خبریں

پیگاسس معاملے پر پوچھے گئے سوال پر روک کے لیے مرکز نے راجیہ سبھا سکریٹریٹ کو خط لکھا

سی پی آئی  ایم پی بنوئےوشوم نے راجیہ سبھا میں مرکزی حکومت  سے پوچھا تھا کہ سرکار نے اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا تھا یا نہیں؟ اس پر مرکز کو 12 اگست کو راجیہ سبھا میں جواب دینا تھا۔ سرکار نے راجیہ سبھاسکریٹریٹ کو خط لکھ کر کہا ہے کہ اس معاملے میں کئی پی آئی ایل  دائر کیے جانے کے بعد سے یہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اس لیے اس کا جواب نہیں دیا جانا چاہیے۔

راجیہ سبھا کےڈپٹی چیئرمین ہری ونش نارائن سنگھ (فوٹوبہ شکریہ راجیہ سبھا ٹی وی/پی ٹی آئی)

راجیہ سبھا کےڈپٹی چیئرمین ہری ونش نارائن سنگھ (فوٹوبہ شکریہ راجیہ سبھا ٹی وی/پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی حکومت  نے راجیہ سبھا میں پیگاسس سے جڑے ہوئے سوال پر جواب کو خارج کرنے کی مانگ کی ہے، جس میں پوچھا گیا تھا کہ سرکار نے اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا تھا یا نہیں؟

بتا دیں کہ اسرائیل کی این ایس او گروپ ہی پیگاسس اسپائی ویئرفروخت کرتی  ہے۔ این ایس او گروپ ان دنوں صحافیوں ، کارکنوں  اورسیاستدانوں  کے فون مبینہ  طور پر ہیک کرنے کے لیے پیگاسس اسپائی ویئر کے غلط استعمال  کو لےکرعالمی تنازعہ  کے مرکز میں ہے۔

ہندوستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، سرکار نے کہا کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ میں کئی پی آئی ایل  دائر کیے جانے کے بعد سے پیگاسس کا معاملہ زیر سماعت ہے۔

سی پی آئی  ایم پی بنوئے وشوم کی جانب سےپوچھے گئے ایک عارضی طور پر تسلیم شدہ سوال(پی اےکیو)کا مرکزی حکومت کو 12 اگست کو راجیہ سبھا میں جواب دینا تھا۔

مرکزی حکومت  نے اس ہفتے کی شروعات میں راجیہ سبھاسکریٹریٹ کو خط لکھ کر کہا تھا کہ سی پی آئی  ایم پی بنوئے وشوم کی طرف سے پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں دیا جانا چاہیے۔

ہندوستان ٹائمس سے بات چیت میں وشوم نے بتایا کہ انہیں ان غیررسمی طور پرمطلع  کیا گیا کہ ان کے سوا ل کو قبول نہیں کیا گیا ہے، لیکن انہیں ابھی تک اس پر باضابطہ جواب نہیں ملا ہے۔

انہوں نے مرکزی حکومت پر پیگاسس سے جڑے سوالوں سے بچنے کے لیے راجیہ سبھا ضابطوں  کاغلط استعمال  کرنے کا الزام  لگایا ہے۔

سی پی آئی  ایم پی بنوئے وشوم نے اپنے سوال میں پوچھا تھا، ‘کیا وزیر خارجہ یہ بتانے کی مہربانی کریں گے(1)سرکار نے غیرملکی  کمپنیوں کے ساتھ کتنے ایم او یو (میمورینڈم آف انڈراسٹینڈگ یا معاہدہ نامہ)کیے ہیں،سیکٹروائز تفصیلات کیا ہیں؟ (2) کیا ان میں سے کوئی سمجھوتہ غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ سائبرسیکیورٹی  کے توسط  سے دہشت گردانہ سرگرمیوں  پر روک لگانے کے لیے کیا گیا ہے اور (3) کیا سرکار نےملک  میں سائبر سیکیورٹی  کے توسط  سے دہشت گردانہ سرگرمیوں  پر روک  لگانے کے لیے این ایس او گروپ کے ساتھ کسی طرح کا سمجھوتہ کیا ہے، اگر ہاں تو اس کی تفصیلات  مہیا کرائیں؟’

مرکزی حکومت نے ‘صوبوں  کی کونسل(راجیہ سبھا)کے طریقہ کار اور طرز عمل کے ضابطہ’کے اصول47 (xix) کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ایسے معاملے کی جانکاری نہیں مانگی جانی چاہیے جو معاملہ ہندوستان  کے کسی بھی حصہ میں عدلیہ  میں شنوائی کے لیے زیر سماعت ہے۔

بتا دیں کہ دی وائر سمیت بین الاقوامی میڈیا اداروں  نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف  کیا تھا کہ اسرائیل کی این ایس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے رہنما،صحافی ، کارکن، سپریم کورٹ کے عہدیداروں  کے فون مبینہ  طور پر ہیک کرکے ان کی نگرانی کی گئی یا پھر وہ  ممکنہ نشانے پر تھے۔

معلوم ہو کہ این ایس او گروپ  ملٹری گریڈ اسپائی ویئر صرف سرکاروں کو ہی فروخت کرتی ہیں۔ حکومت ہند نے پیگاسس کی خریداری کو لےکر نہ تو انکار کیا ہے اور نہ ہی اس کی تصدیق کی ہے۔

اس معاملے میں کئی پی آئی ایل  سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہیں، جن پر عدا لت پانچ اگست  سےشنوائی کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ نے عرضی گزاروں  سے اپنی عرضیوں کی کاپی مرکزی حکومت کو بھی بھیجنے کو کہا ہے۔ اب اس معاملے پر 10 اگست کو دوبارہ شنوائی ہوگی۔

ہندوستان ٹائمس کے مطابق،مرکزی حکومت سپریم کورٹ میں ان پی آئی ایل  کا حوالہ دیتے ہوئے اب تک پیگاسس معاملے پر چرچہ کی اپوزیشن  کی مانگ کو خارج کرتی آئی ہے۔ سرکار کا کہنا ہے کہ معاملہ فی الحال عدالت میں زیر سماعت ہے، اس لیے ایم پی وشوم کے سوال کو منظوری نہیں دی جا سکتی۔

لوک سبھا کے سابق جنرل سکریٹری  پی ڈی ٹی آچاریہ نے قبل میں بتایا تھا کہ ایسے بھی موقع ہوئے ہیں، جب اسپیکر نے فیصلہ کیا کہ اگر معاملہ عوامی مفاد میں ہے اور معاملہ زیر سماعت بھی ہے توایوان میں اس پر چرچہ کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا تھا،‘ایوان نے خود پر ہی پابندیاں لگا دی ہیں اور وقت کے ساتھ یہ صورتحال  بدلی ہے۔ زیر سماعت لفظ  کی شدت کم ہو گئی ہے۔ اب آپ تمام زیر سماعت  معاملوں پر یہ ضابطہ لاگو نہیں کر سکتے۔’

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔