خبریں

جنتر منتر پر مسلم مخالف نعرے بازی: عدالت نے تین ملزمین کو ضمانت دینے سے انکار کیا

آٹھ اگست کو دہلی کے جنتر منتر پر ‘بھارت جوڑو آندولن’کے زیر اہتمام منعقد ایک پروگرام  میں مسلمانوں کے خلاف تشددکی اپیل  کی گئی  تھی۔ عدالت نے فرقہ وارانہ نعرے لگانے کےالزام میں گرفتار تین لوگوں کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کو غیر جمہوری تبصرہ  کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

دہلی کے جنتر منتر پرمنعقدپروگرام میں بی جے پی رہنما اشونی اپادھیائے(درمیان)اور گجیندر چوہان۔ (فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر)

دہلی کے جنتر منتر پرمنعقدپروگرام میں بی جے پی رہنما اشونی اپادھیائے(درمیان)اور گجیندر چوہان۔ (فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے جنتر منتر پر ایک مظاہرہ  کے دوران فرقہ وارانہ  نعرے لگانے کے الزام میں گرفتار تین لوگوں کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ایک کو‘نقصان پہنچانے والا’ اور ‘غیرجمہوری’تبصرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

جج نے نشان زد کیا کہ ملزم دیپک سنگھ کو تبصرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جو اس ملک کے شہری  سےمتوقع  نہیں ہے، جہاں سیکولرازم جیسے اصول آئین  میں مضمربنیادی خصوصیت کی قدورقیمت رکھتے ہیں۔ وہیں ملزم پریت سنگھ کو ان کے ساتھ ریلی میں دیکھا جا سکتا ہے اور ملزم  ونود شرما بھی مبینہ جرم  کے وقت  موقع پر موجود تھے۔

ایک ویڈیو میں مبینہ طور پرنظرآ رہا ہے کہ آٹھ اگست کو جنتر منتر پر ایک مظاہرہ کے دوران مسلم مخالف نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی ساجھا کیا گیا ہے، جس کے بعدگزشتہ  سوموار کو دہلی پولیس کو معاملہ درج کرنا پڑا تھا۔

میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ادھو کمار جین نے ملزمین کو اس یکسانیت  کی بنیاد پر ضمانت دینے سے انکار کر دیا کہ معاملے میں شریک ملزم اور بی جے پی کےسابق ترجمان  اشونی اپادھیائے کو بدھ کو ضمانت دے دی گئی تھی۔

جج نے اپنے فیصلے میں کہا،‘ویڈیو کلپ میں آئی ای او(جانچ افسر)کے ذریعے پہچانے گئے ملزم کو نقصان پہنچانے والاتبصرہ  کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جو غیر جمہوری ہے اور جس کی اس ملک  کےشہریوں  سے توقع  نہیں کی جاتی ہے، جہاں سیکولرازم جیسے اصول آئین  میں مضمر بنیادی خصوصیت کی قدروقیمت  رکھتے ہیں۔’

جج نےمبینہ ویڈیو دیکھا اور اس کا کچھ حصہ کھلی عدالت میں چلایا بھی گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر شہری  کو اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن ہراختیار کے ساتھ کچھ ذمہ داری بھی وابستہ ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘آئی پی سی  کی دفعہ153اے کے پس پردہ مذہبی/فرقہ وارانہ ہم آہنگی  کو بچانا ہے اور یہ ہرشہری  کا فرض  ہے کہ وہ اظہا ررائے  کی آزادی  کےحق  کا استعمال کرتے ہوئے مذہبی ہم آہنگی  بنائے رکھے۔ یہ اصل میں سیکولرازم  کا مثبت پہلو ہے۔’

انڈین ایکسپریس کے مطابق، پریت سنگھ کے وکیلوں رودر وکرم سنگھ اور اشونی دوبے نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل واقعہ  کے وقت  وہاں موجود نہیں تھے اور ان کا نام ایف آئی آر میں نہیں تھا۔

دیپک کی جانب  سے پیش ہوئے وکیل اودھ کوشک نے دعویٰ کیا کہ ان کے موکل کو معاملے میں جھوٹا پھنسایا گیا ہے۔

استغاثہ نےدلیل  دی کہ مظاہرہ کے ویڈیوفوٹیج سے ملزم کی موجودگی  کی تصدیق  کی گئی ہے۔

بتا دیں کہ گزشتہ  آٹھ اگست (اتوار)کو دہلی کے جنتر منتر پر ‘بھارت جوڑو آندولن’ کے زیر اہتمام  منعقد پروگرام  میں یکساں سول کوڈ کونافذ کرنے کے حق  میں ریلی ہوئی تھی، جس میں براہ راست  مسلمانوں کے خلاف تشدد کی اپیل کی گئی تھی۔

الزام ہے کہ اس دوران بھڑکاؤ اور مسلم مخالف نعرےبازی کی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر وائرل پروگرام کے ایک مبینہ ویڈیو میں براہ راست مسلمانوں کو قتل کرنے کی اپیل  کی گئی  تھی۔

اس پروگرام  میں بی جے پی رہنما گجیندر چوہان بھی موجود تھے اور انہیں منچ پر دیکھا گیا تھا۔ اس پروگرام  میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوئے تھے۔ دہلی پولیس نے سوموار کو اس سلسلے میں معاملہ درج کیا۔

واقعہ کے بعد سوموار دیر رات اشونی اپادھیائے کے علاوہ ہندو سینا کے  اشونی اپادھیائے کے علاوہ ہندو سینا کے صدر دیپک سنگھ ہندو، ونیت کرانتی، پریت سنگھ اور ونود شرما، جو سدرشن واہنی کے چیف  ہیں، کو گرفتار کیا گیا تھا۔

معلوم ہو کہ  جنتر منتر پر اس پروگرام کا انعقادمبینہ  طور پر پولیس کی بغیرمنظوری کے ہوا تھا۔۔ معاملے میں آٹھ اگست کی شام تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور موقع پر بھیڑ بڑھتی گئی۔

رپورٹ کے مطابق ، اگلے دن نو اگست کی صبح پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ153 اے مختلف گروپوں  کے بیچ دشمنی کو بڑھاوا دینا اور 188سرکاری افسر کےقانون حکم  کی خلاف ورزی  کے ساتھ ساتھ ڈی ڈی ایم اے یکٹ کے تحت کووڈ 19 پروٹوکال کی خلاف ورزی  سے متعلق معاملہ درج کیا تھا۔

پروگرام  کی تصویروں اور ویڈیو میں لوگوں کو کووڈ 19 پروٹوکال کی خلاف ورزی  کرتے ہوئے ماسک نہیں پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس پروگرام  کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں پروگرام  میں موجود بھیڑ کو ایک یوٹیوب چینل نیشنل دستک کے رپورٹر کو ہراساں  کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ بھیڑ رپورٹر سے جبراً جئے شری رام کا نعرے لگانے کو کہہ رہی ہے۔ رپورٹر کے منع کرنے پر اسے جہادی کہا گیا۔

بی جے پی رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل اشونی اپادھیائے نے سوموار کو دعویٰ کیا تھا کہ موقع پر نعرےبازی ان کے پروگرام کے ختم ہونے کے بعد ہوئی تھی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں جانکاری نہیں ہے کہ ویڈیو میں دکھائی دے رہے شخص کون ہیں اور کہا تھا کہ وہ جنتر منتر پر منعقد پروگرام کے آرگنائزر نہیں ہیں۔

اپادھیائے نے کہا، ‘مجھے نہیں پتہ کہ وہ کون ہیں۔ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا، نہ ہی میں ان سے کبھی ملا ہوں اور نہ ہی انہیں وہاں بلایا تھا۔ جب تک میں وہاں تھا، وہ وہاں نظر نہیں آئے۔ اگر ویڈیو فرضی ہے، تو ‘بھارت جوڑو آندولن’کو بدنام کرنے کے لیےیہ پروپیگنڈہ  کیا جا رہا ہے۔

حالانکہ‘بھارت جوڑو آندولن’ کی ترجمان شپرہ شریواستو نے بتایا کہ مظاہرہ  اشونی اپادھیائے کی سربراہی  میں ہوا تھا۔ حالانکہ انہوں نے مسلم مخالف نعرے لگانے والوں سے کسی طرح  کےتعلقات  سے انکار کیا ہے۔ اپادھیائے نے بھی مسلم مخالف نعرےبازی کے واقعہ میں شامل ہونے سے انکار کیا۔

اس معاملے کے سلسلے میں آل انڈیا لائرس ایسوسی ایشن فار جسٹس (اےآئی ایل اےجے)نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر ازخود نوٹس  لےکر پی آئی ایل دائر کرنے کو کہا ہے۔ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اس دوران جو نعرےبازی کی گئی، وہ نسل کشی  کی کھلی  اپیل تھی۔

دہلی ہائی کورٹ وومین لائرس فورم نے بھی سپریم کورٹ کو الگ سے خط لکھ کر نعرےبازی کرنے میں شامل لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کی مانگ کی تھی۔

 (خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)