حقوق انسانی

نام چھپا کر کون لوگ جیتے آئے ہیں اور ان کی گھٹن کو کس نے محسوس کیا ہے؟

پہچان کاتصور خالصتاًانسانی ایجاد ہے۔ پہچان کےلیے خون کی ندیاں بہہ جاتی ہیں۔ پہچان کا سوال اقتصادی سوالوں کے کہیں اوپر ہے۔اس پہچان کو اگر کوئی انڈرگراؤنڈ کر دے، تو اس کی مجبوری سمجھی جا سکتی ہے اور اس سے اس کے سماج کی حالت  کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

(علامتی تصویر،فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر،فوٹو: پی ٹی آئی)

‘ہمانشو جی، زمینی سطح پر حالات بہت برے ہے، میں اس چوڑی والے کے نام بدل کر کاروبار کرنے کی مجبوری سمجھ سکتا ہوں۔ ہمارے یہاں پھل بیچنےایک ملاجی آتے تھے، لمبا چوڑا قد، لمبی سفید داڑھی، جالی دار ٹوپی اور ایک دم چمکتی ہوئی سفیدسلوارقمیص۔ جب سے کورونا کال آیا، وہ دکھنا بند ہو گئے۔ جب کئی مہینوں تک وہ نہیں دکھے تو میں نے دوسرے پھل بیچنے والوں سے ان کے بارے میں پوچھا تو سب نے بڑے فخر سے بتایا کہ ایک دن آیا تھا تو ہم سب نے اور علاقے کے لوگوں نے اس کو دھمکا کر بھگا دیا کہ آج کے بعد وہ اگر یہاں دکھائی دیا تو اس کی خیرنہیں۔

بات آئی گئی ہو گئی، اب سے کچھ دن پہلےاپنے ایک دوست کے گھر میرا جانا ہوا وہاں میں نے ایک ریہڑی دیکھی جو ایک دم ملاجی کی ریہڑی کی طرح تھی مگر اس پر بندہ کوئی اورتھا۔ بنا داڑھی کےمیلی کچیلی پینٹ اورقمیص پہنے ہوئے۔ جب تک میں اسے پہچانتا و ہی بول پڑا، ‘نمستے باؤجی’، اور چاپلوسی کے انداز میں بولا، ‘باؤجی،یہاں لوگ مجھے منا کے نام سے جانتے ہیں۔’

ہمانشو کمار بچپن کویاد کر رہے تھے۔ ان کی اور ان کےمنہار کی۔ ان کی ماں منہار سے چوڑیاں لیا کرتی تھیں:

‘ہماری ماں مظفرنگر میں ہمیشہ ایک بزرگ مسلمان منہار سے چوڑیاں پہنتی تھیں۔ وہ بزرگ منہار میری ماں کو اپنے ہاتھ سے چوڑیاں پہناتے تھے۔چوڑیاں پہننے کےبعدمیری ماں اپنی ساڑی کا آنچل سر پر لےکر ان بزرگ مسلم منہار کے پاؤں چھوتی تھیں۔ اور وہ میری ماں کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتے تھے بیٹی تیرا سہاگ سدا بنا رہے۔’

نتن گرگ نے اس یادداشت کو پڑھ کر اپنی حالیہ یادداشت  سنائی۔ ہمانشو کمار کی ماں کے گھرمنہار اپنی پہچان، اپنے نام کے ساتھ نہ صرف بےخوف آ سکتے تھے بلکہ باعزت بھی۔ جس کے گھر آئے وہ ان کی قدر کرتی تھیں۔

منہاروں اورمنہارنوں سےایک خاص قسم کا رشتہ گھر کی لڑکیوں، عورتوں کا ہوا کرتا تھا۔وہ ہندوؤں کے گھربھی جاتے تھے، مسلمانوں کے گھر بھی۔ کسی ہندو مرد نے شک نہیں کیا کہ یہ مسلمان منہار ان کی عورتوں کو پھسلا لیں گے۔ اب یہ سب کچھ زیادہ تر لوگوں کو ناقابل یقین لگ سکتا ہے لیکن ہم سب کے لیےیہ زندہ حقیقت رہی ہے۔ مجھے خود سیوان کی ترہا ٹولی کے لال بابو سنار کے اپنے مکان میں آنے والی منہارنوں کی یاد ہے۔ وہ ہندو نہ تھیں۔

ہمانشو کمار کی اس قابل فخراور تکلیف دہ یادوں کو پڑھ کر نتن گرگ نے اپنی یہ حالیہ یادداشت سنائی۔انہوں نے بھی بنا کسی تبصرے کےاسے بیان کیا۔ ہمانشو کمار اورنتن گرگ کی یادداشتوں میں صرف وقتوں کا فاصلہ نہیں ہے۔ گویایہ دو اجنبی ملکوں کی کہانیاں ہیں۔

نتن نے الگ سے یہ نہیں لکھا کہ اپنے ‘ملاجی’ کو منا کے روپ میں دیکھ کر انہیں کیا لگا۔ لیکن ہم آپ ان کے دل پر جو گزری ہوگی، اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ ہمانشو کمار کے وقت سے نتن گرگ کے وقت کا فاصلہ کیسے بنا اور کیسے طے ہوا؟

نتن کو پڑھتے ہوئے ابھی دس روز پہلے چنڈی گڑھ میں اپنے صحافی دوست ایس پی سنگھ کے ساتھ ہوئی بات چیت یاد آ گئی۔ وہ ڈرائیو کرتے ہوئےاپنے اس ٹیکسی والے کو یاد کر رہے تھے کورونا انفیکشن کی وجہ سے جس کا کام بند تھا۔ وہ  اس کی کچھ مدد کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے اس کے بینک کی تفصیلات مانگے۔

جب وہ اس کے کھاتے میں رقم ڈالنے کاعمل پورا کر رہے تھے تو اس کا نام ابھر آیا۔ ایس پی سنگھ کو جھٹکا لگا۔ اس نام سے اسے وہ نہیں جانتے رہے تھے۔ یہ ایک‘مسلمان نام’تھا۔ لیکن اس ‘راز کے انکشاف’ نے ایس پی کے من میں یہ احساس نہیں پیدا کیا کہ وہ انہیں اتنے دنوں تک دھوکہ دے رہا تھا۔ انہوں نے پیسے اس کے کھاتے میں ڈالے۔

ایس پی سنگھ سمجھ سکتے تھے کہ وہ کیوں اپنے اصلی نام سے کام کرنا محفوظ  نہ مانتا ہوگا۔ انہوں نے اپنے ملک کے حالات پر ٹھنڈی سانس بھری، جسے وہ اکیلے نہیں بدل سکتے۔ ایسی آب و ہوا جس میں کوئی نہ اپنے چہرے، نہ اپنے کپڑوں اور اپنے نام کی وجہ سے ڈرا سہما دبا دبا پھرے۔

پہچان کاتصور خالص انسانی ایجاد ہے۔ پہچان کےلیے خون کی ندیاں بہہ جاتی ہیں۔ پہچان کا سوال اقتصادی سوالوں کے کہیں اوپر ہے، یہ ہم مارکسسٹ لوگوں کو بہت بعد میں سمجھ میں آیا تھا۔اس پہچان کو اگر کوئی انڈرگراؤنڈکر دےتو اس کی مجبوری سمجھی جا سکتی ہے اور اس سے اس کے سماج کی حالت  کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

پہچان انسان کی مکمل ہوتی ہے نام اور صورت کے امتزاج سے۔ آپ کو کئی بار چہرے یاد آتے ہیں اور ان کے نام نہیں۔ کتنی چھٹپٹاہٹ ہوتی ہے! ویسے ہی جب کوئی سامنے پڑ جائے اور آپ اس کا نام بھول گئے ہوں! آپ کو کتنی شرمندگی  ہوتی ہے اور اسے یہ احساس کہ وہ آپ کے لیے اتنے اہم  نہیں کہ آپ اس کا نام یاد رکھنے کی محنت کریں!نام اتنا لازمی  ہے انسان کے لیے۔

صرف انسانی معاشرہ  کے لیے نہیں، نام ہر قدرتی واقعہ، موجودگی  کےلیےدینا انسانی فطرت ہے۔ ہزاری پرساد دویدی نے اپنے مشہور زمانہ مضمون‘کٹج’میں شوالک کےدرختوں سے اپنے مکالمہ کو ہمارے لیےقلمبند کیا ہے،

‘میں کسی کا نام نہیں جانتا،کل (خاندان)نہیں جانتا، شیل(فطرت)نہیں جانتا، پر لگتا ہے، جیسےیہ مجھے زمانہ قدیم  سے جانتے ہیں۔ انہی میں ایک چھوٹا سا–بہت ہی ٹھگنا پیڑ ہے، پتے چوڑے بھی ہیں، بڑے بھی۔پھولوں سے تو ایسا لدا ہے…۔ …پوچھ رہا ہے کہ کیا تم مجھے بھی نہیں پہچانتے؟’

اورشرمندگی کے احساس میں ڈوبا ہوامصنف  جواب  دیتا ہے،

‘پہچانتا تو ہوں، ضرور پہچانتا ہوں۔ …نام بھول رہا ہوں۔ صورت دیکھ کر اکثرپہچان جاتا ہوں، نام نہیں یاد آتا۔’

لیکن مصنف کو معلوم ہے کہ ‘نام ایسا ہے کہ جب تک روپ کے پہلے ہو جائے تب تک روپ کی پہچان ادھوری رہ جاتی ہے۔ …روپ اہم ہے یا نام؟ نام بڑا ہے یا روپ؟’

اپنی اولاد کا نام چنتے وقت کتنی دماغی،نفسیاتی اورثقافتی جدوجہد کی جاتی ہے۔نام میں آپ کچھ سپنے بھی منسلک کردیتے ہیں۔ کئی لوگ اپنے نام کی کسوٹی پر کھرے نہیں اتر پاتے۔ اس میں اکیلے ان کا قصور ہو، ضروری نہیں۔ تو انسان پورا پہچانا جاتا ہے نام روپ کے امتزاج سے۔ لیکن کئی بار صرف روپ، شکل ہی اس کی پہچان کو مستحکم کر دیتی ہے۔ نام تک پہنچنے کی نوبت نہیں آتی۔

اجول بھٹاچاریہ نے جرمنی کا اپنا تجربہ لکھا ہے،

‘میں1991-93 میں برلن میں تھا۔ برلن کے مشرقی حصے میں کئی محلوں میں اس وقت نو-نازیوں کا تانڈو چل رہا تھا۔ سرعام راستے پر سیاہ فام غیرملکیوں کی پٹائی کی جا رہی تھی۔ میرا محلہ بھی ایسا ہی تھا۔ میرے گھر کے ٹھیک پیچھے ایک ویتنامی خاتون کو پیٹا گیا۔ میں دہشت میں تھا، شام کو آٹھ بجے کے بعد باہرنہیں نکلتا تھا۔

ایک فیملی گاڑی تھی،بیوی چلاتی تھی۔ میں یا تو بیوی کے ساتھ نکلتا تھا، اکیلے لوٹنا ہو تو ٹیکسی لےکر گھر آتا تھا اور ٹیکسی ڈرائیور سے کہتا تھا کہ میں دروازہ کھول کراندر جاؤں اس کے بعد ہی وہ جائے۔ ڈر میرے خون میں سما گیا تھا۔ میں چڑچڑا ہو گیا تھا، میری مکمل شخصیت بدلنے لگی تھی۔ ‘

امریکہ میں سکھوں پر حملے ہونے کی خبریں ملتی رہی ہیں۔ حملہ کرتے وقت انہیں‘پاکی’ کہا جاتا ہے۔ ایک سکھ دوست نے بتلایا کہ ایک سکھ تنظیم  نے وضاحت جاری کی کہ وہ پاکی یا مسلمان نہیں ہیں، ان کے اجتماعی نام  الگ ہیں۔

تو کیا وہ تنظیم  حملہ آوروں کو اپنا اصلی نشانہ ٹھیک سے چننے کو کہہ رہا تھا؟ وہ یہ کہہ رہا تھا کہ سکھوں پر وہ غلط پہچان کی وجہ سے حملہ کر رہے ہیں۔ انہیں جن پر حملہ کرنا ہے، بےشک کریں، ہم پر نہ کریں کیونکہ ہم ‘وہ’ نہیں ہیں۔

اجتماعی پہچان ہی کئی بار فیصلہ کن طورپرمہلک ہو جاتی ہے۔ اس وقت اس گروپ کے الگ الگ شخص کے نام جاننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ 1984 میں سائنس کالج کے ایک سکھ ٹیچرکوتشددتھمنے کےبعد جب ان کے طلبا اورشریک کاروں نے دیکھا تو انہیں دھکا لگا۔ ان کا روپ بدل گیا تھا۔ پہلی نظر میں وہ پہچان میں نہ آتے تھے۔

لیکن کیا اس صدمے کے بعد انہوں نے ان سکھ ٹیچر کی اس ‘دستبرداری’ میں اپنے سماج کی حصہ داری پر کوئی افسوس کیا؟

یوگنڈا میں عیدی امین نے جب طے کیا تو ایشیایی پہچان کو حملے کے لیے چنا گیا۔ اس وقت ہندوستانی ، پاکستانی نام ایک دوسرے کےاجتماعی نام  میں ضم ہو گئے۔ ایک ہی جہاز پر، ایک ہی راستے سے، دونوں یوگنڈا، جو ان کاملک تھا، چھوڑنے کو مجبور کئے گئے۔ تو جو پہچانیں جنہیں ایک سیاسی نظریہ  ایک دوسرے کے خلاف مانتی ہیں، وہ یہاں ایک ہو گئی تھیں۔

الگ الگ نام بتاکرتشدد سے بچنے کا موقع بھی مل پائے، یہ ممکن نہ تھا۔ آپ کے نام کا الگ ہو جانا ہی کافی نہیں، سامنے والے کو نام اور نام میں فرق کرنا بھی تو آنا چاہیے۔

ایک اجتماعی  نام ہے، ایک انفرادی نام۔ آدمی گروپ میں ہے یا گروپ آدمی میں؟ اپنے نام سے آدمی اپنے خاص وجود کا اعلان کرتا ہے۔ اس کا مٹنا بناخون بہائےاس کی موت ہے۔ اس نام کی اہمیت کیا ہے اور کب ہے؟ کب وہ مارا جاتا ہے؟

‘کٹج’ کی ہی سطریں ہیں،

‘نام اس لیے بڑا نہیں ہے کہ وہ نام ہے۔ وہ اس لیے بڑا ہوتا ہے کہ اسے معاشرے کی قبولیت ملی ہوتی ہے۔ انسان  سچ ہے، نام سماج سچ۔ نام اس عہدے کو کہتے ہیں جس پر سماج کی مہر لگی ہوتی ہے، جدید تعلیم یافتہ  لوگ جسے ‘سوشل سینکشن’ کہا کرتے ہیں۔’

روپ بھی سماج یا کمیونٹی  سچ ہو سکتا ہے، یہ اجول بھٹاچاریہ جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کےتجربے سے ثابت ہے۔ آپ کو دیکھتے ہی جب ایک بھیڑ پہچان لے تو وہ آپ کے روپ کو انسان کی سچائی  کی جگہ کمیونٹی کی سچائی ہی مان رہی ہوتی ہے۔ جب وہ اس شکل وصورت کے،جس میں رنگ شامل ہے، احساس محض سے قتل پر آمادہ ہو جائے تو کیا یہ اس روپ کی کمی ہے یا اس ہجومی سماج کی؟

روپ دھوکا دے سکتا ہے۔ یعنی میں جسے دشمن مان بیٹھا ہوں، وہ اپنے روپ سے مجھے اپنا جان پڑ سکتا ہے۔ تو اپنےپن کے اس ‘فریب’ سے، جو وہ مجھ جیسا روپ رکھ کر میرے ساتھ کرنا چاہتا ہے، میں خود کو کیسے بچاؤں؟

جرمنی میں یہودیوں کو جو پیلا بلا لگانا پڑتا تھا، وہ ‘آریائی جرمن’کو اسی دھوکے سے بچانے کے لیے۔ قدرت نے جو گڑبڑ کر دی ہے اسے درست کرنے کا اور کون سا طریقہ ہو سکتا ہے؟ اس نے لوگوں کواکثر ایک جیسا بنا دیا جبکہ ہم الگ الگ رہنا چاہتے ہیں۔

اگر سماج کی مہر نہ ہو، تو نام جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ لیکن جس جگہ ایک جیسی شکل والوں کے کئی نام ہوتے ہیں تو نام پر مہر کی ضرورت پڑتی ہے۔ کس نام کو کون سا سماج شرف قبولیت بخشےگا یعنی خود میں شامل کرےگا اور کون سا نام اس کے اندر کےتشددکو ہوا دےگا، اس سے اس سماج اور اس نام کے رشتہ کا پتہ چلتا ہے۔

(علامتی فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی فوٹو: پی ٹی آئی)

کن ناموں کے لیے دروازے کھلے ہیں، سڑکیں پرسکون  ہیں؟ کن کے لیے نہیں؟ سڑکیں سڑکوں سے گھری ہوتی ہیں، محلے محلوں سے۔ کس گلی میں گھستے ہی آپ کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، کس سڑک پر بنا دائیں بائیں دیکھے چلتے چلے جا سکتے ہیں؟

یہ سماجی تعلیم ہردوئی کےتسلیم نے پوری نہیں لی تھی۔ تبھی تو وہ اندور جیسے شہر میں انجانی گلیوں میں‘چوڑی لے لو، چوڑی لے لو،’ جیسی پکار لگاتا گھوم رہا تھا۔ پوچھنے پرگولو جیساسیکولر نام بتانے سے کام نہیں چلےگا، اس کے روپ میں یا اس کے لہجے میں کچھ ایسا ہے جو سننے والے کے کانوں کو کھٹک جائےگا اور وہ پکڑ لیا جائےگا اور گولو نام سے چھپی اس کی اصلی پہچان کا ‘پردہ فاش’کر دیا جائےگا۔

اس سے بڑی جعلسازی کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی اپنا نام چھپائے؟ لیکن نتن گرگ نے جو لکھا، ملاجی کے منا بننے کی داستان، کیا اس کا مفہوم سمجھنا اتنا مشکل ہے؟

یادآ رہی ہے اپنے ایک اسٹوڈنٹ سے ہوئی بات چیت۔ ان کی نوکری راجستھان کے ایک شہر میں لگی اور اس نے رہائش کے لیے مکان کرایہ پر لیا۔ لیکن آدھا نام چھپاکر۔ جسے آپ کنیت کہیں گے۔ نام کا پہلا حصہ سیکولر تھا۔ میں نےاصلاح پسندی کے تکبر میں سرزنش کی ، ‘چھپایا کیوں؟ سچ بتانا تھا۔’

اس نے بنا ناراض ہوئے جواب دیا، ‘سچ بتانے سے مکان نہیں ملتا اور ابھی مجھے اپنے والد کے علاج کے لیے انہیں بلانا ضروری تھا۔ مکان چاہیے ہی تھا۔’پورا نام بتانے کا حوصلہ یا جوکھم میرااسٹوڈنٹ نہیں لے سکتا تھا۔ اس کے پورے نام کو ‘سوشل سینکشن’ نہیں تھا، ایک ہی حصہ کو تھا۔

یہ بات پچھلی جدید صدی کے 9ویں دہائی میں اچانک یادو، پاسوان جیسی‘کمیونٹی’کے ناموں کے چاروں طرف اجاگر ہونے سے صاف ہوئی۔ کیوں یہ منڈل کمیشن کی سفارشات کے لاگو ہونے کے بعد سینکشن پا سکے، اس کے پہلے صرف وہ اکثر ‘مہذب’ جگہوں میں دکھلائی نہیں پڑتے تھے، یہ سمجھنے میں وقت لگا۔

نام چھپاکر کون لوگ جیتے چلے آئے ہیں اور ان کی گھٹن کو کس نے محسوس کیا ہے؟ آلوک مشرا نے جتیندر بساریہ کے توسط  سے اس گھٹن یا تکلیف  کا اظہار  کیا،

‘…تسلیم نے مذہب کیوں چھپایا؟ اس کا جواب اس ملک کے تمام دلتوں کے پاس ہے۔ آپ اپنے سے الگ کسی دلت کو اس کی پہچان کے ساتھ جینے کہاں دیتے؟ اپنے پاس بھی انہیں رہنے کب دیا گیا؟ ان کے الگ گھر، الگ ٹولے، الگ پر بے بسائے۔ اچھوت بناکر کام اورمزدوری تک محدود رکھا۔ کام نکلا/بیگار پوری ہوئی، دوڑا دیا انہیں ان کے دکھن ٹولوں کی جانب۔ ان کے لیے تمہارے گھر کی دیہری اور رسوئی کسی لکشمن ریکھا سے بھی زیادہ دور رہی۔

شہروں میں آپ کی دکانیں، فیکٹریاں، ہاسپٹل، ہوٹل سب میں اہم کام کرنے کے لیے،اہلیت ہونے پر بھی وہ آپ کی پہلی ترجیح کبھی نہیں رہے۔ گاؤں سےکوئی دلت اپنے نفرت انگیزذات پات کے سلسلےکوچھوڑکرپڑھتا لکھتا نوکری کرتا شہر کی طرف آیا تو اسے آپ کے محلے میں کرایہ پر گھر نہیں ملتا، نوکری نہیں ملتی، دھندا نہیں چلنے دیا جاتا۔

نالے کےکنارے کی جھوپڑپٹی میں رہنے سے بہتر اس نے کاسٹ چھپاکر تمہاری کالونی میں کرایہ پر گھر لیا بھی تب اس کی ذہنی حالت سمجھنی ہو تو آج سے کئی دہائی  پہلے مراٹھی رائٹر بابوراؤ باگل کی کہانی‘جب میں نے جاتی چھپائی’ پڑھ لینی چاہیے۔ یہ جاتی چھپانا اتنا تکلیف دہ  ہوتا ہے کہ جسے تم کبھی محسوس نہیں کر سکتے۔ جاتی چھپاکر وہ لوگ اپنے ہی دفتر کے ہم ذات لوگوں، گھر پریوار اور ناطے رشتہ داروں کو اپنے نام نہاد اس کرایہ کے گھر میں بلانے سے جھجکتے ہیں کہ کہیں اس اشرافیہ  محلے میں ان کی جاتی نہ کھل جائے۔

اپنے معمولی معیار زندگی کو بہتر بنانےکے چکرمیں وہ اتنے بے لوث ہو جاتے ہیں کہ اپنے ترقی پسند نظریے اور اپنی عظیم شخصیتوں کی تصویر و ان سے جڑے اقوال کو دہرانے سے بھی صاف بچتے ہیں۔ اس پر بھی ایک نہ ایک دن تمہاری کوے کی نظر انہیں تاڑ ہی جاتی ہے۔ ایسے میں ممکن ہوا تو اس پریوار کی عوامی تذلیل اور لنچنگ تک کر دی گئی، نہیں تو سماجی بائیکاٹ  اور بےحسی  کے وہ کاٹے دیے جاتے ہیں کہ بندہ جلد ہی اپنے ڈیرہ ڈانگر اٹھا، اپنی نام نہادبرادری کی اندھیری اور سیلن بھری کوٹھریوں میں جاکر رہنے کو مجبور ہو جاتا ہے۔

آپ کے ذات پات اور طبقاتی نظام کی وجہ سے اس ملک کے تمام دلت آدی واسی اور حاشیائی  پچھڑے پسماندہ مسلمان، ہزاروں کی تعداد میں شہروں میں اپنی جاتی تو کہیں مذہب چھپاکر اپنا پیٹ پال رہے/دھندا کر رہے ہیں!’

جتیندر بساریہ‘سوشل سینکشن’ کی ہی بات کر رہے ہیں۔ نام وہی عہدہ ہے جس پر سماج کی مہر لگی ہو۔ اگر سماج اسے سینکشن نہ دے تو اس نام کو پھینک دینا پڑتا ہے۔ اپنے نام سے الگ ہونا انسانوں کے لیے سب سے بڑی توہین  ہے۔ پھر بھی کیوں لوگ نام بدل لیتے ہیں، یہ جو نہیں سمجھ پاتے ان کے بھولےپن پر قربان ہی ہوا جا سکتا ہے!

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

یہ 6 دسمبر1992 کے بعد کی بات ہے۔ تب میں پٹنہ میں تھا۔ میرے ایک دوست کوسفر کرنا تھا۔ پورے ملک میں کشیدگی تھی۔ مسلمان نام خطرے میں تھے۔ لیکن میرےدوست کا سفر بہت ضروری تھا۔ وہ وقت تھا جب آپ ریزرویشن بنا آئی ڈی  کے کرا سکتے تھے۔ ٹرین اور ہوائی جہاز دونوں میں۔

میرےدوست نے اپنے نام کی جگہ ایک ‘ہندو نام’ سے ریزرویشن کروایا۔ یہ بتلاتے وقت اس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں اور ہم نے بھی آنکھیں موڑ لی تھیں۔ یہ اس دوست کے لیےشرم کی بات تھی، یا ہمارے لیے؟ نام آپ بدل لیں اور بھیس بھی تو بھی پکڑے جا سکتے ہیں۔ٹرین میں اپنی اماں یا کسی جاننےوالے سے بات کرتے وقت ‘آداب’، ‘سلام’ یاخدا حافظ’ آپ کا راج فاش کر دیتا ہے۔ پھر آپ میں اوردوسرے مسافروں میں ایک تناؤ بھری دوری کھنچ جاتی ہے۔

اشوک واجپائی نے اپنے بیٹے کبیر کے ٹرین کےسفر کا واقعہ سنایا تھا۔ فون پر ان کا نام کبیر سن کر ڈبے میں تناؤ سا آ گیا۔ پھر وہ اس کتاب کو چھوڑکر کسی کام سے ڈبے سے نکلے جو ان کے ہاتھ میں تھی۔ لوٹے تو ڈبے کا تناؤ ختم ہو چکا تھا۔ ایک نے کہا، ‘ارے! آپ نے اپنا پورا نام نہیں بتلایا؟’

انہوں نے اچھے ہندوستانیوں کی طرح کبیر کی غیر موجودگی میں کتاب اٹھاکر دیکھ لیا تھا کہ کتاب کے مالک کا نام کبیر واجپائی تھا۔ یعنی اپنا ہی آدمی!اس استقبال سے کبیر کو اتنی الجھن ہوئی کہ انہوں نے ڈبہ بدل لیا۔

نام بدلیں، بھیس بدلیں اور بڑے پیمانے پرسماج کا ‘سینکشن’ لےکرزندہ رہیں! تسلیم پر 420 کا مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔ دو پہچان بتانے کے لیے۔ اتنا بڑا جرم!

نام چھپانے اور بدلنے کو لےکر ہوئے اس معاملے کو دیکھ کر 38 سال پرانی ناگارجن کی نظم یاد آ گئی،‘تیری کھوپڑی کے بھیتر۔’ہمارا یاتری کوی میرٹھ میں ہے۔ اور اسے ایک رکشہ کرنا ہے۔ ایک رکشہ پاس آ جاتا ہے،

‘گلے سے ردراکش کی لمبی مالا

لٹک رہی تھی جو گیا کلروالے

کرتے پر…

داہنے کان میں

لال پھول اٹکا پڑا تھا،

چمک رہا تھا بھال پر

چندن کا پیلا تلک…’

یہ ہے وہ روپ جسے سوشل سینکشن ملا ہوا ہے۔ شاعر کی آنکھیں اس روپ کو چیرکر دیکھتی ہیں،

‘وہ اچھا بھلا یووک تھا،

گندمی صورت کا دبلا پتلا!

بڑی بڑی آنکھیں سرمئی…’

لیکن اس رنگ روپ، بڑی آنکھوں اور چوڑی پیشانی سے زیادہ نمایاں کچھ اور تھا،

‘چوڑی پیشانی پر

چمک رہا تھا چندن کا ٹیکا

لنگی پیلی تھی…’

بھیس سے پکا ہندو دکھنے والا وہ رکشہ والا قریب آیا ہی تھا کہ کسی نے کان میں پھسپھساکر ہوشیار کیا کہ وہ مسلمان ہے، رکشے پر نہ چڑھنا۔ لیکن ناگارجن کے ساتھی نے کہا کہ اسی کا رکشہ  لیا جائےگا۔ اس نے دونوں کو میرٹھ کالج کے ہاسٹل پہنچا کر کہا،

‘بابا جی، ہم اب چٹییا بھی رکھیں گے

آٹھ دس روز کی

بھوک مری کے بعد

ہمارے اندر

یہ’عقل پھوٹی ہے!

باباجی

ردراکش کے منکے

اچھی مجوری دلا رہے ہیں

اب ہم چندن کا ٹیکا بھی

روز لگاتے رہیں گے…

باباجی، اب ہم

اپنا نام بھی تو پریم پرکاس بتلاتے ہیں۔’

بات ایک طرفہ نہ ہوئی تھی یہ نظم  کے بعد کے حصے سے معلوم ہو جاتا ہے،

‘یوں تو وہ

کلو تھا

کلو رکشہ والا

یعنی کلیم الدین…

مگر اب وہ

‘پریم پرکاس’

کہلانا پسند کرےگا…’

یہ1983 کا میرٹھ تھا۔ جن کی یادداشت کام کرتی ہے، وہ ناگارجن کی اس نظم  کاسیاق وسباق جانتے ہیں۔ یہ میرٹھ میں ہوئےفرقہ وارانہ تشدد کے بعد لکھی گئی نظم ہے۔ کلیم الدین عرف کلو کی پہچان اس تشدد میں خاک ہو گئی اور اس کا دوبارہ جنم ہوا پریم پرکاس کے روپ میں۔

نظم  نام روپ امتزاج  کی نظم ہے، سماجی قبولیت  کسے ملتی ہے، کسے نہیں، اس کی نظم ہے۔ پہچان بدلنے کے بعدبھی پریم پرکاش کو پریم پرکاس کہنے پر وہ پکڑا ہی جا سکتا تھا۔ ہمارا شاعریہ سب جان لینے کے بعد اس کے گھر والوں سے ملنا چاہتا ہے۔

ایک ردعمل اندور کے غنڈوں کا تھا، جنہوں نے گولو یعنی تسلیم کا پورا نام جان کر اسے پیٹا، اس کا فون توڑ دیا اور اس کا سارا سامان توڑ ڈالا۔ پھر پولیس نے اسی پر 9مجرمانہ دفعات  لگاکر جیل میں ڈال دیا۔ 1983 میں ہمارے شاعر کا ردعمل  الگ تھا،

‘جیو بیٹا پریم پرکاش!

ہاں ہاں، چوٹی ضرور رکھ لو

اور ہاں! پورن ماسی کے دن

گڑھ کی گنگا میں ڈوب لگا آنا!

ہاں ہاں تیرا یہی لباس

تیرے کو روزی روٹی دےگا!

سچ، بیٹا پریم پرکاش

تونے میرا دل جیت لیا!’

ناگارجن اس پریم پرکاش کو شاباشی دیتے ہیں جینے کی جگت نکال لینے پر، لیکن یہ بھی کہتے ہیں،

‘اتنا تو ضرور کرنا

مجھے اس نالے کے قریب

لے چلنا کبھی

اس نالے کے قریب

جہاں کلو کا کنبہ رہتا ہے!

میں اس کی بوڑھی دادی کے پاس،

بیمار ابا جان کے پاس

بیٹھ کر چائے پی آؤں گا کبھی!

کلو کے ننھے منے

میری داڑھی کے بال

سہلائیں گے…’

پریم پرکاش، عرف کلیم الدین عرف کلو! گولو عرف تسلیم! میرٹھ اندور! 1983-2021 ! ناگارجن نروتم مشرا!

(اپوروانند  دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)