خبریں

افغانستان: طالبان نے خواتین کے احتجاج کی کوریج کر رہے صحافیوں پر تشدد کیا

افغانستان کے دارالحکومت کابل کےایک اخبار کے دو افغان صحافیوں سمیت کئی دوسرے صحافیوں نے طالبان کی حراست میں شدید طور پر تشدد کیے  جانے کی بات کہی ہے۔جانکاری کے مطابق، طالبان نے صحافیوں سے کہا کہ خواتین کی تصویریں لینا غیر اسلامی ہے۔

طالبان کی حراست میں صحافیوں کو بےرحمی سے پیٹا گیا۔ (فوٹو: رائٹرس)

طالبان کی حراست میں صحافیوں کو بےرحمی سے پیٹا گیا۔ (فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: افغانستان کےدارالحکومت کابل کےاخبار‘اطلاعات روز’کے دو افغان صحافیوں کو حراست میں تاروں سے بری طرح سے پیٹا گیا۔ کابل میں خواتین کے احتجاج کی  کوریج کرنے پر طالبان نے انہیں حراست میں لیا تھا۔

افغانستان میں نئی حکومت کےقیام کے بعد بدھ 8 ستمبر کوخواتین مظاہرین لگاتار دوسرے دن کابل کی سڑکوں پر نکلیں۔ تشدد کا سہارا لےکر طالبان جنگجوؤں نے انہیں منتشر کر دیا۔ صحافیوں کو پیٹا گیا اورغیرملکی  صحافیوں کو پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔

لاس اینجلس ٹائمس کے مطابق، ہاتھوں میں تختیاں لیے اور نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین جنوب مغربی سرے سے چلنا شروع کر چکے تھے۔وہ منگل(چھ ستمبر)کی شب کو طالبان کی طرف سے اعلان کردہ نگراں حکومت  میں تنوع کے فقدان کو لےکراحتجاج کر رہے تھے، جس میں ہزارہ برادری  کے ممبروں  اور خواتین کو شامل نہیں کیا گیا۔

سب سے پہلے ان کا سامنا طالبانی جنگجوؤں سے ہوا، جنہوں نے انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔ حالانکہ ان کے ساتھ  بحث کے بعد خواتین کواحتجاج  جاری رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔لیکن ان سے آگے موجود جنگجوؤں  کے دوسرے گروپ نے ریلی کو کور کر رہے صحافیوں کو نشانے پر لیا۔

انہیں گھیرنے کے بعد مسلح  طالبان جنگجو لاس اینجلس ٹائمس کے دو صحافیوں کے کیمروں پر جھپٹ پڑے۔

رپورٹ کےمطابق، دو غیرملکی صحافیوں کو پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، جہاں پہلے سے ہی کئی افغان صحافی  حراست میں رکھے گئے تھے۔

ان کے میڈیا پرمٹ کی جانچ کے بعد انہیں جانے کے لیے کہنے سے پہلے انہیں فوٹو کو ڈی لٹ کرنے کے لیے کہا گیا اور کہا گیا کہ خواتین کی تصویریں لینا غیر اسلامی ہے۔

جہاں غیر ملکی صحافیوں کو جانے کی چھوٹ دی گئی وہیں افغان صحافیوں کو پولیس اسٹیشن میں ہی رکھا گیا۔

اطلاعات روز کے 20سالہ  ویڈیو ایڈیٹر تقی دریابی کو پکڑکر طالبان جنگجو پولیس اسٹیشن لے گئے۔

انہوں نے لاس اینجلس ٹائمس کو بتایا کہ انہیں زمین پر ڈھکیل دیا گیا،تشدد کیا گیا اور ان کے بے ہوش ہو جانے تک پیٹا گیا۔ اس کے بعد انہیں ایک برآمدے میں لے جایا گیا اور ان کے اوپر پانی ڈال دیا گیا۔

ان کے 28سالہ معاون  نعمت نقدی کو لے جایا گیا۔

لاس اینجلس ٹائمس کے مطابق، نقدی نے کہا کہ وہ مسلسل چیختے رہے کہ وہ  صحافی  ہیں لیکن کسی نے نہیں سنی۔ انہوں نے کہا، ‘میں نے سوچا کہ وہ  مجھے قتل کرنے جا رہے ہیں۔ وہ  ہمارا مذاق بناتے رہے کہ کیا ہم ان کی شوٹنگ کر رہے تھے۔’

انہوں نے نیویارک ٹائمس کو بتایا کہ طالبان نے ان کےآئی ڈی کارڈ کو دیکھنے کے بجائے ان پر احتجاجی مظاہرہ منعقد کرنے کا الزام  لگایا۔ ان کے مطابق، ‘وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئے، میرے ہاتھوں کو کپڑے سے باندھ دیا اور مجھے تاروں سے پیٹنا شروع کر دیا۔’

یہی نہیں، دونوں صحافیوں کو رہا کرانے کے لیے تھانے گئے ان کے تین دوسرے ساتھیوں  کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ آخرکار انہیں رہا کیا گیا، لیکن وہ بہ مشکل چل پا رہے تھے۔

اطلاعات روز کے پبلشر ذکی دریابی نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کیا جس میں تقیؔ دریابی لنگڑا کر چل رہے تھے اور دوساتھی  انہیں سہارا  دے رہے تھے۔

دریابی نے کہا کہ ان کے معاونین پر چار گھنٹے تک بدترین تشدد کیا گیا تھا، جس کے دوران وہ کئی بار بےہوش ہو گئے تھے۔

ایک بیان میں،ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ میڈیا کو تب تک کام کرنے دیں گے جب تک وہ اسلامی اقدار کی عزت کرتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریکیا گوسمین نے کہا، ‘لیکن، وہ صحافیوں کو احتجاجی مظاہروں  پر رپورٹنگ کرنے سے روک رہے ہیں۔ طالبان کو یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ تمام صحافی  توہین آمیز پابندیوں یاانتقامی جذبے کے ڈر کے بنا اپنا کام کر سکیں۔’

اس ہفتے کی شروعات میں ہی طالبان نے ٹولو نیوز کے کیمرہ مین واحد احمدی کو منگل کو کابل میں ایک احتجاج کی ریکارڈنگ کرنے کے دوران حراست میں لے لیا تھا۔ ان کی کمپنی کی جانب سے طالبان کلچرل کمیشن سے رابطہ  کرنے کے تین گھنٹے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے)کے مطابق، کابل میں احتجاجی مظاہروں  کی ریکارڈنگ کرنے پردوسرے صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دو صحافیوں نے سی پی جے سے کہا کہ انہیں بدھ(سات ستمبر)کی صبح ہتھکڑیاں پہناکر نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی کے دفتر لے جایا گیا۔

سی پی جے رپورٹ کےمطابق،حراست میں رکھے جانے کے دوران طالبان جنگجوؤں نے دونوں صحافیوں کو زمین پر گرا دیا اور پہلے صحافی کو سر، کندھے، پشت اور پیر پر مارا اور پیروں سے بھی مارا۔ وہیں دوسرے صحافی  کے ہاتھ، سر، سینہ اور پشت پر مارا۔

دوپہر کےآس پاس طالبان نے امریکی کنٹینٹ کریشن ایجنسی‘فاصلہ’کے ایک پروجیکٹ‘افغان نوٹس’کے نامہ نگارمرزا حسین سدیدکو حراست میں لیا۔

سی پی جے نے ایک انٹرنیشنل براڈکاسٹر سے وابستہ ایک دوسرے صحافی  سے بھی بات کی، جس کو بدھ کو حراست میں لے لیا گیا۔

صحافی  نے کہا، ‘حراست میں رہنے کے دوران جنگجوؤں نے صحافیوں کے سر پر اپنی بندوقیں تان دیں اور دھمکی دی کہ اگر انہوں نے طالبان کے بارے میں رپورٹ چھاپی  تو وہ اس کے سر میں گولی مار دیں گے۔ صحافیوں کو تقریباً دو گھنٹے بعد رہا کیا گیا۔’

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں پیٹا نہیں گیا اور کوئی جسمانی چوٹ نہیں آئی، لیکن ذہنی  طور پر وہ سہم گئے تھے۔

اس بیچ، طالبان کےوزارت داخلہ  کے نئے سربراہ سراج الدین حقانی نے احتجاج کے انعقادکے لیے قواعد وضوابط جاری کیے ہیں، جس میں احتجاج سے تین گھنٹے پہلےحکام  سے اجازت  لینے کے اہتمام کوشامل کیا گیا ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے  یہاں کلک کریں)