خبریں

ایم جے اکبر کو ہٹانے کے لیے 150 سے زیادہ صحافیوں  نے وی آن نیوز کو خط لکھا

گزشتہ دنوں سابق مرکزی وزیر ایم جےاکبر زی میڈیا کے انگریزی چینل‘وی آن’سےجڑے ہیں۔ اب ان کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے صحافیوں  کے ایک گروپ نے اس ادارے سے کہا ہے کہ  کام کرنے کی جگہ پر جنسی ہراسانی اور جنسی ہراساں کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔

ایم جے اکبر۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

ایم جے اکبر۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: 150 سے زیادہ صحافیوں اورمیڈیا سے وابستہ شخصیات نے زی نیوز اور اس کی  ذیلی کمپنی وی آن نیوز کو لکھے گئے  ایک خط پر دستخط کیے ہیں،جس میں ان سے صحافی اورراجیہ سبھا ایم پی  ایم جے اکبر کو ان کے خلاف ماضی  میں لگے کئی جنسی ہراسانی کے الزامات کا حوالہ  دیتے ہوئے ہٹانے کی مانگ کی گئی ہے۔

اس بیان کو کئی صحافیوں  نے ٹوئٹر پر شیئر کیا ہے، جس میں ایشین ایج کی مدیر سپرنا شرما بھی شامل ہیں۔قابل ذکر ہے کہ اس اخبار کو اکبر نے ہی 1994 میں شروع کیا تھا۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی  اور جنسی ہراساں کرنے والوں  کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔’ساتھ ہی زی نیوز اور وی آن پر ‘اکبر کو نیوز روم میں جگہ دیتے ہوئے صحافیوں  کے تئیں ان کی ذمہ داری سے منھ موڑنے’ کا الزام  لگایا گیا ہے۔

گزشتہ دنوں یہ خبر آئی تھی کہ سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر زی میڈیا کے انگریزی نیوز چینل وی آن کے ساتھ ‘ایڈیٹوریل ایڈوائزر’ کے طور پر جڑے ہیں۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، سال 2018 میں ہندوستان میں می ٹو مہم کے دوران اکبر پر صحافی پریہ رمانی نے جنسی طور پر بدسلوکی  کے الزام  لگائے تھے، جس کے بعد 20دوسری خاتون صحافی  سامنے آئی تھیں، جنہوں نے اکبر پر جنسی ہراسانی ، حملے اور ریپ  کے الزام  لگائے تھے۔

اس کے بعد اکبر، جو اس وقت  مرکزی کابینہ  میں وزیر مملکت برائے خارجہ کا عہدہ سنبھال رہے تھے، کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔الزامات کے جواب میں اکبر نے پریہ رمانی پر ہتک عزت  کا مقدمہ دائر کیا تھا۔

دو سال بعد اس سال فروری میں دہلی کی ایک عدالت نے رمانی کو اس معاملے سے بری کر دیا تھا۔ اکبر نے اگست میں اس فیصلے کو ہائی کورٹ  میں چیلنج دیا ہے، جس کے بعد عدالت نے رمانی کو نوٹس بھیجا تھا۔

ٹوئٹر پر شیئرکیے گئے بیان میں ان سب باتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘اکبر کو اپنے یہاں رکھتے ہوئے وی آن نے ان 20 خواتین  کے تکلیف دہ تجربوں کو ان دیکھا’ کیا ہے۔

اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں برکھا دت، ندھی راجدان، پلّوی گگوئی جیسے کئی سینئر صحافی  شامل ہیں، جنہوں نے ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا سے درخواست کی ہے کہ اکبر کو نیوز روم میں بین کیا جائے۔ کہا گیا ہے کہ اس قدم سے یہ ثابت ہوگا کہ ‘گلڈ ان کے (عورتوں کے)لیے کام کے سازگارماحول کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے، جہاں ان کی عزت ہو اور انہیں آواز اٹھانے کے لیے حوصلہ دیا جائے۔’

سال 2018 میں اکبر پر لگے الزامات کے سامنے آنے کے بعد ایڈیٹرس گلڈ نے انہیں برخاست کر دیا تھا۔