فکر و نظر

نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم اور تہاڑ جیل کا راشٹرپتی

 نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے پاکستان دورہ کی منسوخی کی کوئی بھی وجہ ہو پس پردہ حقائق کو سامنے لانا ضروری ہے۔ ویسے تو نیوزی لینڈ ٹیم کا غیر ملکی دورے منسوخ یا ادھورا چھوڑ کر جانے کی کہانی بڑی پرانی ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

ابھی حال ہی میں جس طرح نیوزی لینڈ کرکٹ انتظامیہ نے پاکستان میں سکیورٹی خدشات کی آڑ میں اپنی ٹیم کا دورہ ایسے وقت پرمنسوخ کردیا، جب ان کی کرکٹ ٹیم پاکستان میں پہلے سے ہی موجود تھی اور پریکٹس کر رہی تھی، مجھے یاد آتا ہے کہ اس سے بھی عجیب و غریب حالات میں2002 میں امریکی خواتین ہاکی ٹیم نے ہندوستان کے ساتھ پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز رد کردی تھی۔

واقعہ کچھ یوں ہوا کہ انڈین ہاکی فیڈریشن کی دعوت پر امریکی ٹیم اپنے تمام لاؤلشکر کے ساتھ آدھی رات گئے دہلی وارد ہوگئی اور ایرپورٹ سے سیدھا ان کو پانچ ستارہ موریہ شیریٹن ہوٹل میں ٹھہرانے کے لیے لے جایا گیا۔ ایک دن کے ریسٹ کے بعد اس ٹیم کے لیے عالیشان ریسیپشن اور نیشنل اسٹیدیم میں پریکٹس کا اہتمام کیا گیا تھا۔

اگلے روز جب انڈین ہاکی فیڈریشن کے افسر ان ٹیم کو استقبالیہ میں لیجانے کے لیےہوٹل پہنچے، تو معلوم ہوا کہ پوری ٹیم نے ہوٹل سے چیک آؤٹ کیا ہوا ہے۔ و ہ محض آٹھ گھنٹے ہی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ پہلے یہ خدشہ ہوا کہ شاید ٹیم کو ہوٹل یا اس کا کھانا پسند نہیں آیا ہے۔

مگر وہ کس ہوٹل میں اب منتقل ہوئے ہیں، پتہ نہیں چل رہا تھا۔ پوری دہلی کے ہوٹلوں کو چیک کرنے کے بعد، جب ٹیم کا پتہ نہیں چل رہا تھا، تو فیڈریشن نے امریکی سفارت خانے سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ واشنگٹن سے ہدایت موصول ہوئی تھی کہ ٹیم کو جلد از جلد ہندوستان سے نکال کر امریکہ روانہ کیا جائے، کیونکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کا خطرہ ہے، جس سے کھلاڑیوں کی جان کو بھی  خطرات لاحق ہیں۔

ہاکی فیڈریشن کے سربراہ ان دنوں پنجاب پولیس کے سابق سربراہ کنورپال سنگھ گل تھے۔ معاملہ وزارت خارجہ تک پہنچا اور کئی روز بعد واشنگٹن سے معلوم ہوا کہ ہندوستانی صدر کے آرنارائنن کے لیٹر ہیڈ اور دستخط سے وہائٹ آفس میں امریکی ہم منصب کے نام اسی دن ایک فیکس آیا ہے، جس دن ٹیم دہلی میں وارد ہو رہی تھی۔

اس فیکس میں بتایا گیا تھا کہ ‘ہندوستان میں سیکورٹی کے حالات خاصے مخدوش ہیں اورپاکستان کے ساتھ حالات مخدوش ہیں اور  ان حالات میں حکومت امریکی ہاکی ٹیم کی سلامتی کی گارنٹی نہیں دے سکتی ہے۔’

سفارتی پروٹوکول کے آداب کے لحاظ سے یہ نا ممکن تھا کہ ہندوستانی صدر کے دفتر سے اس طرح کی کوئی کمیونی کیشن براہ راست وہائٹ ہاوس، وزارت خارجہ یا وزارت اعظمیٰ کے دفتر کی منظور ی یا ان کے علم  میں لائے بغیر جاسکتی ہو۔ فیکس کی کاپی جب منگوائی گئی تو تفتیش و تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ صدارتی محل یعنی راشٹرپتی بھون سے جاری یہ خط جعلی تھا اور بنگلور کے کسی ٹیلی فون بوتھ سے اس کو فیکس کیا گیا تھا۔ اس پر صدر نارائنن کے جعلی دستخط بھی کیے گئے تھے۔

وہائٹ ہاؤس نے بغیر تحقیق کے اس کو سیکورٹی ادراروں کو بھیجا، جنہوں نے بھی بغیر تحقیق امریکی سفارت خانے کو فارورڈ کرکے ٹیم کو واپس بلانے کا فرمان جاری کردیا۔ جب دہلی پولیس نے ہاکی فیڈریشن کی ایما پر کیس درج کیا، تو  بنگلور سے فیکس بھیجنے والے شخص کو گرفتار کیا گیا، جو ہوائی جہاز بنانے والی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ میں ملازم تھا اور فرسٹ کلاس ہاکی کا کھلاڑی رہ چکا تھا۔ مگر اس کو کبھی قومی ٹیم میں کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا، جس سے وہ نفسیاتی مریض بن چکا تھا۔ اس کا بدلہ چکانے کےلیے اس نے یہ حرکت کی تھی۔

چونکہ اس واقعہ کے چند ماہ بعد مجھے بھی دہلی کی تہاڑ جیل میں حکومت کی مہمان نوازی کا لطف اٹھانے کا موقع ملا، تو ان حضرت سے وہاں ملاقات ہوئی۔ ان کا نام مجھے اب یاد نہیں آرہاہے، مگر جیل میں ان کو سبھی راشٹرپتی کہہ کر پکار تے تھے، کیونکہ اس نے صدر (راشٹرپتی) کے جعلی دستخط سے امریکی صدر کو خط تحریر کردیا تھا۔ ان کوجیل کے بجائے کسی نفسیاتی اسپتال میں ہونا چاہیے تھا۔ اس کی ملاقات آتی تھی نہ کوئی کیس کی پیروی کرتا تھا۔

ان کو بھی اپنے کیس کی کوئی فکر نہیں تھی۔ وہ ہر پیشی پر دس، پندرہ یا اس سے بھی زیادہ صفحات پر مشتمل یاداشتیں لکھ کر جج کے حوالے کر دیتے تھے، جن میں کبھی حکومت کے نام کھیلوں کے شعبہ یا کبھی تعلیم تو کبھی صنعت کو بہتر بنانے کی تجاویز ہوتی تھیں۔ اس سے قبل وہ وارڈ میں دیگر قیدیوں کے ساتھ باضابطہ اس پر بحث و مباحثہ کرتے تھے۔ کورٹ میں بھی وہ اپنے کیس کی پیروی کے بجائے جج کے ساتھ یاداشت میں لکھی تحریر پر بحث کرتے تھے۔ اسی لیے اب جج بھی اس کو دیکھ کر ہی دوسری تاریخ دےکر جیل واپس بھیجتے  تھے۔

دہلی کا تہاڑ جیل دراصل آٹھ جیلوں کا مجموعہ ہے اور ان کے درمیان ہر سال اکتوبر میں تہاڑ اولمپک منعقد ہوتے ہیں۔2002کے اولمپک کی تیاری کے موقع پر راشٹرپتی جی نے ہاکی کو متعارف کروانے او ر قیدی کھلاڑیوں کی کوچنگ اور تربیت دینے کی آفر کی۔ چونکہ وہ خود فرسٹ کلاس ہاکی کھلاڑی رہ چکے تھے، اس لحاظ سے یہ تجویز معقول تھی۔ اس کے لیے بھی اس نے جیل حکام کے علاوہ کورٹ میں بھی درخواست دی تھی۔

مگر جیل حکام نے منع کردیا اور بتایا کہ ہاکی کے کھیل میں چونکہ ہر ایک کھلاڑی کے پاس اسٹک ہوتی ہے اسی لیے یہ سیکورٹی کے لیے خطرہ ہے۔ اس سے جیل کے اندر لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ اسی لیے کرکٹ، فٹ بال، والی بال، باسکٹ بال، کبڈی وغیرہ پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔

چونکہ کالم کی ابتدانیوزی لینڈ کی ٹیم کی سیکورٹی سے ہوئی تھی،2001میں جب امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی،اس سے قبل پاکستانی دارالحکومت  اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے میں طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کی میڈیا بریفنگ ہوتی تھی، جس میں بین الاقوامی میڈیا بھر پور شرکت کرتا تھا۔ان ہی دنوں نیوزی لینڈ کے کسی اخبار کا نمائندہ بھی افغانستان اور متوقع امریکی حملہ کو کور کرنے کے لیے اسلام آباد آیا ہوا تھا اور وہ بھی دیگر صحافیوں کی طرح ضعیف کی پریس کانفرنس شرکت کرنے آتا تھا۔

کئی روز سے اس کا  اخبار اس کی کوئی خبر لگ نہیں لگا رہا تھا اور وہ خاصا فریسٹریشن کا شکار تھا۔ وہ کسی طرح طالبان کے سفیر سے نیوزی لینڈ کے حوالے سے کچھ اگلوانا چاہتا تھا اور اس کو آمادہ کرنے کی کوشش کرتا تھا، چونکہ نیوزی لینڈ نے  انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورسز برائے افغانستان  یعنی آئی ایس اے ایف کے لیے200 سپاہی تعینات کرنے کی حامی بھری ہے تو نیوزی لینڈ کو دھمکا یا جائے تاکہ اس کی خبر بن سکے۔ مگر ملا عبدالسلام ضعیف کوئی ایسی دھمکی دینے سے گریز کر رہے تھے۔ ایک دن پریس کانفرنس ختم ہونے کے بعد اس صحافی نے افغان سفیر کو دوبارہ آمادہ کرنے کی کوشش کی تو ضعیف نے پہلے پوچھا کہ آخری نیوزی لینڈ کہا ں ہے؟

بی بی سی کے اس وقت کے نامہ نگار ڈینیل لیک نے اپنی ڈائری میں موجود دنیا کا نقشہ دکھاتے ہوئے نیوزی لینڈ کی طرف اشارہ کیا۔ ضعیف پھر بھی پسیج نہیں رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس چھوٹے سےملک کو  دھمکی دینا ہی وقار کے خلاف ہے۔ خیر کسی طرح یہ نامہ نگار ان سے افغانستان میں فوج بھیجنے کے لیے دھمکی اگلوانے میں کامیاب رہا اور اگلے دن یہ خبر نیوزی لینڈ میں اس کے اخبار کی سہ سرخی تھی۔

اسی کے ساتھ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں نیوزی لینڈ کے سفارت خانوں کی سیکورٹی بڑھادی گئی۔ مجھے یاد ہے کہ نئی دہلی کے چانکیہ پوری علاقے کے ایڈمنڈ ہلری روڑ پر نیوزی لینڈ کے سفارت خانے کے اطراف کئی سیکورٹی بینکر ز کھڑے کیے گئے، جس میں کئی برسوں تک سیکورٹی کے افراد تعینات رہتے تھے۔

خیر نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے پاکستان دورہ کی منسوخی کی کوئی بھی وجہ ہو پس پردہ حقائق کو سامنے لانا ضروری ہے۔ ویسے تو نیوزی لینڈ ٹیم کا غیر ملکی دورے منسوخ یا ادھورا چھوڑ کر جانے کی کہانی بڑی پرانی ہے۔بی بی سی کے مطابق  1987 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم سری لنکا کے دورے پر تھی لیکن پہلے ٹیسٹ کے بعد کولمبو میں ہونے والے بم دھماکے میں سو سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد اس نے یہ دورہ ختم کر دیا تھا۔

اسی طرح 1992 میں نیوزی لینڈ ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں نے کولمبو میں ٹیم ہوٹل کے قریب ہونے والے بم دھماکے کے بعد سری لنکا کا دورہ جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا اور وطن واپس چلے گئی تھی۔ ان میں مارک گریٹ بیچ، گیون لارسن، راڈ لیتھم، ولی واٹسن اور کوچ وارن لیز شامل تھے۔2001 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر روانہ ہوئی اور وہ ابھی سنگاپور پہنچی تھی کہ نائن الیون کا واقعہ رونما ہوگیا اور وہ وہیں سے وطن واپس روانہ ہو گئی۔

پھر 2002 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے خلاف کراچی ٹیسٹ کھیلنے کےلیے اپنے ہوٹل سے اسٹیڈیم کے لیے روانہ ہونے والی تھی کہ اس دوران فرانسیسی انجینئرز کی خودکش حملے میں ہلاکت کا واقعہ رونما ہوا اور ٹیم اسٹیڈیم کے بجائے ایر پورٹ روانہ ہوکر وطن واپس چلی گئی۔