خبریں

جنتر منتر پر مسلم مخالف نعرے بازی معاملے کے کلیدی ملزم کو پیشگی ضمانت دینے سے انکار

دہلی کے جنتر منتر پر اشتعال انگیزاور مسلمان مخالف  نعرے بازی کےکلیدی ملزم ہندو رکشا دل کے صدر بھوپندر تومر عرف پنکی چودھری کی عرضی  کو خارج کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج انل انتل  نے کہا کہ ہم طالبانی اسٹیٹ نہیں ہیں۔ قانون کی حکمرانی، ہماری کثیر ثقافتی اورتکثیری کمیونٹی کی حکمرانی  کا مقدس اصول ہے۔

پنکی چودھری۔ (فوٹو: ویڈیوا سکرین گریب)

پنکی چودھری۔ (فوٹو: ویڈیواسکرین گریب)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے ایک ہندو تنظیم کےصدراور جنتر منتر پر مسلم مخالف نعرےبازی  کے کلیدی ملزم  کی پیشگی ضمانت عرضی خارج کر دی،جس پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی  بگاڑنے والے نعرے لگانے کےالزام ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ہم ‘طالبانی اسٹیٹ نہیں ہیں۔’

ہندو رکشا دل کے صدر بھوپندر تومر عرف پنکی چودھری کی عرضی  ایڈیشنل سیشن جج انل انتل نے خارج کر دی اور کہا کہ ماضی میں ایسےواقعات فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بنے ہیں، جس سے دنگے ہوئے اور جان ومال کا نقصان ہوا۔

جج نے 21 اگست کو اپنےآرڈرمیں کہا، ‘ہم طالبانی اسٹیٹ  نہیں ہیں۔قانون کی حکمرانی، ہماری کثیر ثقافتی اور تکثیری کمیونٹی کی حکمرانی  کا مقدس اصول ہے۔ آج جب پورا ہندوستان ‘آزادی کا امرت مہوتسو’منا رہا ہے تب کچھ ایسے لوگ ہیں جو اب بھی عدم برداشت  اورخودغرض ذہنیت میں جکڑے ہوئے ہیں۔’

عدالت نے کہا کہ جو شواہد دستیاب ہیں، اس سے معاملے میں ملزم کی شمولیت پہلی نظر میں واضح  ہے اور ملزم پر لگائے گئے الزامات سنگین ہیں۔

عدالت نے کہا، ‘تاریخ  میں ایسے واقعات رونما  ہوئے ہیں جن سے فرقہ وارانہ کشیدگی  بڑھی ہے اور دنگے ہوئے ہیں۔ اس سے عام آدمی  کو جان ومال کا نقصان ہوا ہے۔’

عدالت میں استغاثہ نے ملزم کی عرضی  کی مخالفت کی تھی اور کہا کہ جانچ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور چونکہ ملزم ہندو رکشا دل کا صدر ہے، اس لیے اگر اس وقت اسے ضمانت دے دی گئی تو وہ جانچ کو متاثر کر سکتا ہے اور چشم دیدگواہوں کو دھمکا سکتا ہے۔

رپورٹ کےمطابق، الزامات کو سنگین بتاتے ہوئے عدالت نے کہا کہ وہ یہ نہیں مان سکتا کہ آرٹیکل 19(1)میں درج  اظہار  کی آزادی  کا استعمال دوسروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے لیے کیا جا سکتا ہے، جوامن وامان، ہم آہنگی اور عوامی نظام کو مؤثر ڈھنگ سے متاثر کرتے ہیں۔

عدالت نے کہا، اظہاررائے کی آزادی  کی آڑ میں،عرضی گزار/ملزم کو آئینی اصولوں کوپامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے، جو شمولیت اور بھائی چارے کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

ملزم نے پیشگی ضمانت اس بنیاد پر مانگی تھی کہ اسے پہلے کبھی کسی معاملے میں قصوروارنہیں ٹھہرایا گیا اور ضرورت پڑنے پر وہ جانچ میں تعاون کرےگا۔

اسی معاملے میں دہلی کی ایک اور عدالت نے پریت سنگھ، دیپک سنگھ ہندو اور ونود شرما کی ضمانت عرضی  خارج کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ ہر کسی کو خود کو اظہار کرنے کا حق ہے، لیکن یہ سماج میں مذہبی ہم آہنگی  کو بگاڑ نہیں سکتا ہے۔

حالانکہ اسی معاملے میں بی جے پی رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل اشونی اپادھیائے کو دو دن کی عدالتی حراست میں رکھنے کے بعد ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے۔

بتا دیں کہ گزشتہ  آٹھ اگست (اتوار)کو دہلی کے جنتر منتر پر ‘بھارت جوڑو آندولن’ کے زیر اہتمام  منعقد پروگرام  میں یکساں سول کوڈ کونافذ کرنے کے حق  میں ریلی ہوئی تھی، جس میں براہ راست  مسلمانوں کے خلاف تشدد کی اپیل کی گئی تھی۔

الزام ہے کہ اس دوران بھڑکاؤ اور مسلم مخالف نعرےبازی کی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر وائرل پروگرام کے ایک مبینہ ویڈیو میں براہ راست مسلمانوں کو قتل کرنے کی اپیل  کی گئی  تھی۔

اشونی اپادھیائے کے علاوہ ہندو سینا کے صدر دیپک سنگھ ہندو، ونیت کرانتی، پریت سنگھ، دیپک کمار اور سدرشن واہنی کے سربراہ  ونود شرما کو گرفتار کیا گیا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)