوں کو بیچے جانے کی وجہ سے ہے۔

چھوٹی سی کالونی کے دونوں دہانوں پر واقع یہ دونوں پراپرٹی  بدھ کو بند پائی گئیں۔

وہاں پچھلے 40 سال سے فیملی کے ساتھ رہنے والے کاروباری گورو کوہلی نے کہا، ‘یہاں ایک آپسی رضامندی  تھی کہ وہ  اپنے علاقے میں رہیں گے اور ہم اپنے علاقے میں اور یہ پوری طرح سے کام کر رہا تھا۔ اب وہ زبردستی یہاں آکر کیوں رہنا چاہتے ہیں اور ماحول خراب کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری تہذیب الگ الگ ہے۔ ہمارے اپنے تہوار ہیں جو ہم اپنے طریقے سے منانا چاہتے ہیں۔ وہ  اپنے تہوار میں قربانی دیں گے۔’

مخالفت کرنے کے لیے وہاں کے لوگ  روزانہ اپنی کالونی کی شیو مندر پر اکٹھا ہوتے ہیں۔ مندر کے داخلہ دروازے پر ایک بینر لگا ہے جس پر لکھا ہے کہ پورا علاقہ بیچنے کے لیے ہے۔ لوگوں  نے دعویٰ کیا کہ مندر کو بچانے کے لیے بھی یہ احتجاج ہو رہا ہے۔

منگل کو مرادآباد کے ایس ایس پی کے ساتھ علاقے کا دورہ کرنے والےضلع مجسٹریٹ شیلیندر کمار سنگھ نے کہا، ‘احتجاج کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ  نے معاملے کی جانچ کی۔’

سنگھ نے کہا، ‘کالونی میں81 گھر ہیں۔ دو گھروں کے مالکوں نے تقریباً دو مہینے پہلے اپنی پراپرٹی  مسلمانوں کو بیچ دی تھی۔سوموار کو ضلع انتظامیہ  اور پولیس کی ایک جوائنٹ  ٹیم نے ایک جانچ کی۔ ان گھروں میں کوئی نہیں رہ رہا ہے اور وہ باہر سے بند ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم نے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کوئی بھی کسی کو بھی ان کی پراپرٹی  کسی شخص کو فروخت کرنے سے نہیں روک سکتا ہے۔ یہ سامنے آیا ہے کہ کچھ مقامی لوگ  ان دونوں مکانات کو خریدنے کے خواہش مند تھے اور اب انہیں پتہ چلا ہے کہ وہ  پہلے ہی فروخت ہو چکے ہیں۔’

پولیس نے ایک بیان بھی جاری کیا ہے، جس میں لوگوں کو کہیں بھی رہنے کی آزادی کی بات کہی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے پایا کہ مقامی لوگ  چاہتے ہیں کہ ان کی رضامندی  کے بنا باہری لوگوں کو کوئی پراپرٹی  نہ بیچی جائے۔

ممکنہ طور پر آس پاس پھیل رہی افواہوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا، ‘کچھ لوگ اس مدعے کو لےکر سوشل میڈیا کے ذریعے جان بوجھ کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائےگی۔’

وہاں 33 سال سے رہنے کا دعویٰ کرنے والے وویک شرما نے کہا، ‘ہم نے سنا ہے کہ انہوں نے ان مکانات کو حقیقی شرح  سے 2-4 گنا زیادہ  میں خریدا۔ جب مرادآباد میں کہیں بھی پراپرٹی  خرید سکتے ہیں تب انہوں نے ایسا کیوں کیا؟’

یہ پوچھنے پر کہ انہیں قیمتوں کے بارے میں کہاں سے پتہ چلا، شرما نے کہا، ‘ہمیں پتہ ہونا چاہیے کیونکہ ہم میں سے کچھ لوگ ان مکانات کو خریدنے کے خواہش مند تھے۔ ورنہ انہیں کیوں بیچا جائےگا؟ ہم پراپرٹی  خریدنے کے لیے تیار ہیں۔ ہماری مانگ ہے کہ ان بکری کو پلٹ دیا جائے۔’

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک نئے مالک نے کہا کہ انہیں مخالفت کی امید نہیں تھی۔ خریدار نے کہا، ‘انتظامیہ کو قانون کے بارے میں پتہ ہے اور وہ جہاں ہم چاہیں وہاں پراپرٹی  خریدنے اور رہنے کا حق ہے۔ خریدنے اور بیچنے والے خوش ہیں تو سب ٹھیک ہے۔ ہم بھائی ہیں۔ میں نے ایسے ردعمل  کی امید نہیں کی تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس معاملے کو بھڑ کانے والے لوگوں کی سیاست سے اس کا رشتہ  ہے۔’