خبریں

گڑگاؤں لنچنگ: عینی شاہد نے کہا-انہوں نے کرنٹ لگا کر میرے سالے کو مار ڈالا

گزشتہ دو اگست کوگڑگاؤں کے کچھ مقامی لوگوں نے اتر پردیش سے آئے دو مہاجر مزدوروں کو اغوا کرکے ان پر ایک لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگاتے ہوئے بے رحمی سے پیٹا تھا۔اس کی وجہ  سے 21 سالہ انج گوتم کی موت ہو گئی اور ان کے بہنوئی سنجے بری طرح زخمی ہو گئے۔

اتر پردیش کے جون پور کے ایک دلت میاں بیوی سنجے اور ہیراوتی کا کہنا ہے کہ وہ گڑگاؤں میں اپنی زندگی کے لیےفکرمند ہیں۔ (فوٹو: انومیہایادو/دی وائر)

اتر پردیش کے جون پور کے ایک دلت میاں بیوی سنجے اور ہیراوتی کا کہنا ہے کہ وہ گڑگاؤں میں اپنی زندگی کے لیےفکرمند ہیں۔ (فوٹو: انومیہایادو/دی وائر)

نئی دہلی: ہریانہ کے گڑگاؤں میں گزشتہ دنوں ایک نوجوان کو پیٹ پیٹ کر قتل کرنے کو لےکر ان کے اہل خانہ نے بےحد تکلیف دہ آپ بیتی بیان کی ہے۔

اتر پردیش کے رہنے والے مزدور سنجے، جو مہلوک نوجوان انج کمار گوتم کے بہنوئی  ہیں، نے بتایا کہ اس واقعہ کی وجہ سے وہ بےحد خوف زدہ  ہیں اور سو بھی نہیں پا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملزمین نے بجلی کا کرنٹ دےکر انج کی جان لے لی۔

سنجےگڑگاؤں کے کادی پورانڈسٹریل ایریا میں رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس سادے کپڑوں میں ان کے گھر ان کا بیان درج کرنے آتی ہے، چونکہ وہ  باہری ہیں اس لیے مقامی لوگوں کو یہ بات پسند نہیں آئےگی کہ کوئی ہریانہ کے لوگوں کےخلاف بیان دے۔

وہ کہتے ہیں،‘مجھے ڈر ہے کہ کسی دن کوئی اور آکر کہے گا کہ وہ پولیس ہے اور مجھے بےوقوف بناکر اپنے ساتھ لے جائےگا، پھر اغوا کرکے مجھے مار دےگا۔ آخرکار میں ایک باہری ہوں۔’

تیس سالہ سنجے کہتے ہیں،‘اگر مجھے یہاں رہنا پڑےگا تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔ میں اتنا ڈرا ہوا ہوں کہ پوری رات سو نہیں پاتا ہوں۔’

دراصل گزشتہ دو اگست کو کچھ مقامی لوگوں نے سنجے اور ان کے 21سالہ سالے انج کمار گوتم، جو اتر پردیش کے جون پور ضلع سے پچھلے مہینے شہر میں کام کرنے آئے تھےکو اغوا کر لیا تھا۔ انہوں نے گوتم کی پیٹ پیٹ کر جان لے لی اور اس دوران سنجے شدید طور پر زخمی  ہو گئے تھے۔

گڑگاؤں کے سیکٹر37سی میں بیڈمنٹن اکادمی چلانے والے لوگوں نے دونوں پر ہیرٹیج بیڈمنٹن اکادمی کی 16سالہ اسٹوڈنٹ کا پیچھا کرنے اور اس کا جنسی استحصال کرنے کا الزام لگایا تھا۔

سنجے کی حالت  پہلے سے ہی کافی خراب ہے۔ربر بنانے والی مشین میں کام کرنے والے سنجے کی اسی سال فروری مہینے میں داہنے ہاتھ کی دو انگلیاں کٹ گئی تھیں۔ اس واقعہ کی وجہ سےپچھلے پانچ مہینے سے ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے اور قرض کا بوجھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ وہ  اس سے نجات پا ہی رہے تھے کہ ان کے ساتھ یہ خوفناک واقعہ ہو گیا۔

انہوں نے اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اس دن چندن کمار، جو بہار کے رہنے والے ہیں اور پلمبر کا کام کرتے ہیں، نے انہیں کام لگوانے کے لیے بلایا تھا۔ چونکہ گوتم کی اس دن چھٹی تھی، اس لیے دونوں ساتھ میں چندن سے ملنے گئے تھے۔

سنجے نے کہا،‘اس سوموار چندن نے ہمیں اپارٹمنٹ بلڈنگ کے پاس بلایا تھا۔ ہم گیٹ پر پہنچے ہی تھے کہ ایک بڑی کالے رنگ کی کار ہمارے سامنے آکر رکی۔ اس میں تین لوگ تھے۔ وہ گاڑی سے باہر نکلے اور مجھےاور انج کو چور، غنڈہ کہنے لگے۔ وہ ہمیں پیٹنے لگے اور ہم پر لڑکیوں کوہراساں کرنے کا الزام لگاکر گاڑی میں بٹھا لیا۔ میں نے ان سے ہاتھ جوڑکر منت کی، لیکن انہوں نے نہیں سنا۔’

سنجے نے بتایا کہ اس کے بعد وہ انہیں ہیرٹیج بیڈمنٹن اکادمی لے گئے جہاں پہلے سے ہی10-15 لوگ موجود تھے۔ سنجے نے وہاں بھی ان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا ہے، وہ صرف نوکری کے سلسلے میں وہاں گئے تھے۔

سنجے نے کہا،‘میں نےانہیں چندن کا موبائل دیا تاکہ وہ اسے کال کرکے پتہ کر سکیں کہ ہم سچ کہہ رہے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد انہوں نے چندن کو اکادمی بلایا اور اس کی بھی پٹائی کی۔ ہمیں پیٹنے والے علاقے کے پلاٹ مالک ہیں۔ اس میں سے ایک نے کہا  تھا کہ آج ہم ان بہاریوں کو سبق سکھائیں گے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ تم لوگ کیا سوچتے ہو کہ اس طرح کی ہیراسٹائل رکھنے سے اسمارٹ ہو جاؤگے۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘اگر کوئی مزدور اپنے داڑھی یا بالوں کی ہیراسٹائل ایک خاص انداز میں رکھتا ہے تو کیا اس کا مطلب خواتین پر حملہ کرنا ہے؟ انہوں نے مجھے اتنی بری طرح سے مارا تھا کہ میرے ہاتھ کے ناخون ٹوٹ گئے تھے۔ جیسے ہی میں چلایا،10-15 لوگ اور اکٹھا ہوئے اور انہوں نے مجھے اور انج کو پٹتے ہوئے دیکھا۔ دو بزرگ کرسی پر بیٹھے بیٹھے دیکھتے رہے۔ میں نے ان سے منت کی کہ ان لوگوں کو روکیں، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔’

سنجے نے کہا کہ بیڈمنٹن اکادمی کے اسٹاف نے انج کو بہت بری طرح پیٹا تھا اور بعد میں کرنٹ لگاکر اس کی جان لے لی۔

انہوں نے کہا،‘ایک شخص انج کے سر پر بیٹھ گیا تھا اور دوسرے نے اس کے دونوں پیروں کو باندھ دیا اور پیٹ کے بل الٹ دیا۔ اس کے بعد ایک نے کہا کہ اسے کرنٹ لگا دو۔ اس پر بندہ نام کے ایک شخص نے سوئچ بورڈ میں تار لگایا اور انج کے پیروں پر کرنٹ لگا دی، جس سے اسے تیزی سے جھٹکا لگا۔ میرے آنکھوں کے سامنے انج کاجسم  پیلا پڑ گیا۔ میں روتا رہا، میں بے بس تھا۔’

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ان لوگوں نے انہیں ایک ٹوائلٹ میں بند کر دیا۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ اپنے سالے کی باڈی یہاں سے لےکر جاؤ۔ چونکہ سنجے کے سر اور پیر پر بری طرح چوٹ لگی تھی، اس لیے وہ انج کو وہاں سے لے جانے کے قابل نہیں تھے۔ بعد میں پولیس اکادمی پر پہنچی، جس کے بعد انہیں سرکاری اسپتال لے جایا جا سکا۔

سنجے نے بتایا،‘میری بیوی ہیراوتی اسپتال آئی تھی۔ ہمیں ڈر لگ رہا تھا۔ آدھی رات کو ہم چپ چاپ اسپتال سے نکل گئے کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ مقامی لوگ ہمیں اسپتال میں مار دیں گے۔’

پولیس نے کھیل اکادمی کے مینجرمنجیت اور صفائی اہلکار بندہ پرساد کو گرفتار کیا ہے۔ گڑگاؤں کے سیکٹر10 پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر کے مطابق انج کمار گوتم کے قتل کے لیے‘منجیت، پنیت، منیش اور 3-4 دیگر’ کے خلاف الزام درج کیے گئے ہیں۔

گڑگاؤں حکام نے کہا ہے کہ انہیں اندیشہ ہے کہ لڑکی نے چھیڑ چھاڑ کو لےکرغلطی سے ان تین مزدوروں کی پہچان کی تھی۔

حالانکہ ایک ہفتے بعد پولیس نے لڑکی کےباپ کی جانب سے پولیس کو کی گئی شکایت کی بنیادپر سیکٹر10 پولیس تھانے میں دوسری ایف آئی آر درج کی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے، منجیت اور بندہ پرساد نے بھیڑ سے تینوں مزدوروں کو بچایا تھا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس دوسری ایف آئی آر میں مہلوک انج کمار گوتم، سنجے، چندن کمار اور ایک دیگر کو ملزم بنایا گیا ہے اور ان پر آئی پی سی کی دفعہ365(اغوا)، 511(عمرقیدیا دیگر جیل والے جرم کرنے کی کوشش)، 506 (مجرمانہ طور پردھمکی) کے ساتھ ساتھ پاکسو ایکٹ کی دفعہ آٹھ اور 12 کے تحت معاملے درج کیے گئے ہیں۔

ویسے اس ایف آئی آر کے سلسلے میں ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہے، لیکن مزدور کے اہل خانہ اس کیس کو لےکر بےحدفکرمند ہیں۔

اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس(کرائم)پریت پال سانگوان نے 14اگست کو دی وائر کو بتایا کہ پولیس نے اس دوسری ایف آئی آر کے تحت ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘دونوں دعووں کی جانچ کی جائےگی اور ہمیں جو ثبوت ملیں گے اس کی بنیاد پر ہم آگے بڑھیں گے۔’

سنجے نے کہا کہ وہ  اور ان کی بیوی دو سال پہلے اپنے دو بیٹوں کے ساتھ اتر پردیش کے جون پور میں بدلاپور کے پاس ادےپور گیلوا گاؤں سے 750 کیلومیٹر دور گڑگاؤں آئے تھے۔ وہ دلت ہیں اور ان کے پاس گاؤں میں کوئی زمین نہیں ہے۔ گھر چلانے کے لیے سنجے کھیت پر مزدوری اورمقامی کنسٹرکشن سائٹ پر کام کیا کرتے تھے۔

سال2019 میں گڑگاؤں پہنچنے کےبعد سنجے نے پہلی بار ماروتی کمپنی کے لیے آٹوموبائل پارٹس بنانے والی ایک پاور پریس یونٹ میں ایک مشین آپریٹر کے طور پر کام کیا تھا۔ یہاں انہوں نے آٹھ گھنٹے کام کرنے پر فی مہینے10500 روپے ملتے تھے۔ جولائی 2020 تک تو یہ سب ٹھیک چلا، لیکن اس کے بعد ان کے سامنے ایک ایک کرکے کئی مشکلیں کھڑی ہو گئیں۔

انہوں نے بتایا،‘پچھلے سال مشین میں داہنے ہاتھ کی شہادت کی  انگلی میں چوٹ آ گئی تھی۔ پھر ہیراوتی کو لگا کہ پاور پریس خطرناک کام ہے، مجھے کسی اور کام کی تلاش کرنی چاہیے۔’

اس کے بعد وہ کادی پورمیں ربر شیٹ کو پروسیس کرنے والی لین7 میں چل رہی ایک اکائی میں شامل ہو گئے۔ جلد ہی ان کے نئے کام  پر انہیں اور بھی شدید چوٹ لگی۔

سنجے نے بتایا،‘ربر شیٹ بنانے والی مشین شیٹ کو کمپریس کرتی ہے جیسے آپ نے گنے کے رس کی مشینوں میں دیکھا ہوگا۔ میں ایک پرانی، پہلے سے استعمال کی ہوئی مشین چلا رہا تھا جسے فرم نے کم قیمت پر خریدا تھا۔ اس کی بئرنگ ٹوٹ گئی اور یہ میرے ہاتھ پر گر گیا اور میری انگلیاں کچل گئیں۔’28 فروری کی اس حادثے میں انہوں نے دو انگلیاں کھو دیں۔

سنجے بنا کسی تحریری معاہدہ  کے کام کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے مالک نے انہیں پڑوس کے ایک چھوٹے نجی اسپتال میں بھرتی کرایا اور ان کی شروعاتی سرجری اور داخلہ  کے لیے ادائیگی کی تھی، لیکن ان کی دو مہینے کی مزدوری اور آپریشن کے بعد کی دیکھ بھال کے لیےادائیگی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سنجے نے جاننے والوں سے قرض لےکر تین نجی اسپتالوں میں کرش انجری کے علاج پر 40000 روپے خرچ کیے۔

ان کے داہنے ہاتھ کی چوٹیں پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہوئی ہیں، ان کی باقی دو انگلیاں مڑی ہوئی ہیں اور انہیں دوسری سرجری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ابھی بھی اس سے نجات ہی پا رہے تھے، جب انہیں اور انج گوتم کو 2 اگست کو اکادمی میں پیٹا گیا۔

انہوں نے کہا، ‘ایک کے بعد ایک چیزیں غلط ہوتی جا رہی ہیں، مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں گنگا میں ڈوب رہا ہوں۔ اگر لوگ کسی پردیس میں آنا چاہتے ہیں اور ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے، تو دنیا کیسے چلےگی؟ ہم مانتے ہیں کہ ہم جیسے لوگ یہاں آتے ہیں کیونکہ ہم جہاں سے ہیں وہاں روزگار کےکم متبادل ہیں۔ لیکن اگر وہ اس طرح ہم پر حملہ کرنے لگیں گے تو کیسے چلےگا؟ انہوں نے ہمیں دھمکایا کیونکہ ان میں پیسے والوں کا گھمنڈ تھا۔’

انہوں نے کہا کہ چونکہ چوٹ لگنے کے بعد وہ بالکل بھی کام کرنے سے معذورتھے، اسی یونٹ میں کام کرنے والے ایک ملازم نے انہیں معاوضے کی مانگ کے لیےگڑگاؤں کی لیبرکورٹ  میں معاملہ درج کرنے کی صلاح دی تھی۔

انہوں نے بتایا،‘میں نے گڑگاؤں ضلع  عدالت میں ایک معاملہ دائر کیا تھا، اس امید میں کہ مجھے کچھ انصاف ملےگا، میری چوٹوں کے لیے کچھ معاوضہ ملےگا۔ لیکن جب 9 اگست کو پہلی شنوائی ہوئی تو میں عدالت بھی نہیں پہنچ سکا کیونکہ مجھے اس معاملے میں پوچھ تاچھ کے لیے پولیس نے بلایا تھا۔’

مایوس لہجے میں وہ کہتے ہیں،‘اب بس میں گھر جانا چاہتا ہوں۔’

(انومیہایادوآزاد صحافی ہیں۔)

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)