خبریں

مدراس ہائی کورٹ نے کئی ہدایات جاری کیے، کہا-سرکار پنجڑے میں قید طوطے سی بی آئی کو رہا کرے

مدراس ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ صرف پارلیامنٹ کو رپورٹ کرنے والے کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل کی طرح سی بی آئی کو بھی ایک خودمختار ادارہ  ہونا چاہیے۔ سی بی آئی کی خودمختاری یقینی بنانے کے لیے اسے قانونی  درجہ دیا جانا چاہیے۔

سی بی آئی ہیڈکوارٹر، فوٹو: پی ٹی آئی

سی بی آئی ہیڈکوارٹر، فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: مدراس ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت  کو کئی ہدایات جاری کیے ہیں اور ان سبھی میں‘پنجڑے میں قید طوطے’کو رہا کرنے کے لیے کہا گیا ہے، جو کہ سی بی آئی ہے۔عدالت نے کہا ہے کہ صرف پارلیامنٹ کو رپورٹ کرنے والے کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل(سی اے جی)کی طرح سی بی آئی کو بھی ایک خودمختار ادارہ  ہونا چاہیے۔

اپوزیشن اکثر الزام لگاتی رہی ہے کہ دیگرسینٹرل جانچ ایجنسیوں نیشنل بیورو آف انویسٹی گیشن(این آئی اے)، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی)اور انکم ٹیکس(آئی ٹی)محکمہ کے ساتھ سی بی آئی کو بی جے پی حکومت کے ذریعے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

مرکزی حکومت کو 12نکاتی ہدایات جاری کرتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ نے کہا کہ اسے اب پنجڑے میں قید طوطے کو رہا کر دینا چاہیے۔

سی بی آئی کے لیے‘پنجڑے میں قید طوطے’جیسی اصطلاح  کا استعمال پچھلے کافی وقت سے ہو رہا ہے اور سب سے پہلے اس کا استعمال 2013 میں سپریم کورٹ نے کیا تھا جب اپوزیشن بی جے پی  نے کانگریس پر ایجنسی کوکنٹرول  کرنے کا الزام لگایا تھا۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، سی بی آئی کی خودمختاریت یقینی بنانے کے تناظر میں مدراس ہائی کورٹ نے کہا کہ اسے قانونی  درجہ دیا جانا چاہیے۔

عدالت نے کہا،‘حکومت ہند کو سی بی آئی کو زیادہ اختیارات اور دائرہ اختیار کے ساتھ قانونی درجہ دیتے ہوئے ایک الگ ایکٹ بنانے پر غور کرنے اور فیصلہ لینےکی ہدایت دی گئی  ہے۔مرکزی حکومت، سرکار کے انتظامی کنٹرول  کے فعال خودمختاری  کے ساتھ سی بی آئی کو آزاد کرےگی۔’

ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس این کروباکرن اور بی پگلیندھی کی بنچ  نے کہا، جب بھی کوئی حساس ،سنگین جرم ہوتا ہے اور مقامی  پولیس کی جانب سےمناسب جانچ نہیں ہوتی ہے تو ہمیشہ سی بی آئی جانچ کے لیے ہنگامہ ہوتا ہے، لوگوں کا یقین کچھ ایسا ہے۔’

بنچ نے آگے کہا، ‘بہت افسوسناک ہے کہ جب بھی جانچ کی مانگ ہوتی ہے تو سی بی آئی اپنا پیر کھنچتی ہے اور یہ کہتے ہوئے جانچ سے انکار کرتی ہے کہ اس کے پاس زمین پر وسائل  اور کام کرنے کی صلاحیت محدود ہے۔ عدالت کے سامنے سی بی آئی کے اس ڈھرے کا بچاؤ ہوتا ہے۔’

عدالت نے سی بی آئی سے چھ ہفتے کے اندر ایک رپورٹ تیار کرنے کو بھی کہا کہ اہلیت  بڑھانے کے لیے اور کن محکموں اوربرانچ  کی ضرورت ہے، ساتھ ہی ساتھ ملازمین کی کتنی صلاحیت  کی ضرورت ہوگی۔

فیصلے میں مزید کہا گیا،‘اہم  ایجنسی کے لیےسہولیات کو بڑھایا جانا چاہیےتاکہ اسے امریکہ کے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن(ایف بی آئی)اور برٹن کے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے برابر کیا جا سکے۔’

ججوں نےخصوصی طور پرملک  کے مختلف  حصوں میں فارنسک لیبارٹری  کو بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔

بتا دیں کہ سی بی آئی کی خودمختاری  میں کمی کو گنانے والے معامکوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اس سال جون میں جب نئے سی بی آئی ڈائریکٹرکی تقرری ہوئی تب تقرری کے نوٹیفکیشن میں کچھ مشتبہ ترمیم ہوئے تھے۔

تب دی وائر نے رپورٹ کیا تھا کہ سبودھ کمار جیسوال کو عہدہ سنبھالنےکی تاریخ  سے دو سال کی مدت کے لیےیا اگلے آرڈر تک، جو بھی پہلے ہو،مقرر کیا گیا تھا۔ حالانکہ پہلے کی تقرری کے نوٹیفکیشن میں بعد والے کلاز(اگلے آرڈر تک)کاذکر نہیں تھا۔

جیسوال کی تقرری کے نوٹیفکیشن سے یہ صاف ہو گیا کہ سرکار ان کی تقرری کو کبھی بھی ختم کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)