خبریں

’ماں نے کہا کہ چاہے جو ہو جائے، افغانستان واپس مت آنا‘

افغانستان کے مزار شریف کے رہنے والےقربان حیدری نے اسی سال جے این یو سےپوسٹ گریجویشن مکمل  کیا ہے اور 31 اگست کو ان کی ویزا کی میعاد ختم ہونے کے بعد سے وہ بےیقینی کی صورتحال سے گھرے ہوئے ہیں۔افغانستان میں طالبانی تشدد کے شکار اقلیتی طبقہ ہزارہ سے آنے والے حیدری کو ڈر ہے کہ اگر ویزا کی توسیع  نہیں ہوئی تو ملک واپس لوٹنے پر ان کی جان خطرے میں ہوگی۔

23اگست 2021 کو دہلی میں یوائی ایچ سی آر کے دفتر کے باہر افغان مہاجرین  کے لیے مدد کی اپیل  کرتے لوگ۔ (فوٹو: رائٹرس)

23اگست 2021 کو دہلی میں یوائی ایچ سی آر کے دفتر کے باہر افغان مہاجرین  کے لیے مدد کی اپیل  کرتے لوگ۔ (فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے وہاں تیزی سے بدلتی ہوئی پیش رفت کسی سے چھپی نہیں ہے۔ ایسے میں اپنے ملک سے دور ہندوستان میں رہ کر پڑھائی کر رہے افغان طلبا کے خدشات اورپریشانیوں کی کئی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں۔

ایسے ہی افغانی طلبا میں سےایک افغانستان کےمزار شریف کے رہنے والےقربان حیدری ہیں، جو سال 2018 سے ہندوستان  میں ہیں اور اسی سال دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی(جے این یو)سے پوسٹ گریجویشن کی پڑھائی مکمل کر چکے ہیں۔ 31 اگست کو ان کے ویزا کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد سے وہ ڈر اور بے یقینی  سے گھرے ہوئے ہیں۔

قربان دی وائر کے ساتھ بات چیت میں بتاتے ہیں،‘افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ہندوستان  میں پڑھائی کر رہے افغان طلبا  کے لیےصورتحال  کافی پیچیدہ ہو گئی ہے۔ مجھ جیسے کئی طالبعلموں کے ویزا کی میعادختم  ہو گئی ہے اور کچھ کی ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔’

جے این یو سے کمپیوٹر ایپلی کیشن میں پوسٹ گریجویشن کر چکےقربان حیدری کہتے ہیں،‘میرے ویزا کی میعاد سب سے پہلے 21 جولائی کو ختم  ہوئی تھی لیکن بعد میں اسے توسیع  کرکے31 اگست کر دیا گیا لیکن اب ویزا ختم  ہونے پر میں نے ‘چینج ڈاٹ اوآرجی’ کے ذریعے ایک آن لائن پٹیشن شروع کی ہے تاکہ مجھ جیسے کئی دوسرے افغانی طلبا کے ویزا آگے بڑھ سکیں اور ہمیں افغانستان نہ لوٹنا پڑے۔ اس پٹیشن پر اب تک 40000 سے زیادہ  لوگوں نے ہماری حمایت  میں دستخط کیے ہیں۔’

افغانستان کی اقلیتی برادری ہزارہ سےتعلق رکھنے والے حیدری کو ڈر ہے کہ اگر ویزا کی میعادآگے نہ بڑھنے کی صورت میں انہیں افغانستان لوٹنا پڑا تو ان کی جان کو خطرہ  ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں،‘میں اقلیتی برادری ہزارہ سے تعلق رکھتا ہوں، جس پر طالبان ظلم کرتا آیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر مجھے افغانستان لوٹنا پڑا تو وہاں میرے ساتھ کیا ہوگا؟ میرے دو بھائی، حامد کرزئی اور اشرف غنی سرکاروں کے تحت افغانستان فوج  کا حصہ رہ چکے ہیں اس لیے ایک طرح سے میں طالبان کے نشانے پر ہوں۔ طالبان کچھ بھی کر سکتا ہے، وہ مجھے پکڑکر گولی بھی مار سکتے ہیں۔’

قربان حیدری۔ (فوٹو اسپیشل ارینجمنٹ)

قربان حیدری۔ (فوٹو اسپیشل ارینجمنٹ)

حیدری کہتے ہیں کہ افغانستان میں اب جس طرح کے حالات بنے ہوئے ہیں، ایسے میں وہ اپنے ملک  لوٹنا نہیں چاہتے اس لیے انہوں نے حکومت ہندسے یہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیےآئی سی سی آرکے تحت انہیں اسکالر شپ  دینے کی درخواست کی ہے لیکن اس میں ایک پریشانی ان کے پاس بونافائیڈ سرٹیفکیٹ کا نہ ہونا ہے۔

وہ بتاتے ہیں،‘یونیورسٹی نے ابھی تک مجھے یہ سند جاری نہیں کی ہے، جس کے بنا پر ویزاکی توسیع  مشکل لگ رہی ہے۔ میں نے کئی بار اپنے شعبہ سےرابطہ  کیا ہے لیکن کوئی سننے والا ہی نہیں ہے۔’

حیدری نے مزید کہا، ‘مجھے حکومت ہند سے امید ہے کہ وہ میرا ویزا ایکسٹنڈ کریں اور آئی سی سی آر کے تحت اسکالر شپ  دیں تاکہ میں یہاں ریسرچ کر سکوں۔میں نے وزارت خارجہ  کےجوائنٹ سکریٹری  جےپی سنگھ کو ایک ای میل بھی کیا ہے اور ان سے مدد کی گزارش کی  ہے لیکن ابھی تک کوئی ردعمل  نہیں ملا ہے۔’

جے این یو میں حیدری کی طرح لگ بھگ 10دوسرے افغانی طالبعلم اور بھی ہیں، جن میں سے اکثر کے ویزا کی میعاد31 دسمبر کو ختم  ہو رہی ہے۔ طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان میں بینکنگ سسٹم ٹھپ پڑنے سے ان سب کو مالی  دقتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا رہا ہے۔

حیدری کہتے ہیں،‘صرف میں ہی نہیں،میرے سبھی افغان ساتھی اقتصادی مشکلات  کا سامنا کر رہے ہیں۔ افغانستان میں بینکنگ سسٹم  ٹھپ پڑے ہیں۔ لوگ اے ٹی ایم سے پیسہ نہیں نکال پا رہے ہیں۔ وہاں ہمارے گھر بھی مالی تنگی سے جوجھ رہے ہیں۔ ان سب کا ہماری ذہنی صحت  پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ میرے پاس ویزا نہیں ہے اور اب لگتا ہے میرا کوئی ملک بھی نہیں ہے۔’

حیدری طالبان کے قبضے کے بعد سے وہاں کی مقامی  دقتوں کو بتاتے ہوئے کہتے ہیں،‘افغانستان میں مواصلاتی نظام  بہت خراب ہے۔ انٹرنیٹ بھی معطل ہے۔ میری ہفتے میں ایک بار مشکل سے اپنے گھروالوں سے بات ہو پاتی ہے۔ میرے گھر میں ماں کے علاوہ میرے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ 2015 میں طالبان نے میرے سب سے بڑے بھائی کو ہلاک کر دیا تھا۔ وہ افغانستان کی فوج میں تھے۔ میرے دو اور بھائی بھی افغانستان فوج کا حصہ رہ چکے ہیں لیکن فی الحال بےروزگار ہیں۔ وہ  ایک کنسٹرکشن سائٹ پر کام کرتے تھے، پر طالبان کے قبضے کے بعد سے وہاں کام ٹھپ پڑ گیا ہے۔’

حیدری کہتے ہیں،‘افغانستان بحرانی  دور سے گزر رہا ہے۔ لوگوں کے پاس نوکریاں نہیں ہیں، بینکنگ سسٹم ٹھپ ہے۔ لوگوں کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے کھانا نہیں ہے۔ اسکول، یونیورسٹی بند پڑے ہیں یا طالبان کے سائے میں چلنے کو مجبور ہیں۔ میری بہنیں حجاب پہن کر گھر سے باہر نکلنے کو مجبور ہیں، ان سے جبراً شریعت پر عمل  کرایا جا رہا ہے۔ ہر کوئی وہاں سے نکلنا چاہتا ہے۔’

اپنی ماں سے پچھلے ہفتے ہوئی بات چیت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں،‘جب آخری بار میری ماں سے میں نے بات کی تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ چاہے کچھ ہو جائے، مجھے لوٹ کر گھر نہیں آنا ہے۔’

حیدری ہزارہ برادری پر مظالم کے بارے میں بتاتے ہیں،‘میں مزار  شریف کے دائی کنڈی سے ہوں۔ میں ہزارہ برادری  سےتعلق رکھتا ہوں اور افغانستان میں ہزارہ ہوناجرم ہے۔ لمبے وقت سے طالبان ہزارہ پر حملے کر رہے ہیں، وہ معصوم بچوں کو مار رہے ہیں، نوجوانوں کو مار رہے ہیں اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ افغانستان میں ہمارے لوگوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ ہم نے کئی بار پرامن  ڈھنگ سے اپنی آواز اٹھائی لیکن بدلے میں ہم پر بم گرائے گئے۔ ہزارہ کے اکثر لوگ بہتر زندگی کے لیے دوسرے ممالک میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔’

حیدری خود ایک بم بلاسٹ کےمتاثرہ ہیں۔ وہ 17 سال پہلے مزار شریف میں ہوئے بم دھماکے میں اپنا بایاں ہاتھ کھو چکے ہیں۔

وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں بتاتے ہیں،‘افغانستان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ افغانستان پر شمالی کوریا کے تاناشاہ کم جونگ ان کی طرح کا ہی اقتدار ہے۔ طالبان بھی تاناشاہی چلا رہا ہے۔ ہماری بہنوں سے ان کے بنیادی حق،تعلیم کا حق،آزادی کا حق، روزگار کےحق کو چھین کر انہیں گھر میں قید کر دیا گیا ہے۔ انہیں حجاب پہننے کو مجبور کیا گیا ہے۔ ہم واپس 1996 کے دور میں پہنچ گئے ہیں، جہاں کوئی امید نہیں بچی ہے۔’

قابل ذکرہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے بعد اسلامی گروپ  طالبان نے افغانستان پر 20 سال بعد پھر سے قبضہ کر لیا۔ 15 اگست کو افغانستان کےصدر اشرف غنی ملک چھوڑکر چلے گئے تھے اور گزشتہ سوموار کو ہی طالبان نے اس کے قبضے سے باہر آخری صوبہ  پنج شیر گھاٹی پر بھی جیت کا دعویٰ کیا تھا۔

طالبان نے سات ستمبر کو افغانستان کی نگراں حکومت کی کابینہ کا اعلان کرتے ہوئے ملا محمد حسن اخوند کو وزیر اعظم مقرر کیا۔

اس کے کابینہ میں امریکی زیر قیادت اتحاد اور اس وقت کی افغان حکومت کے اتحادیوں کے خلاف20 سال تک چلی جنگ میں دبدبہ رکھنے والی طالبان کی اعلیٰ شخصیات کو شامل کیا گیا۔ اس میں عالمی سطح پر نامزد دہشت گرد حقانی نیٹ ورک کے ایک رہنما کو وزیر داخلہ  کاچارج دیا گیا ہے۔

غور کرنے والی بات ہے کہ طالبان نے انکلوسیو حکومت کےقیام کا دعویٰ کیا ہے، لیکن ان کی نگران کابینہ میں نہ تو کوئی ہزارہ برادری ہے اور نہ ہی کوئی خاتون۔