خبریں

افغانستان پر طالبان کے قبضہ سے خواتین اور اقلیتوں کے لیے فکرمند ہوں: ملالہ یوسف زئی

افغانستان پر طالبان کے قبضہ پر ملالہ  یوسف زئی نے کہا ہے کہ عالمی، علاقائی اور مقامی طاقتوں کو فوراً جنگ بندی کامطالبہ کرنا چاہیے۔ فوراً انسانی امداد فراہم کرائیں اور مہاجرین اور شہریوں  کی حفاظت کریں۔

ملالہ یوسف زئی، فوٹو: رائٹرس

ملالہ یوسف زئی، فوٹو: رائٹرس

نوبل ایوارڈ یافتہ  ملالہ یوسف زئی نےافغانستان پر طالبان کےقبضے پرحیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک میں رہ رہیں خواتین، اقلیتوں اور ہیومن رائٹس کارکنوں کے لیےفکرمند ہیں۔ملالہ نے عالمی اور علاقائی طاقتوں سے فوراً جنگ بندی کی اپیل کرنے کی گزارش کی اور افغانستان کے شہریوں کی مدد کرنے کی اپیل کی۔

ملالہ نے اتوار کو ٹوئٹ کرکے کہا، ‘طالبان جس طرح سے افغانستان پر قبضہ جماتا جا رہا ہے، ہم اسے دیکھ کر حیران  ہیں۔ میں خواتین، اقلیتوں اور ہیومن رائٹس کے لیےفکرمند ہوں۔’ملالہ نے کہا،‘عالمی، علاقائی اورمقامی طاقتوں کو فوراً جنگ بندی کامطالبہ کرنا چاہیے۔فوراً انسانی امدادفراہم  کرائیں اور پناہ گزینوں  اور شہریوں  کی حفاظت کریں۔’

پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیےآواز اٹھانے پر ملالہ(24سالہ)کو 2012 میں طالبانی دہشت گردو ں  نے سوات علاقے میں سر پر گولی ماری تھی۔اس حملے میں شدید طور پرزخمی ملالہ کا پہلے پاکستان میں علاج ہوا پھر انہیں بہتر علاج کے لیے برٹن لے جایا گیا۔

حملے کے بعد طالبان نے بیان جاری کرکے کہا تھا کہ اگر ملالہ بچ جاتی ہے تو وہ اس پر دوبارہ حملہ کرےگا۔ملالہ حملے سےصحت یاب ہوکر برٹن میں رہیں اور ملالہ فنڈ کی شروعات کی، جس کے ذریعے وہ پاکستان، نائجیریا، جارڈن، سیریا اور کینیا میں مقامی تعلیم  کو فروغ دے رہی ہیں۔

انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیےصرف11سال کی عمر میں مہم  شروع کی تھی۔ اس وقت 2009 میں انہوں نے خیبرپختونخوا صوبے کی سوات گھاٹی میں طالبان کے سایہ میں زندگی کو لےکر بی بی سی اردو سروس کے لیے بلاگ لکھنا شروع کیا تھا۔

بتا دیں کہ طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی  لگا رکھی تھی۔

لڑکیوں کی تعلیم کی پیروکار ملالہ کو سب سے کم عمر میں امن کانوبل ایوارڈدیا گیاہے۔ انہیں2014 میں محض 17 سال کی عمر میں امن کا نوبل ایوارڈ حاصل ہوا تھا۔ انہیں یہ ایوارڈ ہندوستان  کے سماجی  کارکن کیلاش ستیارتھی کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا گیا تھا۔

بتا دیں کہ افغانستان میں طویل عرصے سے جاری جنگ میں اتوار کو ایک اہم موڑ آیا، جب طالبان کےشدت پسندوں نے راجدھانی کابل میں داخل ہو کر صدارتی محل پر قبضہ کر لیا اور صدراشرف غنی کو ملکی  وغیرملکی شہریوں  کے ساتھ ملک چھوڑکر جانا پڑا۔

حال فی الحال ملک کےمغرب میں تربیت یافتہ سیکیورٹی فورسز نے طالبانی جنگجوؤں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ ان طالبان جنگجوؤں نے اس مہینے کے آخر تک امریکی فوج کی پوری طرح واپسی سے پہلے ہی پورے ملک  پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔

اس سے پہلے 1996 سے 2001 تک طالبان نے افغانستان پر حکومت کی تھی اور امریکہ اوردوست ممالک کی فوج کے آنے کے بعد ان کے اقتدار کا خاتمہ  ہو گیا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)