فکر و نظر

نئے حقائق  کو تسلیم  کرتے ہوئے بنیادی اقدار پر قائم  رہ کر ہی کانگریس دوبارہ کھڑی ہو سکتی ہے

کانگریس اب بھی قومی سیاست  میں اہمیت رکھتی ہے، لیکن اسے وقت کےحساب سے خودکو نیا روپ دیتے ہوئےسیکولرازم پر توجہ دینی ہوگی۔

راہل گاندھی، فوٹو: پی ٹی آئی

راہل گاندھی، فوٹو: پی ٹی آئی

ایک بار پھر کانگریس اپنی گاڑی کو پٹری پرواپش  لانے اور اپنی سیاسی تقدیر کو چمکانے کی کوشش کر رہی ہے۔

مغربہ بنگال میں ممتا بنرجی کی شاندار جیت(یا کہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کراری شکست)کے بعد چمک رہے سیاسی حکمت عملی کے ماہر پرشانت کشور کی پچھلے کچھ مہینوں کے دوران سونیا گاندھی اور حال ہی میں گاندھی فیملی کے وارث راہل اور پرینکا سے ملنے کی باتیں گشت کر رہی ہیں اور اگر میڈیا کی قیاس آرائیوں پر یقین کریں تو وہ پارٹی میں شامل ہو ں گے اور پارٹی کی مجوزہ بحالی میں ایک اہم کردار ادا کریں گے۔

کشور ایک پیشہ ورحکمت عملی کار ہیں اور زیادہ تر پارٹیوں کو اپنی خدمات دے چکے ہیں۔بی جے پی ، جنتا دل یونائٹیڈ، ترنمول کانگریس اور یہاں تک کہ اتر پردیش میں کانگریس کو بھی۔ کچھ وقت تک تو وہ جنتا دل یونائٹیڈ میں بھی شامل رہے لیکن نتیش کمار کے ساتھ اختلافات کے بعد انہوں نے پارٹی چھوڑ دی۔یہ صاف  ہے کہ ان کا کوئی نظریہ  نہیں ہے، لیکن وہ  ایک سیاسی رول نبھانا چاہتے ہیں۔

لیکن کانگریس اتنی معذور کیوں ہے؟ کسی زمانے میں اقتدارکی فطری جماعت  اور ہندوستانی سیاست کی سب سے اہم  پارٹی رہی کانگریس نہ صرف اپنی آب وتاب  کھو چکی ہے، بلکہ یہ پچھلے دونوں عام انتخابات میں محض 44 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ریاستی سطح کے انتخابات میں بھی یہ پچھڑ رہی ہے اور مہاراشٹر جیسےصوبے میں، جو کبھی اس کا گڑھ مانا جاتا تھا، یہ کسی طرح سے چوتھے مقام پر رہ پاتی ہے۔

حالانکہ پنجاب اور راجستھان جیسے کچھ صوبوں میں یہ اقتدار میں ہے، لیکن بڑے صوبوں میں اس کا سیاسی سورج طلوع  ہوتا ہوا نہیں دکھتا۔ سیاسی  پنڈتوں اور میڈیا کےمبصرین کا کہنا ہے کہ کانگریس کی سب سے بڑی پریشانی  اس کا خاندان  ہے۔

وہ کچھ اس طرح سے کہتے ہیں کہ مانو ایک بار گاندھی فیملی والے راستے سے ہٹ جائیں تو اس کےمسائل معجزانہ طور پر غائب ہو جائیں گے اور پارٹی ایک بار پھر سے اپنی پرانی  شان  کو حاصل کر لےگی۔ ہر دن میڈیا پوری طاقت اور جوش  کے ساتھ نئے ممکنہ امیدوار کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔

جب سچن پائلٹ طیش میں آکر راجستھان کابینہ سے باہر نکل گئے اور اپنے حامیوں کے ساتھ محاذ کھول دیا تب دن رات کے کوریج نے انہیں ایک شہید کے طور پر پیش کیا، جسے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں ہونے کی وجہ سےپارٹی چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ اس بات کی پرواہ کسی نے نہیں کی کہ وہ  بی جےپی پر ڈورے ڈال رہے تھے۔ مگر پاسہ پائلٹ کے حساب سے نہیں پڑا اور اس نے پارٹی کے لیے  ان کےعزم  کے معیار کو بھی ظاہرکیا۔

ٹھیک یہی حال رہا جیوترادتیہ سندھیا کا، جنہوں نے آگا پیچھا کیے بغیر سیدھے پارٹی سے باہر نکلنے کا راستہ چنا۔ دوسرے ناموں کو بھی وقت وقت  پراٹھایا جاتا ہے۔ سب سے پسندیدہ نام ہےششی تھرور کا، جو ڈپلومیٹ ہونے کے ناطے تمام فریقوں کو خوش رکھنا پسند کرتے ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے کہ کوئی بھی چلےگا، سوائے گاندھی پریوار والوں کے۔

ان کےلیے میڈیا کے اس تعصبات کے اسباب میں جانے کا کوئی مطلب نہیں ہے، وہ لوگوں کو بخوبی معلوم ہیں، لیکن یہ آوازیں شور کا روپ لے چکی ہیں اور کبھی تھمتی نہیں ہیں۔ تو بحث طلب سوال یہ ہے کہ کیا ان میں سے کوئی کانگریس کو متحد رکھ سکتا ہے اور اسے آگے لےکر جانے میں اس کی قیادت کر سکتا ہے؟ اور کیا دوسرے رہنما اس کو قبول کریں گے؟ کیا رائے دہندگان انہیں قبول کریں گے؟

تھرور کو لوگ کیرل کے علاوہ  شاید اوردو ایک دوسری ریاستوں میں پہچانتے ہیں اور وہ دہلی کے لکھنے پڑھنے والو کے بیچ بےحدمقبول ہیں، لیکن کیا وہ ایک قومی شخصیت ہیں؟ کیا سچن پائلٹ کو لوگ تلنگانہ میں جانتے ہیں؟یا سندھیا کو لوگ تمل ناڈو کے گاؤں میں جانتے ہیں؟

ممکن ہے عہدہ  پر آنے کے بعد ان کا قد بڑھے، لیکن ان کے کئی حریف رہیں گے، جومسلسل ان کے خلاف سازش کرتے رہیں گے۔ اسی طرح سے پارٹی قیادت کے خلاف غصے میں بھرکر چٹھیاں لکھنےوالے جی-23 میں سے کسی کے پاس یہ ہنر نہیں ہے۔

لیکن شخصیت سے متعلق اور اسٹرکچرل مسائل(اندرونی انتخابات کا نہ ہونا ایک بڑی  کمزوری ہے)کے پرے قومی منظرنامے پر سے کانگریس کی پکڑ تیزی سے کمزور پڑتے جانے کی ایک کہیں زیادہ بڑی وجہ ہے۔ آج کانگریس پارٹی کے وجود کی اصل بنیاد اگر ختم نہیں ہوئی  ہے تواس میں شگاف ضرور پڑگیا ہے۔

علاقائی خواہشات  کی نمائندگی کرنے والی علاقائی  پارٹیوں کے طلوع  کے ساتھ کئی صوبوں میں کانگریس پارٹی کاووٹر کے لیے کوئی استعمال نہیں رہ گیا ہے۔یہاں مقامی کا مطلب جاتی، طبقہ،مذہب، جغرافیہ ہو سکتا ہے، لیکن ان تمام کسوٹیوں پر کانگریس کی  پرانی کشش ختم ہو چکی ہے۔

کافی پہلے ڈی ایم اےکے نے راستہ دکھایا تھا اور جب 1980کی دہائی کی شروعات میں اینٹی راما راؤ کی تیلگو دیشم پارٹی کوعروج  حاصل ہوا اور خاص طبقوں کوہدف بنانے والی دوسری پارٹیوں کا بھی طلوع ہوا، تب کانگریس کی بےمعنویت کے بیاباں میں جانے کا عمل بھی تیز ہو گیا۔ مایاوتی ایک دلت رہنما بن گئیں اور منڈل کے بعد کے منظرنامے میں یادو او بی سی کمیونٹی  کی آواز بن گئے۔

شرد پوار اور ممتا بنرجی جیسے طاقتورعلاقائی رہنماؤں نے اپنی پارٹیوں کو چھوڑ دیا اور اپنی مقامی  پارٹیوں کی تشکیل کی۔ مسلمانوں نے اے آئی ایم آئی ایم کی کھوج کی اور شیوسینا مراٹھی مانش کی آواز کے طور پر ابھری۔ ان سب کوٹارگیٹ گروپوں کی حمایت ملی اور اس نے کانگریس کی بنیاد میں سیندھ لگانے کا کام کیا۔

بی جے پی نے اشرافیہ اور او بی سی اور دلتوں سمیت دوسری کمیونٹی کے بھی ایک بڑے حصہ کو اپنے ساتھ کر لیا۔ اپنے جنم سے ہی کانگریس ایک سائبان پارٹی تھی، جو کسی ایک گروپ  کی نمائندگی کرنے کی جگہ پورے ملک کی نمائندگی  کرتی تھی۔

دلت، مراٹھا، ہندو، بنگالی اور سب سے بڑی بات مسلمانوں کو بھی اس پارٹی میں جگہ ملی۔ اس نے لیفٹ  کو بھی شامل کیا ای ایم ایس نمبودریپاد نے کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے قیام میں مدد کی تھی، جس میں جئےپرکاش نارائن اور آچاریہ نریندر دیو جیسےرہنما بھی شامل تھے۔

مولانا آزاد اور ہندو مہاسبھا کے بانی مدن موہن مالویہ دونوں ہی بیک وقت پارٹی میں تھے۔ پہلے کابینہ میں رفیع احمد قدوائی، شیاما پرساد مکھرجی(جن سنگھ کےبانی)اور ڈاکٹر بی آرامبیڈکر شامل تھے۔ اس طرح سے کانگریس کسی کی نمائندگی  نہیں کرتی تھی، مگر سب کی نمائندگی کرتی تھی۔

دوسری طرف آج کی اہم  پارٹی بی جے پی میں، اپنے ہندو ووٹوں کی صف بندی کے باوجود، ایک بھی مسلم ایم پی نہیں ہے اور اےآئی ایم آئی ایم میں غیر مسلم نہیں ہیں۔ مایاوتی برہمنوں کو لبھانے کی کوشش کر سکتی ہیں، لیکن وہ ان کے محبت نامے کو قبول کرنے والے نہیں ہیں اور ممبئی میں شیوسینا کی گجراتیوں کے بیچ دال گلتی نہیں دکھ رہی ہے۔

صرف ٹی ایم سی ہی ہے، جو ایک حد تک کانگریس ماڈل کی پیروی  کرنے میں کامیاب رہی ہے؛ این سی پی بھی اسے بہت کامیابی کے ساتھ نہیں کر پائی ہے،لیکن شرد پوار ہر طرح سے ایک کانگریسی ہیں۔ دونوں میں سے کوئی بھی اپنی پرانی پارٹی میں نہیں جائیں گے۔

ان دونوں کے الگ ہو جانے اورکسی ایک بڑےگروپ  کے بیچ اپنی حمایت رکھنے والی پارٹیوں کے طلوع کے ساتھ ایک سائبان  تنظیم  کے طور پر کانگریس اپنی معنویت گنوا چکی ہے۔ اس کے پاس صرف سیکولرازم کا مرکزی نظریہ بچا ہوا ہے جس کی قسمیں کوئی اور دوسری پارٹی واضح طورپر اور بلند آواز میں نہیں کھاتی۔

کانگریس بھی کبھی کبھار اپنی ہندو پہچان دکھانے کی کوشش کرتی ہے، لیکن دھیرے دھیرے یہ بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ملتا یہ ان لوگوں کو متاثر نہیں کرتا، جو پہلے ہی بی جے پی  کی طرف جا چکے ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کو بھی دور لےکر جاتا ہے۔

کانگریس کے پاس آج بھی اپنے حامی  ہیں اور اب نوجوان ہندوستانی  پارٹی کے سیکولرازم کی روایات کی طرف متوجہ  ہو رہے ہیں۔ وہ یا تو بی جے پی کی سیاست سے حیران ہیں اور وہ ذات پر مبنی  اور علاقائی پارٹیوں کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ 2019 کے انتخابات میں اپنے سب سے برے مظاہرہ میں بھی کانگریس کو 19 فیصدی سے زیادہ ووٹ ملے۔

یہ سچائی  کانگریس کو ایک امیدوار بناتی ہے اور کسی بھی مشترکہ اپوزیشن محاذمیں، بھلے ہی دوسرے اسے پسند کریں یا نہ کریں، انہیں کانگریس کو شامل کرنا ہوگا۔ اپنی قومی موجودگی  اور ووٹ کو دیکھتے ہوئے کانگریس فطری  طور پر ایک مضبوط آواز بننا چاہےگی۔

حالانکہ اس نے کئی جگہوں پر دوسرا یا مہاراشٹر کے معاملے میں، تیسرا کھلاڑی بھی بننا قبول کیا ہے۔ کانگریس کو دور رکھنے سے کوئی بھی اپوزیشن مورچہ کمزور ہوگا، لیکن اس کے ساتھ ہی کانگریس کو بھی بڑے بھائی والا رویہ چھوڑنا ہوگا۔

کانگریس کے لیےسبق صاف ہے وہ تسلیم کرے کہ وہ دس سال پہلے والی بھی پارٹی نہیں رہ گئی ہے اور نئے حقائق کے حساب سے خود کو منظم کرے، بھلے ہی یہ کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو۔ پارٹی میں ردوبدل کرے۔ بھروسےمند اولڈ گارڈ کو ناخوش کیے بغیر نوجوان نسل کو اہم رول  دیں۔ اکیلا چھوڑنے پر وہ نتیجہ دیتے ہیں، یہ ہم نے راجستھان، پنجاب اور چھتیس گڑھ میں دیکھا ہے۔

لیکن سب سے بڑھ کر تنوع ، ہم آہنگی اور سیکولر اقدارکے بارے میں بات کرے جو کہ آج کہیں زیادہ اہم ہے اس سے کوئی فرار نہیں۔ ہندوتووادی عناصر کے ساتھ عشق نہ فرمائے۔ اس کے لیے واضح اورطویل مدتی  وژن اور اپنےہدف  کے لیےمکمل وابستگی  درکار ہے۔ یہ ایک لمبی لڑائی ہوگی، لیکن بحالی اور وجود کی حفاظت کا یہی واحد راستہ ہے۔

(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)