خبریں

جرمن حکومت نے تسلیم کیا کہ ان کی پولیس نے خفیہ طور پر خریدا تھا پیگاسس

جرمن میڈیا کےانکشاف کےمطابق،سال 2020 کےآخر میں جرمن فیڈرل کریمنل پولیس آفس نے پیگاسس اسپائی ویئر خریدا تھا، جس کا استعمال رواں سال  مارچ سے دہشت گردی  اورمنظم جرائم  سےمتعلق  چنندہ آپریشن  میں کیا گیا۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: جرمن حکومت نے مانا ہے کہ جرمن پولیس نے خفیہ طورپر خطرناک  پیگاسس اسپائی ویئر خریدا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ مطابق، جرمن فیڈرل کریمنل پولیس آفس (بی کے اے)نے سال 2019 میں اسرائیل کی فرم این ایس او گروپ سے یہ اسپائی ویئر خریدا تھا۔

رپورٹ کے مطابق، پارلیامانی ذرائع  نے بتایا ہے کہ حکومت نے بنڈسٹیگ کی انٹرنل کمیٹی کو خفیہ سیشن  کے دوران خریداری  کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ اس سے پہلے جرمن اخبار ڈی زائیٹ میں بھی اس خبر کی تصدیق کی تھی۔

ڈی زائیٹ کے مطابق، اسپائی ویئر کو ‘انتہائی رازداری’کے تحت خریدا گیا تھا، جبکہ وکیلوں نے اس بات کو لےکراعتراض کیا تھا کہ جرمن پرائیویسی قانون اس طرح کا سرولانس ٹول خریدنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

ویسے پولیس نے پیگاسس کا جو ورژن خریدا تھا، اس میں کچھ چیزوں کو بلاک کر دیا گیا تھا تاکہ غلط استعمال کو روکا جا سکے۔ حالانکہ یہ واضح  نہیں ہے کہ اسے کس طرح سے استعمال میں لایا گیا تھا۔

یہ انکشافات  ڈی زائیٹ اور جیوڑڈائچے جائٹنگ اور پبلک براڈکاسٹرس این ڈی آر اور ڈبلیوڈی آر کے ذریعےمشترکہ طور پر کیے گئے ہیں۔

جائٹنگ کےمطابق،جرمن فیڈرل کریمنل پولیس آفس کی نائب صدر مارٹنا لنک نے پارلیامنٹ کےممبروں سےاس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کے ادارے نے یہ سرولانس سافٹ ویئر خریدا تھا۔

سال 2020 کے آخر میں بی کےاے نے پیگاسس ٹروجن وائرس سافٹ ویئر کا ایک ورژن خریدا تھا۔ اس کا استعمال  اس سال  مارچ سے دہشت گرد اور منظم جرائم  سےمتعلق  چنندہ آپریشن میں کیا گیا ہے۔

جرمنی کی فیڈرل آئینی عدالت  نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سیکیورٹی  ایجنسیوں کو صرف خصوصی معاملوں میں ہی اسپائی ویئر کا استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

جرمن حکومت سے حال کے سالوں میں تین بار این ایس او اسپائی ویئر کےاستعمال  کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ حکومت نے اس کے استعمال  کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا تھا۔

اس معاملے کو لےکر گرین پارٹی کے ایم پی  کانسٹینٹن فان نوٹز نے اسے ‘قانون کی حکومت کے لیے ایک برا  خواب’بتایا ہے۔ انہوں نےوفاقی حکومت سے مکمل وضاحت  طلب  کی ہے۔ انہوں نے پوچھا ہے کہ جاسوسی سافٹ ویئر کی خریداری  اور استعمال کے لیے خصوصی طور پر کون ذمہ دار ہے۔

وہیں جرمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر فرینک یوباآئے نے کہا کہ ان کا ایسوسی ایشن یہ جاننا چاہتا ہے کہ ‘کیا صحافیوں کی ان کی جانکاری کے بنا جاسوسی کی گئی، کیا ان کے ذرائع  ابھی بھی محفوظ  ہیں۔’

این ایس او گروپ دنیا بھر میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کو پیگاسس سرولانس ٹول بیچتا ہے۔ یہ ٹول اپنے آپ میں اتنا طاقتور ہے کہ یہ ریئل ٹائم میں آئی فون اور اینڈرائیڈاسمارٹ فون کی جاسوسی کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تمام آڈیو اور ویڈیو کو ہیک کر سکتا ہے۔

بتا دیں کہ گزشتہ  جولائی میں دی وائر سمیت بین الاقوامی میڈیا اداروں  نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی این ایس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعےرہنما،صحافی ، کارکن، سپریم کورٹ کے عہدیداروں  کے فون مبینہ طور پر ہیک کرکے ان کی نگرانی کی گئی یا پھر وہ  ممکنہ  نشانے پر تھے۔

اس کڑی میں18جولائی سے دی وائر سمیت دنیا کے 17میڈیا اداروں نے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبروں کے ڈیٹابیس کی جانکاریاں شائع کرنی شروع کی تھی،جن کی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کی جا رہی تھی یا وہ ممکنہ سرولانس کے دائرے میں تھے۔

این ایس او گروپ یہ ملٹری گریڈاسپائی ویئر صرف حکومتوں کو ہی فروخت کرتی  ہیں۔ حکومت ہند نے پیگاسس کی خریداری  کو لےکر نہ تو انکار کیا ہے اور نہ ہی اس کی تصدیق  کی ہے۔

جہاں دفاع اور آئی ٹی وزارت نے پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال سے انکار کر دیا ہے، تو وہیں مودی حکومت نے اس نگرانی سافٹ ویئر کے استعمال اور اسے خریدنے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔