خبریں

دہلی: مسلم خاتون کا الزام، پولیس حراست میں مجھے بے رحمی سے پیٹا گیا

مسلم خاتون  کا الزام ہے کہ گزشتہ30 اگست کو ان کے کرایہ دار اور پڑوسیوں کے بیچ جھگڑا ہوا تھا۔انہوں نے مداخلت کر کےمعاملہ کو ختم کرا دیا تھا۔بعد میں شمال-مشرقی  دہلی کے  دیال پور تھانے  کے ایس ایچ او گریش جین اور دیگرپولیس اہلکار انہیں زبردستی  تھانے لے گئے اور ان کی بےرحمی سے پٹائی کی گئی۔ ایس ایچ او  نے الزامات کی تردید کی  ہے۔

حمیدہ ادریسی(فوٹو: غزالہ  احمد)

حمیدہ ادریسی(فوٹو: غزالہ  احمد)

نئی دہلی: شمال-مشرقی  دہلی کی ایک معذورمسلم خاتون  کا الزام ہے کہ دیال پور پولیس تھانے کےایس ایچ او گریش جین نے حراست میں ان کی بے رحمی سے پٹائی کی ہے۔

واضح ہو کہ 37سالہ حمیدہ ادریسی کا الزام ہے کہ گزشتہ30 اگست کو ان کے کرایہ دار اور پڑوسیوں کے بیچ بحث ہوئی تھی اور انہوں نے مداخلت کرکے معاملےکو رفع دفع  کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن بعد میں دیال پور تھانے کے ایس ایچ او نے ان کی پٹائی کی۔

حمیدہ نے تین ستمبر کو شمال-مشرقی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کےسیلم پور آفس میں شکایت درج کراتے ہوئے ایس ایچ او گریش جین کے خلاف جسمانی  اورجنسی ہراسانی کے لیے ان کے خلاف سخت کارروائی  کامطالبہ کیا ہے۔

اس شکایت کی ایک کاپی دہلی پولیس کمشنر، دہلی ہیومن رائٹس کمیشن اور دہلی اقلیتی کمیشن کو بھیجی گئی ہے۔

بتا دیں کہ ادریسی کے ایک پاؤں میں پیدائش سے ہی مسئلہ ہے۔

حمیدہ اور ان کے شوہر ممتاز ادریسی کراول نگر کے نہرو وہار میں ایک منزلہ مکان میں رہتے ہیں اور انہوں نے اس گھر کا ایک حصہ کریم نامی شخص کو کو کرایے پر دے رکھا ہے۔

کریم کے بیٹے سہیل اور صہیب اس حصے کا استعمال مشروبات فروخت کرنے کے لیے دکان کےطور پر کرتے ہیں۔ اس دکان کا کرایہ ہی ان کی آمدنی  کا واحد ذریعہ  ہے۔

تیس اگست کی شام کو صہیب اور حمیدہ کے چار پڑوسیوں کے بیچ جھگڑا ہوا۔ان پڑوسیوں کے نام سونی، عارف، سہیل اور شاہ رخ ہیں۔

جھگڑا بڑھنے پرحمیدہ نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی اور دونوں کو الگ کیا۔اس وقت دکان بند کر دی گئی اور صہیب گھر چلا گیا۔

حمیدہ نے دی وائر کو بتایا،‘معاملہ ٹھنڈا ہونے کے کچھ دیر بعد دیال پور پولیس تھانے کے ایس ایچ او گریش جین اور دیگر پولیس اہلکار میرے گھر آئے اور مجھ سے کرایہ دار کے لیزمعاہدے اور تصدیق فارم مانگنے لگے۔ میں نے انہیں فوراً11 مہینےکامعاہدہ دکھا دیا۔اس کے بعد انہوں نے مجھ سے انہیں کرایہ دار کے گھر لے جانے کو کہا، لیکن میں نے انکار کر دیا، کیونکہ میرے شوہر گھر پر نہیں تھے۔’

حمیدہ نے کہا کہ جین سمیت پانچ پولیس اہلکار تھے۔ ان میں سے تین وردی میں تھے، جبکہ باقی دو سادے کپڑوں میں تھے۔ کوئی خاتون  پولیس اہلکار نہیں تھی۔

حمیدہ نے کہا،‘پولیس اہلکار مجھے اپنی جیپ میں گھسیٹ کر لے گئے اور پوچھ تاچھ کے لیے وہاں سے پولیس تھانے لائے۔ میرے پڑوسی کا بیٹا سونی بھی ان کے ساتھ تھا۔ جب ہم پولیس تھانے پہنچے، انہوں نے مجھے وہاں رات 10 بجے تک بٹھاکر رکھا۔ اس کے بعد کومل نام کی خاتون  کانسٹبل نے میرے ہاتھ باندھ دیے، اور مجھے ایک چھوٹے کمرے میں دھکیل دیا۔’

انہوں نے مزید کہا،‘اس کے بعد ایس ایچ او گریش ایک ہرے رنگ کے پائپ کے ساتھ آئے اور بے رحمی سے میری جانگھوں اور پیٹھ پر مارنے لگے۔ انہوں نے میرے مذہب کو نشانہ بناتے ہوئے مجھے گالیاں دیں اور لگ بھگ دو گھنٹے تک بے رحمی سے پیٹتے رہے۔’

حمیدہ نے کہا کہ جین نے ان کا دوپٹہ اتار دیا تھا اور تب تک انہیں پائپ سے پیٹتے رہے، جب تک ان کی جلد پر گہرے نشان نہیں بن گئے۔

انہوں نے کہا،‘یہاں تک کہ اس واقعہ کے 15 دن بعد بھی میرے بدن پر ابھی بھی پولیس افسر کی بے رحمی  کے نشان ہیں۔’

حمیدہ نے بتایا کہ انہیں پولیس اہلکار نے دھمکایا کہ اگر کبھی اس کے بارے میں کسی کو بتایا تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑےگا اور اس کے بعد ہی رات لگ بھگ دو بجے تھانے سے جانے دیا گیا۔

حمیدہ کہتی ہے کہ 5000 روپے کی رشوت لینے کے بعد مجھے رہا کیا گیا۔ وہ کہتی ہیں،‘وہ زیادہ پیسے چاہتے تھے، لیکن میرے پاس اتنے ہی تھے۔’

حمیدہ کہتی ہیں،‘جب میں گھر پہنچی تو پتہ چلا کہ پولیس نے میرے گھر اور کریم کی دکان دونوں میں توڑ پھوڑ کی ہے اور صوفہ سمیت کئی قیمتی سامان کو تباہ کر دیا ہے۔’

حمیدہ اور کریم کا الزام ہے کہ ایس ایچ او جین نے انہیں(حمیدہ)حراست میں لیا تھا اور پڑوسی کے بیٹے سونی کے اشارے پر اس کی بے رحمی سے پٹائی کی تھی، کیونکہ سونی کا خاندان چاہتا تھا کہ جو دکان ہم نے کریم کو کرایے پر دی ہیں، ہم اسے کرایے پر دے دیں۔

دونوں نے سونی پر حمیدہ کی گرفتاری اور اس کی پٹائی کے لیے پولیس کو 50000 روپے کی رشوت دینے کا الزام لگایا ہے۔

حمیدہ کہتی ہیں کہ سونی پولیس تھانے میں موجود تھا اور میں نے اس سے پولیس کی دخل اندازی  کے بجائے بات چیت سے معاملے کو سلجھانے کو کہا تھا، لیکن اس پر سونی نے کہا تھا، ‘بہت بول رہی تھی نہ تم، لڑائی ختم کرواتے وقت۔ اب بولو۔’

ایس ایچ او نے الزامات کی تردیدکی

دیال پور پولیس تھانے کے ایس ایچ او گریش جین نے حمیدہ کے الزاموں کی تردید کی ہے۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا،‘ان کے دعوے جھوٹے ہیں۔ میں انہیں پولیس تھانے لے گیا تھا، لیکن صرف جانچ کے لیے اور اس کے بعد انہیں جانے دیا گیا تھا۔’

جین کے خلاف حمیدہ کی شکایت کے بارے میں پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ حمیدہ انہیں سازش میں گھسیٹ رہی ہیں، کیونکہ انہوں نے علاقے میں جرم  کوکنٹرول کیا ہے۔

حالانکہ شمال-مشرقی  دہلی کے ڈپٹی کمشنر پولیس سنجیو کمار سنگھ کا کہنا ہے،‘ایک سینئر افسر نے حمیدہ کی شکایت سنی تھی۔ جانچ جاری ہے اور جانچ کے بعد ہی مناسب کارروائی کی جائےگی۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)