فکر و نظر

متھرا میں گوشت کی فروخت پر پابندی کا اصل مقصد اور ممکنہ نتائج کیا ہیں؟

یوگی حکومت کے متھرا میں میٹ بین کے فیصلے کی قانونی حیثیت  پر کوئی تنازعہ  نہیں ہے کیونکہ اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے سے موجود ہے، لیکن اس کے اصلی ارادے اورممکنہ نتائج  پر یقینی طور پر بحث ہونی چاہیے کیونکہ یہ بڑے پیمانے پر لوگوں کےحقوق ، ان کےروزگار اور سلامتی سےوابستہ ہے۔

(علامتی  فوٹو، بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس)

(علامتی  فوٹو، بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس)

گزشتہ30 اگست کو اتر پردیش حکومت نے متھرا میں گوشت اور شراب کی فروخت  پر مکمل پابندی کا اعلان  کیا ہے۔حکم کی تعمیل  کیسے ہوگی، اس پر حکام  عمل پیرا ہیں۔

اس طرح کی پابندی  ہری دوار، رشی کیش، ورنداون، برسانہ، ایودھیا، چترکوٹ، دیوبند، دیوا شریف اورمسرکھ نیم سرمیں پہلے سے عائدہیں۔ ہری دوار میں تو یہ 1956 سےنافذ ہے۔

ملک  میں گوشت کی دکانوں کی اجازت اکثر مندروں کے مین گیٹ سے 100 میٹر کی اور ان کےاحاطے سے 50 میٹر کی دوری پر ہی دی جاتی رہی ہے، حالانکہ یہ صوبوں کی میٹ شاپ لائسنسنگ پالیسی پر منحصر کرتا ہے وارانسی میں یہ دوری 250 میٹر ہے۔ متھرا کی طرزپر دیے گئے فیصلے میں پورا میونسپل ایریا آتا ہے۔

پابندی کی قانونی حیثیت

مذکورہ پابندی  کی قانونی حیثیت کےبارے میں کوئی تنازعہ نہیں ہے کیونکہ اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے سے ہی موجود ہے، لیکن اس کے اصلی ارادوں اور ممکنہ نتائج پریقینی طور پر بحث ہونی چاہیے کیونکہ یہ بڑے پیمانے پر لوگوں کے حقوق ، ان کےروزگار اور خودساختہ گئورکشک یا مذہبی وثقافتی اقداز کے ٹھیکیدار ٹائپ کےلوگوں سے ان کا تحفظ وابستہ ہے۔

رشی کیش میں گوشت کی فروخت پر پہلےسے ہی پابندی تھی، بعد میں انڈوں کی فروخت پر بھی روک لگا دی گئی۔ اسے اوم پرکاش (2004)کے کیس میں اس بنیاد پر چیلنج  دیا گیا تھا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 19(1) (جی) کے تحت کسی بھی کاروبار کو کرنے کے بنیادی حق کی خلاف ورزی  ہے۔

لیکن سپریم کورٹ نے کہا کہ ہری دوار، رشی کیش اور منی کی ریتی میں مذہبی سیاحت  ریونیو اورروزگارکا کابنیادی ذریعہ  ہے اور ایسے مقامات پر اس کے لیے سازگار ماحول ہونا چاہیے۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو ان شہروں کی میونسپل حدود کے باہر گوشت فروخت کرنے  کی اجازت ہے۔

گوشت اور شراب کے کاروبار سے وابستہ  لوگوں کے مستقبل  پر سوالیہ نشان

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ  نےمشورہ  دیا ہے کہ گوشت اور شراب کےکاروبار سے وابستہ لوگ بھگوان شری کرشن کی جائے پیدائش  کے احترام  میں دودھ کا کاروبار شروع کر دیں۔ مشورہ ٹھیک ہے لیکن اس میں عملی طور پرکئی یشانیاں  ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ راتوں رات کاروبار بدل لینا اور وہ بھی اس طرح کہ آپ کی آمدنی اتنی ہی رہے، بہت مشکل ہے۔ مثال کے طورپر، ریئل اسٹیٹ کی کسی بڑی بھاری کمپنی کو بھی کہا جائے کہ اگلے دن سے ہتھیار بنانے کی فیکٹری کھول لے تو ان سے نہیں ہو پائےگا۔ تب چھوٹے کاروباریوں کی کیا بساط ہے؟

یوں بھی چونکہ گوشت اور شراب کی فی یونٹ  قیمت دودھ سے کہیں زیادہ ہے، اس لیے اسی طرح کی آمدنی کوبنائے رکھنے کے لیے انہیں کافی زیادہ مقدار میں دودھ فروخت کرناپڑے گا۔ شہر میں اتنی زیادہ مقدار میں دودھ کی دستیابی   اور سپلائی  دونوں میں شک ہے۔

دوسرے،چونکہ شہر کے لوگوں  کی دودھ کی مانگ ابھی موجودہ کاروباری  پوری کر ہی رہے ہیں، اس لیے یہ فہم سے بالا ترہے کہ بڑی تعداد میں نئے لوگ اگر اس کاروبار میں آ گئے تو ان کاکاروبارکیسے چلے گا؟

اس سے سب واقف ہیں کہ کسی رہائشی کالونی کے باشندوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک محدود تعداد میں ہی الکٹریشن، پلمبر، کپڑے استری کرنے والے اور کرانے، دودھ، مٹھائی، فوٹوکاپی، سبزی، پھل وغیرہ  کی دکانیں رہ اور چل سکتی ہیں۔ اس سے زیادہ دکانیں کھل جائیں گی تو کسی کا کاروبار ٹھیک سے نہیں چل پائےگا۔

اپنی پسند کے کھانے کا حق  اور اس میں رکاوٹیں

اپنی پسند کا کھانا کھانے کا حق بنیادی حق  مانا گیا ہے۔ حکومت اس پرتجاوز نہیں کر سکتی۔

یہ ٹھیک ہے کہ میونسپل حدود کے باہر گوشت اور شراب کی فروخت جاری رہےگی۔سوال یہ ہے کہ وہاں تک آنے جانے میں لوگوں پر اضافی اخراجات کا بوجھ پڑےگا۔ اب سب لوگ سائیکل یا بائیک چلا نہیں سکتے۔ پٹرول کی قیمتوں کی وجہ سے شہروں میں کاریں چلانا اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ دو سو روپے کا چکن خریدنا ہو تو اتنے کا تو پٹرول ہی لگ جائے۔

اور یہ پریشانی چند لوگوں کی نہیں ہوگی، لاکھوں کی ہوگی۔ ہم اسے سمجھاتے ہیں۔

ملک میں2011 کی مردم شماری  کے مطابق121.09 کروڑ کی آبادی میں 79.8فیصد ہندو، 14.2فیصدمسلم، 2.3فیصد عیسائی، 1.7فیصد سکھ اور 2فیصددوسرے عقیدوں کے لوگ تھے۔کھانے سے متعلق متعدد سروے میں یہ پایا گیا تھا کہ ملک  کی لگ بھگ 70فیصدی  آبادی گوشت خورہے۔

اس سے ان ہندوؤں کا فیصد نکلا جا سکتا ہے جو گوشت خور ہیں۔آسانی  کے لیے مان لیجیے کہ سارے مسلم، عیسائی اور سکھ گوشت خور ہیں اور 2فیصددوسرے سبزی خور ہیں۔

تھوڑا حساب لگانے سے پتہ چلےگا کہ ملک کی 70فیصدی آبادی کو گوشت خوربنانے کے لیے 62.42فیصدیا موٹے طور پر لگ بھگ 60فیصدی ہندو گوشت خور ہوں گے۔

رشی کیش۔ (فوٹو بہ شکریہ : وکی میڈیا کامنس)

رشی کیش۔ (فوٹو بہ شکریہ : وکی میڈیا کامنس)

رشی کیش جیسے چھوٹے شہروں میں حالات الگ ہیں۔2011 کی مردم شماری  کے مطابق صرف  رشی کیش کی آبادی 8033 تھی، حالانکہ2018 کی ایک رپورٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اب دس گنا بڑھ گئی ہے۔اس میں مسلمانوں کی تعدادمحض85 (1.06فیصد)تھی اور ہندوؤں کی7897(96.31فیصد).

اس کےمقابلےمتھرا کی آبادی349909تھی جس میں60259(17.22فیصد)مسلم تھےاورہندو2,85309 (81.54فیصد)اس کا مطلب ہوا کہ وہاں لگ بھگ 2.3 لاکھ لوگ گوشت خور ہوں گے۔ مطلب  ایسے لوگ جن کوگوشت کی  فروخت پر پابندی لگنے سے پریشانی  ہوگی، ان کی تعداد  کافی ہے۔

خودساختہ  گئورکشکوں یا تہذیب  کے خودساختہ  ٹھیکیداروں کے حملوں کا خطرہ

اگر آپ خبروں  کا مشاہدہ  کرتے ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ گزشتہ  کچھ سالوں سے اس طرح  کے لوگوں کے ذریعےبڑی تعداد  میں حملے کیے گئے ہیں۔حال میں ان کا نشانہ بالخصوص مسلم ٹھیلے والے یا اس طرح  کے چھوٹے دکاندار رہے ہیں۔

مذکورہ بالا واقعات کا تجزیہ کرنے پر آپ پائیں گے کہ انہیں مسلمانوں کے ‘سماجی بائیکاٹ’ ، ‘معاشی پسماندگی’ ، یا ‘مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ’کے طور پردیکھنا بھول ہوگی۔ ایسےواقعات درحقیقت ایک طبقے کے لوگوں کے ذریعے دوسروں پر اپنا ‘سماجی  تسلط ’ ثابت کرنے کی کی کوشش میں کیے گئے‘مظالم’ ہیں، اور انہیں صرف تعزیرات ہند کے تحت جرم سمجھنا غلط ہوگا۔

گیتا پانڈے نےحسیبہ امین کا حوالہ دیا ہے، جنہوں نے بڑی تکلیف سے کہا کہ نفرت  اب مرکزی دھارے  میں شامل  ہوگئی ہے یا اجتماعی قبولیت حاصل کرچکی ہے۔ مسلمانوں پر حملہ کرنا ‘کول’سمجھا جاتا ہے۔ ہیٹ کرائم  کرنے والوں کو انعام دیا جاتا ہے۔

مذکورہ حالات کےتناظر میں س بات پر یقین کرنے کی کافی وجوہات ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے خاندان کے لیے3-4 کیلو گوشت میونسپل حدودکے باہر سے لا رہا ہے تو یہ خودساختہ  گئورکشک یا تہذیبی اقدار کےٹھیکیدار ٹائپ لوگ اس کی گاڑی  روک کر اس کی تلاشی لے سکتے ہیں اور ان پر یہ جھوٹا الزام لگا سکتے ہیں کہ وہ چپکے سے اسے شہر کے اندر بیچ کر منافع کمانا چاہتا ہے۔ پھر پٹائی تو ہوگی ہی۔

غلطی یا بدمعاشی سے کہیں اس پر بھیڑ نے گائے کا گوشت رکھنے کا الزام  لگا دیا تب اس کی جان  بھی جا سکتی ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اس طرح  کے لوگوں کے ذریعےتشددکے معاملوں میں پولیس کا رویہ بےحد مایوس کن رہا ہے۔

وارانسی اس طرح کی پابندی کے دائرے میں کیوں نہیں

وارانسی یا کاشی ہندوؤں کےمقدس مقامات میں بھی سب سے مقدس ہے۔ بھگوان شیو تو اسے تباہی  میں بھی نہیں چھوڑیں گے، ایساعقیدہ  ہے۔

سوال یہ ہے کہ تب متھرا جیسی پابندی وارانسی میں کیوں نہیں لگائی  گئی؟ کاشی کی مذہبی عظمت کی وجہ سے کوئی یہ دلیل تو دے نہیں سکتا کہ گوشت اور شراب کی فروخت سے متھرا میں ہندوؤں کےمذہبی جذبات مجروح  ہو رہے تھے،لیکن  کاشی میں نہیں ہوں گے۔

اگر کاشی میں مندروں سے 250 میٹر کی دوری پرگوشت کی فروخت کومذہبی جذبات‘برداشت  کرسکتے ہیں’یا ان کے ساتھ ‘سمجھوتہ کر سکتے ہیں’، تو پھر دوسری جگہوں پرکیوں نہیں؟حکومت کی پوزیشن اور پالیسی سب جگہوں کے لیےیکساں  اور منطقی  ہونی چاہیے۔ ایک جگہ کے لیے ایک قانون اور دوسری جگہ کے لیے دوسرا قانون، ایسا نہیں چلےگا۔

بنارس میں گنگا گھاٹ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

بنارس میں گنگا گھاٹ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

وارانسی کی آبادی2011 کی مردم شماری  کے مطابق1198491 تھی، جس میں345461 (28.82فیصد)مسلم اور 840280 (70.11فیصد) ہندو تھے۔ کاشی کو کس بنیاد پر اب تک پابندی سےآزاد رکھا گیا ہے، اس کا کوئی واضح اورمنطقی جواب دستیاب نہیں ہے۔

میں  نے اس سوال پر سماج کے مختلف طبقوں  سے تفصیلی بات چیت کی ہے۔ کچھ کا اندازہ  ہے کہ اتنی بڑی مسلم آبادی میں ممکنہ  طور پر تیز ردعمل کی وجہ سےحکومت نے ہاتھ روک رکھا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے وارانسی کےعظیم الشان  ہوٹل اور سیاحتی  انڈسٹری کا دباؤ ہے جن کا بزنس متاثر ہوگا۔

کچھ کا اندازہ  ہے کہ رشی کیش، ایودھیا (55890) اور ورنداون (63005) جیسے چھوٹے شہروں کے بعد متھرا ہی پہلا بڑا شہر ہے جہاں ایسی پابندی لگائی  جا رہی ہے۔ اس ناطے یہ ایک تجربہ کی طرح ہے۔ حکومت یہ پرکھ رہی ہے کہ مسلمانوں کو کس حد تک دبایا جا سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں  جو فرقہ وارانہ پولرائزیشن میں اضافہ ہوگا اس سے کتنا انتخابی فائدہ ہوگا۔ اگر متھرا کے تجربےسے ہوئے نتیجے حوصلہ افزاہوئے تب وارانسی کا نمبر آئےگا۔

پابندی کےاحکام  کے ممکنہ  مقاصد

اپوزیشن نے مذکورہ بالا حکم پر سوال اٹھائے ہیں۔ سماجوادی پارٹی نے کہا ہے کہ حکومت عوام کی توجہ اہم  مدعوں سے بھٹکانا چاہتی ہے۔ ان کے ایم ایل سی سنیل ساجن نے پوچھا ہے کہ یہ فیصلہ  لینے میں چار سال کیسے لگ گئے؟

انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ وقت میں گوشت اور شراب کا کاربار کرنے والوں کو روزگار کی بازآبادی میں ترجیح  دی جانی چاہیے، لیکن شک ہے کہ ایسا ہو پائےگا۔

دارالعلوم فرنگی محل کے ترجمان مولاناسفیان نظامی نے بھی کہا ہے کہ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ مندروں کے نزدیک گوشت اور شراب نہیں بیچی جا سکتی پر وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت ان کی بازآبادی  کو کیسےیقینی بنائے گی؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کاروبار بدلنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔

میں  نے جن لوگوں  سے رابطہ کیا ہے ان میں سے کئی کا ماننا تھا کہ اس پابندی کا فوری مقصد عوام میں حکومت کے  ہندوحمایتی  ہونے کی ‘امیج’ کو مضبوط کرنا ہے اور اس کے ذریعے سے 2022 کے اسمبلی انتخاب میں ہندو ووٹوں کو اور بھی منظم کرنا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ یہ تجربہ ہے اور اگر یہ کامیاب رہا تو اسے وارانسی جیسی  جگہوں پر بھی کیا جائےگا۔ اس سے مستقبل میں یوگی آدتیہ ناتھ کے ہندوستان  کے وزیر اعظم  بننے کے امکانات کو اور طاقت ملے گی ۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)

(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ )