خبریں

 کیا مودی کی ناکام اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے اب لیبر ٹریفک فیکٹریوں سے کھیتوں کی طرف گامزن  ہے

مسلسل اقتصادی ترقی  کےکسی بھی دور کے ساتھ ساتھ غربت میں کمی آتی ہے اور لیبرفورس زراعت  سے انڈسٹری اورسروس سیکٹر کی طرف گامزن ہوتا ہے۔حالیہ اعدادوشمار دکھاتے ہیں کہ ملک میں ایک سال میں تقریباً1.3کروڑ مزدور ایسےسیکٹر سے نکل کر کھیتی سے جڑے ہیں۔ عالمی وبا ایک وجہ  ہو سکتی ہے،لیکن مودی سرکار کی اقتصادی پالیسیوں نے اس کی زمین پہلے ہی تیارکردی تھی۔

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

روزگار میں زراعت کی حصہ داری2018-19میں42.5 فیصدی سے 2019-20 میں ڈرامائی طور پر بڑھ کر 45.6 فیصدی ہو گئی۔کل روزگار میں زراعت کی حصہ داری میں یہ اضافہ ہندوستانی معیشت کے ایک تشویش ناک  پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ بڑھوتری انڈسٹری یاسروس سیکٹر سے زراعت کی طرف مزدوروں کے غیرمعمولی طور پر گامزن ہونے کااشارہ  ہو سکتی ہے۔

حقیقی روزگار کی صورتحال کے لیےمختلف اسٹینڈرڈ- کافی سخت سے زیادہ لبرل تک- کا استعمال کرنے والے قابل اعتماد نجی اور سرکاری سروےمیں ہندوستان میں روزگار سے وابستہ لوگوں کی کل تعداد40 کروڑ سے 47 کروڑ کے بیچ ہے۔ ایسے میں ایک سال میں زراعتی روزگار میں تین فیصدی  کے اضافے کا مطلب ہے کہ تقریباً1.2 سے 1.3 کروڑ لوگ ایک سال میں انڈسٹری یا سروس سیکٹر میں روزگار سے نکل کر واپس کم آمدنی  والی کھیتی  میں لگ گئے ہیں۔

مزدوروں  کی اتنی بڑی تعداد فیکٹریوں سے نکل کر دیہی  کھیتوں میں کیوں واپس جا رہی ہے، اس کے گہرےتجزیہ  اور اس کے مطابق پالیسی  میں اصلاحات ضروری ہیں۔

ہو سکتا ہے عالمی وبا نے اس عمل کی رفتار کو تیز کرنے کا کام کیا ہو، لیکن اس بات میں کوئی  شبہ نہیں  ہے کہ مودی کی اقتصادی پالیسیوں نے لیبر کے الٹے بہاؤ کے لیے پہلے سے زرخیز زمین تیار کر دی تھی، جب معیشت کے فارملائزیشن اورڈیجیٹلائزیشن کے بڑے پالیسی اہداف  کو نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بےحد خراب عمل درآمد کی آفتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ ‘وکاس’کی ریل گاڑی الٹی سمت  میں رواں دواں ہے۔ اور یہ مت بھولیے کل روزگار میں زراعت کی حصہ داری میں یہ بڑااضافہ  ایک ایسے وقت  میں آیاہے، جب خود بےروزگاری ہی کئی دہائیوں کی سب سے اعلیٰ سطح پر ہے اور خواتین بھی ریکارڈ تعداد میں فارمل لیبر فورس  سے باہر ہوئی ہیں۔

یہ دکھلاتا ہے کہ دیہی  روزگار کی طرف آئی  اس تبدیلی کا تعلق  ایک بحران  سے ہے۔ اس کے علاوہ یہ اس وقت ہو رہا ہے، جب زیادہ آمدنی کی حمایت کا  مطالبہ کرتے ہوئے کسانوں کی تحریک  اپنےعروج  پر ہے۔

تاریخی طور پرمسلسل اقتصادی ترقی  کے کسی بھی دور کے ساتھ ساتھ غربت میں کمی آتی ہے اورلیبر فورس  کھیتی سے انڈسٹری  اور سروس سیکٹر کی طرف گامزن  ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شہرکاری میں اضافہ  اور شہری مڈل کلاس کا سائزبھی بڑھتا ہے، جیسا کہ ترقی یافتہ  اور تیزی سے ترقی پذیرممالک میں دیکھا گیا ہے۔

ہندوستان میں اس عمل میں2005-06 سے 2011-12 کے بیچ کی تیزاقتصادی ترقی  کے سالوں میں کافی تیزی دیکھی گئی، جب 3.7 کروڑ زرعی مزدوروں  نے مینوفیکچرنگ اور کنسٹرکشن وغیرہ  غیرزرعی  روزگاروں کی طرف رخ کر لیا۔

لیبر اکانومسٹ سنتوش مہروترا کا کہنا ہے کہ اس اضافہ  کے دوران زرعی  سے غیرزرعی  روزگار کی طرف ایک غیرمعمولی ہجرت  دیکھی گئی۔ ان کا کہنا ہے، ‘2012 کے بعد سے لےکر2018 تک یہ رجحان بنا رہا، لیکن اس کی رفتار کافی گھٹ گئی۔ پھر بھی اس دوران اس کی دھارا کبھی الٹی نہیں بہی۔ لیکن پہلی بار ہم مزدوروں کی ہجرت کے اس بہاؤ کو الٹا بہتے ہوئے دیکھ رہے ہیں جب مزدور فیکٹریوں سے کھیتوں کی جانب  رخ کر رہے ہیں۔’

مہروترا کے مطابق، زرعی سے غیرزرعی شعبوں کی طرف حقیقی معنوں میں بڑی تبدیلی2004 کے بعد آئی  اور اس میں2012 تک تیزی آتی رہی اور اس کے بعد یہ عمل  سست رفتار سے چلتا رہا۔’

دلچسپ یہ ہے کہ 2005-06 سے 2015-16 تک کی مدت  میں ہندوستان میں کثیر جہتی  غربت میں سب سے بڑی گراوٹ دیکھی گئی جبکہ 27 کروڑ لوگ غربت سے باہر نکلے۔ یہ دنیا میں کہیں بھی غربت میں آنے والی سب سے بڑی گراوٹ تھی۔ یہ مطالعہ آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ انیشیٹو(او پی ایچ آئی)اور یواین ڈی پی کے ڈیولپمنٹ انڈیکس پر مبنی تھا۔

پچھلے سال آکسفورڈ سینٹر نے یہ وارننگ دی تھی کہ عالمی وبا کی وجہ سے اس ترقی پر خطرہ  منڈرانے لگا ہے۔

عالمی وبانے حقیقت میں2016-17کے بعد دکھائی دینے والی ترقی  اور روزگار کی پریشانیوں کو مزید بڑھانے کا کام کیا ہے۔ اس تناظر میں تمام بحث  گھوم پھر کر نوٹ بندی اور ایک بےحد خراب طریقے سے نافذکی گئی جی ایس ٹی پر لوٹ آتی ہیں۔

یہ دونوں غیررسمی سیکٹرمیں روزگار کی تباہی اور کسانوں کے بیچ فیکٹریوں سے نکل کر کھیتوں کی طرف  رخ کرنے کے بڑھتےرجحان  کے حساب سے سنگ میل ہیں۔ اس کی تصدیق  منریگا کے تحت روزگار کی مانگ میں بھاری اضافے سے بھی ہوتی ہے۔

حالات اتنے خراب ہیں کہ مودی خود کو اپنے گاؤں میں لوٹ گئے کروڑوں بےروزگارمہاجر مزدوروں کے لیے‘ان مہوتسو’کے اسپانسر کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ مجھے 2014 میں وزیر اعظم کی جانب سے دیا گیا وہ زوردار پالیسی اسٹیٹمنٹ یاد آتا ہے کہ وہ غریبوں کو کانگریس کی خیراتی معیشت سے باہر نکالنا اور انہیں ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیےاقتصادی طور پرتعلیم یافتہ  بنانا چاہتے تھے۔ ان مہوتسو کا انعقاد اس مقصد کو مذاق بنا دیتا ہے۔

اصلیت یہ ہے کہ فیکٹریوں سے کم مزدوری والے لیبر فورس میں مزدوروں کی  بڑی تعداد میں ہجرت مودی کی اقتصادی پالیسیوں کا مستقل  حاصل بن سکتا ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)