خبریں

پیگاسس انکشافات پر نریندر مودی اور ایمانویل میکخواں کے ردعمل میں فرق کے کیامعنی ہیں؟

فرانس کی سرکار نے نہ صرف‘غیرمصدقہ میڈیا رپوٹس’کو سنجیدگی  سے لیا، بلکہ جوابدہی طے کرنے اور اپنے شہریوں، جو غیر قانونی جاسوسی کا شکار ہوئے یا ہو سکتے تھے،ان  کے مفادات  کے تحفظ کے لیے آزادانہ طریقے سے کارروائی کی۔ اس کےبرعکس  ہندوستان  نے نگرانی یا ممکنہ سرولانس کے شکار افراد کو ہی مسترد کر دیا۔

فرانسیسی صدرایمانویل میکخواں کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فائل فوٹو: پی آئی بی)

فرانسیسی صدرایمانویل میکخواں کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فائل فوٹو: پی آئی بی)

اگاتھا کرسٹی نے لکھا ہے ؛‘جرم چھپائے نہیں چھپتا ہے۔ اپنے طریقوں کو بدلنے کی چاہے جتنی کوشش کرو، جو  تم کروگے، تمہاری پسند، تمہاری عادتیں، تمہارا رویہ اور تمہاری روح  کو تمہارے قدم ظاہر کر ہی دیتے ہیں۔’

گزشتہ مہینے پیگاسس پروجیکٹ ایک بین الاقوامی میڈیا گروپ،دی وائر جس کا ایک حصہ ہے نے دنیا بھر میں سرکاروں کی جانب سے عالمی رہنماؤں،حزب اختلاف کے سیاستدانوں،صحافیوں اور ہیومن رائٹس کے کارکنوں  کوملٹری گریڈ کے اسرائیلی اسپائی ویئر پیگاسس کے ذریعے جاسوسی کا نشانہ بنائے جانے کا انکشاف کیا۔

حقیقی اور ممکنہ نشانے یوں تو چار براعظم کے آرپار پھیلے ہوئے تھے، لیکن ہم صرف دو ممالک پر اپنی  توجہ مرکوز کر سکتے ہیں تاکہ ان انکشافات کو لےکران ممالک کے ردعمل کے فرق کو سمجھا جا سکے اور یہ بھی سمجھ میں آ سکے کہ آخر ان کےردعمل میں فرق  کے کیا معنی ؟

لموند میں شائع  فرانسیسی ناموں کےدو زمرےتھے؛ان 13افراد کی ایک مختصرفہرست، جن کے فون پیگاسس سے متاثر پائے گئے تھے یا انہیں پیگاسس کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایک دوسری لمبی فہرست ایسےافراد کی تھی، جن کے فون کافارنسک ٹیسٹ نہیں کیا جا سکا تھا، لیکن جو ممکنہ طور پر نشانے پر تھے۔

یہاں اس بات کو ذہن میں رکھا جا سکتا ہے کہ ان کے نمبر اسی فہرست میں تھے جس میں حقیقت  میں ہیک کیے گئے فون کے نمبر بھی تھے۔

اس بڑی فہرست میں سب سے اہم نام فرانس کے صدرایمانویل میکخواں کا ہے۔ان کے ساتھ ایک درجن سے زیادہ کابینہ وزیروں  کے نام بھی تھے۔ ایسا لگتا ہے ان سبھی فرانسیسی نشانوں کا انتخاب اسرائیلی اسپائی ویئر کمپنی این ایس او گروپ کے ایک مراکشی  کلائنٹ، جس کی ابھی تک پہچان نہیں کی جا سکی ہے، کے ذریعے کیا گیا۔

ہندوستان میں بھی دی وائر کے ذریعے اجاگر کیے گئے ناموں کےدو زمرے تھے۔ اس نے شروع میں پایا کہ اپوزیشن رہنما ممتا بنرجی کے سیاسی صلاح کارپرشانت کشور کے فون سمیت10فون یا تو پیگاسس سے متاثر تھے یا انہیں ہیک کرنے کی کوشش کے اشارے ملے تھے۔ اضافی  فارنسک جانچ کے بعد یہ تعداد اب 13 ہو گئی ہے۔

ممکنہ نشانوں کی دوسری فہرست میں تقریباً300مصدقہ نمبر تھے۔ ان میں کانگریس رہنما راہل گاندھی اور ان کے سات معاونین اور دوست، مودی سرکار کے دو وزیر،سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا، سپریم کورٹ کے رجسٹرار، سی بی آئی کے ایک سابق چیف اور 2019 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر جنسی استحصال کاالزام لگانے والی ایک خاتون کے نمبر شامل تھے۔

ان سارے نمبروں کا انتخاب این ایس اوگروپ کے پہچان نہ کیے جا سکے کلائنٹ کے ذریعےکیا گیا لگتا ہے۔ اتفاق سے اسی کلائنٹ نے دہلی کے کئی غیرملکی  ڈپلومیٹس اور 800 سے زیادہ پاکستانی نمبروں کا بھی انتخاب کیا۔

چونکہ یہ نمبر جاسوسی یا کاؤنٹرٹیررازم سے متعلق تھے، اس لیے دی وائر نے ان کے بارے میں رپورٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ان کے نمبروں کی اسی ڈیٹابیس میں موجودگی، جس میں ہندوستانی نمبر بھی تھے، اس ملک کی جانب ایک اہم اشارہ کرتے ہیں، جس سے اس انجان کلائنٹ کا تعلق  ہے۔

فرانس نے اسرائیل پر اٹھائی انگلی، ہندوستان  این ایس او کے دفاع میں اترا

چلیےاب ہم ان انکشافات پر ہندوستانی اورفرانسیسی سرکاروں کے ردعمل کا موازنہ کرتے ہیں۔ میکخوان کا نام سامنے آتے ہی فرانس نے یہ نہیں کہا کہ -‘ثبوت کہاں ہے؟’بجائے اس کے، اس نے کئی طرح کی جانچ کا اعلان کر دیا۔

یہ ایک حساس معاملہ تھاکیونکہ مراکش  ایک نزدیکی اسٹریٹجک اتحادی ہے اور فرانس کو انسداد دہشت گردی  کے محاذ پر رباط کے تعاون  کی ضرورت ہے۔

 میکخواں نے اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کو جواب مانگنے کے لیے فون کیا۔ بینیٹ نے این ایس او کے کام کاج کی جانچ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی  کا قیام کیا اورکمپنی پر چھاپہ بھی مارا۔ انہوں نے فرانس کو مطمئن کرنے کے لیے اپنے وزیردفاع کو پیرس بھیجا کہ اس معاملے کی تہہ تک جانے میں فرانس کی پوری مدد کی جائےگی۔

فرانس کی نیشنل سائبر سیکیورٹی ایجینسی اے این این ایس آئی نے نشانے کی فہرست میں نام آئے تین صحافیوں کےفون کی فارنسک جانچ کی اور پیگاسس پروجیکٹ کے دعووں کی تصدیق کی:یہ فون اصل میں اسپائی ویئر سےمتاثر تھے۔

دوسرےلفظوں میں فرانسیسی سرکار نے نہ صرف ‘غیرمصدقہ میڈیا رپورٹس’کو سنجیدگی سے لیا، بلکہ اس نے جوابدہی طے کرنے اور اپنے شہریوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے، جو غیرقانونی جاسوسی کا شکار ہوئے یا ہو سکتے تھے، آزادانہ طریقے سے کارروائی کی۔

اس کےبرعکس ہندوستان کے الکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی کے وزیر اشونی ویشنو نےپارلیامنٹ سے کہا، ‘بےحد سنسنی خیز’ انکشافات‘ہندوستانی جمہوریت اور اس کے اداروں  کو بدنام کرنے کی کوشش’ہیں۔ انہوں نے اس کے بعد لیک ہوئے ڈیٹابیس کو لےکر دی وائر کے ہی احتیاطی دعوے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ‘اس رپورٹ کے پبلشر کا کہنا ہے کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس مطبوعہ فہرست کے نمبر سرولانس کے اندر تھے۔’ساتھ ہی انہوں نے یہ جوڑا کہ این ایس او نے رپورٹ کے دعووں کو خارج کر دیا ہے۔

حالانکہ ویشنو کی وزارت نے پیگاسس پروجیکٹ کے سوالوں کے جواب میں ایک غیر دستخط شدہ بیان جاری کیا، جس میں اس نے کہا، ‘کچھ چنندہ لوگوں کی سرکاری جاسوسی کے الزامات کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے، نہ ہی اس میں کسی بھی طرح کی کوئی سچائی ہے۔’

انہوں  نے پارلیامنٹ کو ایسی کوئی یقین دہانی  نہیں کرانے کی  ہوشیاری دکھائی۔ آخرکارپارلیامنٹ کے فلورپر دیے گئے بیانات کی قانونی اہمیت ہوتی ہے۔

چونکہ مودی سرکار نے ناموں یامتاثرہ فون کی فہرست سے کسی طرح کے تعلق  سے انکار کیا، اور پیگاسس صرف خودمختار اداروں  کو فروخت کیاجاتا ہے، اس کے ردعمل میں فرانس کے ردعمل کی جھلک دکھنی چاہیے تھی۔

غورطلب ہے کہ فرانس نے ایک غیر ملکی طاقت کی جانب سے اپنے شہریوں کو نشانہ بنائے جانےکےالزامات کو لےکرجانچ کا اعلان کرنے میں کوئی وقت نہیں گنوایا۔

فرانس کےبرعکس وزیر اعظم مودی نے اپنے اسرائیلی ہم منصب کو فون نہیں کیا۔ این ایس او اور اس کے کلائنٹ کی جانچ کا حکم  دینے کی بات تو دور، مودی کے وزیر نے اصل میں اسرائیل کی کمپنی کے ہی بیان کا حوالہ ان انکشافات کو ‘خارج’کرنے کے لیے دیا، جنہوں نے این ایس او اور اسرائیل کے لیے فرانس میں بحران پیدا کر دیا ہے۔

ان کی سرکار پارلیامنٹ میں پیگاسس پر بحث کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور اس نے ایک بنیادی سوال کا جواب دینے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے:کہ کیا کسی سرکاری  ہندوستانی ایجنسی نے پیگاسس کی خریداری  کی ہے یا اس کا استعمال کیا ہے؟

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

سپریم کورٹ کے سامنےعرضیاں

اس پس منظر میں ہی سپریم کورٹ نے پچھلے ہفتے سرکار کے ذریعےصحافیوں،اپوزیشن رہنماؤں،ہیومن رائٹس کے کارکنوں اور دوسروں کے خلاف پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کرنے کو لےکر جواب کی مانگ کرنےوالی کئی عرضیوں پر ایک گھنٹے تک شنوائی کی۔

کورٹ کادروازہ کھٹکھٹانے والوں میں شامل چھ افراد کے نام پیگاسس پروجیکٹ کے ہاتھ لگے لیک ہوئے ڈیٹابیس میں ملے ہیں۔ چھ صحافیوں میں سے دوصحافی پرنجوئے گہا ٹھکرتا اور ایس این ایم عابدی کے فون کے پیگاسس سے متاثر ہونے کی تصدیق  ہوئی ہے۔

ہندوستان کے چیف جسٹس این وی رمنا کی قیادت والی بنچ نےعرضی گزاروں سے ان کی عرضیوں  کےوقت کو لےکر سوال پوچھا کیونکہ ہندوستان میں121 لوگوں کے خلاف پیگاسس کے استعمال کی پہلی جانکاری2019 میں ہی سامنے آئی تھی۔ بنچ کے جج یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ ان کے پاس میڈیا رپورٹس کے علاوہ اور کیا ثبوت ہیں اور کیوں ابھی تک ایک بھی مبینہ متاثرہ شخص نے پولیس کی سائبر برانچ  میں ایف آئی آر دائر نہیں کی ہے۔

یہ سب جائز سوال ہیں، بھلے ہی کسی کو یہ لگ سکتا ہے کہ ان کے جواب سب کو معلوم ہیں۔

موجودہ عرضیوں کے 2019 کی جگہ ابھی دائر کیے جانے کی اہم وجہ یہ ہے کہ کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے والے کچھ لوگوں کو اپنے نشانہ بنائے جانے کی جانکاری پچھلے مہینے پیگاسس پروجیکٹ کی رپورٹس کی اشاعت کے بعد ہی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ، 2019 کے برعکس اس بار جس بڑے پیمانے پر لوگوں کو نشانہ بنائے جانے کی بات سامنے آئی ہے اور(فارینسک تحقیقات کے توسط سے)پیگاسس کے استعمال کے ثبوت نے اس سرولانس کو ایک نہ ٹالا جا سکنے والا مسئلہ بنا دیا ہے۔

جہاں تک ثبوت کا سوال ہے، کورٹ کی پناہ میں جانےوالے کم از کم دو لوگوں کے پاس ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ٹیکنیکل لیب کے ذریعے تیار کی گئی فارنسک رپورٹ ہے، جس سے ان کے فون میں پیگاسس کی موجودگی  کی تصدیق ہوتی ہے۔

کل ملاکر ہندوستان  کے 13 اوردنیا بھر میں40 سے زیادہ ایسے فون ہیں، ان میں فرانس کے تین اسمارٹ فون بھی شامل ہیں، جن کی جانچ فرانسیسی سرکار نے کی ہے۔

ان فون کےسرکاری طور پر جانچ کیے جانے سے پہلے ہی فرانس سرکار نے قدم اٹھاتے ہوئے جانچ کااعلان کر دیا تھااور اسرائیل سے وضاحت طلب  کر چکی تھی۔

ایف آئی آر کا شوشہ

جہاں تک ایف آئی آر کا سوال ہے، ہمیں خود کو یہ یاد دلانا چاہیے کہ ہندوستان  میں19 لوگوں نے نومبر، 2019 میں سرکار کو ان کے خلاف پیگاسس کے استعمال کی شکایت کرتے ہوئے چٹھی لکھی تھی۔ ایسا انہوں نے وہاٹس ایپ کی جانب سے انہیں ان کے فون کے ہیک کیے جانے کی اطلاع  دیے جانے کے بعد کیا تھا۔

معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شکایت کی رسیدبھی نہیں دی گئی۔ نہ ہی سرکار نے، جس کے پاس فون ہیکنگ کے معاملے کی جانچ کرانے کی ہدایت  دینے کا اختیار تھا اور جو اس کی ذمہ داری تھی، اس معاملے کی جانچ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔

کیا ملاوٹی دوائی کھانے کی وجہ سےدرجنوں لوگوں کے بیمار پڑ جانے کی صورت میں سرکار ان میں سے ہرایک کے ذریعے پولیس اسٹیشن میں شخصی شکایت درج کرائے جانے تک انتظار کرتی ہے؟ یا پولیس اس کے بنانے والوں کے خلاف فوراً حرکت میں آ جاتی ہے؟ مگر 19 فون کی ہیکنگ کو لےکرسرکاری ردعمل قابل ذکر طور پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے والاتھا اور اس کی وجوہات  کا اندازہ لگانا کوئی مشکل  کام نہیں ہے۔

پیگاسس کوبنانے والی کمپنی این ایس او گروپ نے ایک کیلوفورنیائی کورٹ کو بتایا ہے(جہاں وہاٹس ایپ نے اس کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا ہے)کہ یہ اپنے اسپائی ویئر کو صرف سرکاروں کو فروخت کرتی ہے۔ اس انڈرٹیکنگ کے مد نظر یہ ماننا منطقی  ہے کہ ہندوستان  میں پیگاسس کے نشانے سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے چنے گئے ہیں۔

اس پس منظر میں اور جس بڑے پیمانے پر سول سوسائٹی کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، اس کے مد نظر یہ امید کرنا بےمعنی ہے کہ قانون کے‘عام ’ضابطےمتاثرین کے سوالوں کا بھی کوئی جواب دے سکتے ہیں،انصاف کرنے کی بات تو جانے ہی دیجیے۔

آسان لفظوں میں کہا جائے، تو نیوز رپورٹس کے علاوہ خاطرخواہ تصدیق کے لائق اطلاعات موجود ہیں، جن سے یہ اشارہ  ملتا ہے کہ ہمارے سامنے معاملہ ایسےافرادکی جاسوسی کرنے کے لیے بہت بڑے پیمانےپرغیر قانونی طریقوں کا استعمال کرنے کا ہے، جنہیں ممکنہ قومی سلامتی یاپبلک آرڈر کے لیے خطرہ نہیں مانا جا سکتا ہے۔

فی الحال اس معاملے کی حالت یہ ہے؛

سرکار نے 2019 میں پارلیامنٹ میں وہاٹس ایپ کے ذریعے ہندوستان میں121افراد کو پیگاسس کا نشانہ بنائے جانے کی جانکاری  دینےوالی چٹھی ملنے کی بات کو قبول کی تھی۔

سرکار یہ تسلیم یا انکار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس نے پیگاسس کو خریدا اور اس کا استعمال کیا۔

پیگاسس پروجیکٹ کے فارنسک نتیجے ہمارے سامنے ہیں۔

فرانسیسی سرکار کے اپنے فارنسک ٹیسٹ کے نتیجہ ہمارے سامنے ہیں۔

این ایس او گروپ نے پیگاسس کے غلط استعمال کی رپورٹس کے بعد ان ممالک میں جہاں جانچ زیر التوا ہے، پیگاسس کے آپریشن کو ‘ملتوی’کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے سامنے عرضی دائر کرنے والے عرضی گزاروں کی دلیل ہے کہ کسی سرکاری  ایجنسی کے ذریعے لمبےوقت  سے منظم  طریقے سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

سچائی یہ ہے کہ پرشانت کشور اور ایم کے وینو کے فون کی فارنسک جانچ سے پتہ چلا ہے کہ ان کے خلاف پیگاسس کا استعمال ابھی  حال میں جون جولائی،2021 میں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ان الزامات کو سنگین مانتے ہوئے کہا ہے کہ سچائی کو سامنے لانا ضروری ہے۔

قومی سلامتی  سے متعلق سرکار کی کسی بھی جائز تشویش  کو آسانی سے عرضی گزاروں کی جانب سے مانگ کی جا رہی عدالتی جانچ کے دائرے سے باہر رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن قانون کےضابطے سے چلنے والے کسی بھی جمہوری ملک یا سماج میں سرکار کے ذریعے اپنے سیاسی حریفوں،صحافیوں، وکیلوں، کورٹ کے عہدیداروں،ہیومن رائٹس کے کارکنوں، جنسی استحصال کے متاثرین اور دوسروں  کے خلاف اس طرح کےسرولانس کو قبول نہیں کیا جا سکتا ہے۔

وہ بھی ذاتی سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے عوامی  خزانے سے خریدے گئے اسپائی ویئر کا استعمال کرکے۔ اسےقومی سلامتی کی ‘حفاظت’کرنا نہیں کہا جا سکتا ہے۔ یہ سیدھے سیدھے بدعنوانی  ہے اور کچھ نہیں۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)