فکر و نظر

ہندوتوا کو سلامتی کے لیے خطرہ نہ مان کر ہم کس کو بچا رہے ہیں؟

ہندوتواکو ایک قومی خطرہ نہیں بلکہ مقامی یا انتخابی سیاست کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔سادہ لفظوں میں ہمارے یہاں خطرے  کا مطلب؛ ایٹم بم،دشمن کے جنگی طیارےاور لمبی لمبی داڑھیوں والے آدمی تھے۔ دوسروں کو پیٹ کر جبراً جئےشری رام  بلوانے والے لوگ محض شر پسند نظر آتے تھے نہ کہ ریاستی یا قومی بقا کے لیے بحران ۔

علامتی فوٹو:پی ٹی آئی

علامتی فوٹو:پی ٹی آئی

آٹھ اگست کو ملک کی راجدھانی  کےعین وسط میں ایک ہجوم نے’جب ملے کاٹے جائیں گے، رام رام چلائیں گے’جیسے اشتعال انگیز نعرے لگائے۔یہ نعرہ بھڑکاؤ ضرور تھا ،مگر حیران کن  ہرگز نہیں تھا ۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کے ہجوم کےمقاصد فروری 2020 میں ہی  دہلی کی سڑکوں پر سر انجام پا چکے تھے۔

شایدآپ کا خیال ہو کہ ملک کے شہریوں کی طرف ایسے خطرے کو دیکھتے ہوئے ہم دفاعی ماہرین نے اپنی آواز بلند کی ہوگی۔ لیکن بقول فیض؛

اس طرح اپنی خاموشی گونجی

گویا ہر سمت سے جواب آئے

 حفاظتی خطرے کی ایک آسان سی وضاحت یہ  ہے کہ ‘کوئی ایسی شے، فرد،گروہ یا نظریہ جو عدم تحفظ کا احساس دلائے ،یا جان و مال کاخطرہ بن جائے۔اس وضاحت کے دائرے میں کئی چیزیں آ سکتی ہیں؛ ماحولیاتی تبدیلیاں، استحصال کرنے والی کمپنیاں ، قدرتی آفات ، جابرانہ ریاستیں، دشمن ممالک ، اور داخلی یا خارجی انتہا پسندتنظیمیں۔

مگر ہم دفاعی ماہرین اس لمبی فہرست کی صرف آخری دو مثالوں کی طرف متوجہ  ہوتے ہیں، یعنی دشمن ممالک اور انتہا پسند تنظیمیں۔ ان میں بھی زیادہ توجہ اسلامی بنیادپرست ، ماؤنواز اور علیحدگی پسند گروہوں پر مرکوز ہوتی ہے ۔ مذکورہ  گروہوں میں ایک مشترک بات یہ ہے کہ ان سب کاتعلق اقلیتوں یا سماجی حاشیےپردھکیلےہوئےنظریات سےہے۔

اس کے برعکس ہم دفاعی ماہرین  ہندوتوا  جیسےاکثریت پرست نظریات کے خطرے کا اعتراف کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں؛بنیادی عقائد، انکار اور ادارہ جاتی دباؤ۔مگر اس وضاحت کےضمن میں کئی سوال ابھرتے ہیں ۔ عدم تحفظ کا احساس کس میں پیدا ہو رہا ہے؟ اور کون پیدا کر رہا ہے ؟ کس کا تحفظ ہو رہا ہے ؟ قوم کا؟

اگر تحفظ کا ہدف قوم ہے تو یقیناً کوئی ایسی تنظیم جو قوم کے ایک فرقہ کو نشانہ بنا رہی ہو، وہ یقینی طور پرخطرہ ہے ۔ اگر تحفظ ریاست کا ہو رہا ہےتو پھر کوئی گروہ جو تشدداختیار کرے اور ریاست کے تشددکو چیلنج کرے یا اس کے آئینی عقائد سے منکر ہو  توایسےگروہ  کوریاست کے لیے خطرہ تسلیم کیاجانا چاہیے۔

ان دونوں تقاضوں پر ہندوتواکی پیروکاربنیاد پرست تنظیمیں کھری اترتی ہیں۔چنانچہ اس  لحاظ سےہم صلاح کاروں  اورماہرین کی خاموشی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ نہ ہی ہندو بنیاد پرست تنظیمیں قوم کے لیے خطرہ سمجھی جاتی ہیں، نہ ریاست کے لیے۔

لہٰذا  اس امر سے کچھ نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔پہلا یہ کہ اگر قوم خطرے میں نہیں ہےتو شاید یہاں پر قوم سے مراد اکثریت ، یعنی ملک کی ہندو عوام ہے، نہ کہ تمام شہری ۔ دوسرا، اگر ریاست کو ان گروہوں سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا  تو اس کا مطلب ہے کہ  ان کے ذریعےکیا ہوا تشدد بھی ریاست یا حکومت کےمقاصد کی خلاف ورزی نہیں ہے ۔

اسی بات کو ایک اور ڈھنگ سے پیش کیا جا سکتا ہے ۔ وہ یہ کہ شاید یہ تنظیمیں ریاست کی آلہ کار بن چکی  ہیں ، اور ریاست خود عملی طور پر اکثریت پسند بن چکی ہے، چاہے ہمارا آئین کچھ اور کہے۔یہ شاید ملک کی اقلیتوں کےلیے نئی بات نہ ہو پر اس پر یہاں اصرار کرنا ضروری ہے کیونکہ جانے انجانے میں ہم دفاعی ماہرین اپنی خاموشی کے ذریعے ریاست کی اکثریت پرستی کو فروغ دے رہے ہیں ۔

اس خاموشی کی جڑ ہے ہمارا حقیقت سے منہ موڑنا ، نہ کہ ہماری عدم واقفیت۔ یہ بات میں دعوے کے ساتھ اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ جب بات پاکستان یا بنگلہ دیش کی آتی ہےتو اس وقت ہم اکثریت پرستی کے منفی نتائج سے بخوبی واقف ہوتے ہیں ۔اور جب کبھی ہندوستان میں اس کا ذکر ہوتا بھی ہے تو اس کا موازنہ فوراً اسلامی انتہا پسندی سے کر دیا جاتا ہے۔

خیر یہ بات کچھ حد تک درست بھی ہے کہ یہ دونوں  ایک دوسرے کا رد عمل ہو سکتے ہیں، لیکن ان کے بیچ میں ایک مصنوعی مساوات تھوپنا غلط بھی ہے، اور ہماری منافقت کی نشانی بھی ۔ کیا ہم کبھی پاکستان کےسلسلے میں سنی اور شیعہ انتہا پسندوں کا موازنہ کریں گے؟ نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ شیعہ گروہ سماج کی اکثریت کو ورغلا نہیں سکتے۔مگر سنی انتہا پسند اکثریت کی حمایت کی بنا پر ریاست پر قابض ہو سکتی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی بنیاد پرستی فطرتاً  ہندوتوا سے زیادہ مضر ہے ۔ ایک آسان اور غلط تاثر بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ سب مودی سرکار کے آنے کے بعد ہوا ۔ مگر یہ افسانہ تو بہت پرانا  ہے اور ہمارےتحقیقی اداروں کی جڑوں سے اپجتا ہے ۔میں یہ بات کچھ حد تک اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔

سن 2011 میں میں نے ریسرچ کی دنیا میں قدم رکھا، اور میں خود بھی پاکستان اور دہشت گردی جیسےموضوعات کی طرف راغب ہو گیا ۔ میرے اس رجحان کی وجہ یہ بھی تھی کہ ایسے اداروں میں عموماًتحقیقی مراکز کی حدبندیاں بھی خطے،مقبول/فیشن میں آئےاصطلاحات(جیسے آف پاک یاQuad) یا داخلی خطروں  کی بنا پر ہوتی تھی ۔

ہندوتوااور اس کے اثرات کا مُطالعہ ان میں سے کسی تحقیقی  مرکز کے ما تحت نہیں ہوتا (بشمول داخلی تحفظ )۔ اس کو ایک قومی خطرہ نہیں بلکہ مقامی یا انتخابی سیاست کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔سادہ لفظوں میں ہمارے یہاں خطرے  کا مطلب؛ ایٹم بم،دشمن کے جنگی طیارے/جہازاور لمبی لمبی داڑھیوں والے آدمی تھے۔ دوسروں کو پیٹ کر جبراً جئےشری رام  بلوانے والے لوگ محض شر پسند نظر آتے تھے نہ کہ ریاستی یا قومی بقا کے لیے ایک  بحران ۔

اس صورت حال کی بعض وجوہات تھیں اور ہیں ۔ ہمارے یہاں تحقیقی اداروں کابحران       ہے اور وہاں پر ملازمت کے خواہاں کی کثرت ۔ علاوہ ازیں یہ ادارے ریاستی امداد اور تعاون پر زندہ رہتے ہیں۔ لہٰذا یہاں پر کام کرنے والے افراد پہلے ہی کم آمدنی پر کام کرتے ہیں اور ان پر مسلسل نوکری کھو دینے کا خوف منڈلاتا رہتا ہے ۔اس لیے کسی ایسے موضوعات پر لکھنا یہاں پر کام کرنے والوں کے لیےعدم تحفظ  کا باعث بن سکتا ہے۔

یہاں پر ایک اور سوال بھی اٹھتا ہے ۔ اس چیز سے کیا فرق پڑتا ہے کہ دانش گاہوں اور تحقیقی اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ اکثریت پرست سیاست کا خطرہ تسلیم نہیں کرتے ؟ مگر ایسا سوچنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ ہماری تحریروں سے سماج کی یہ حد بندیاں اور سخت ہو جاتی ہیں ؛’قوم کے ‘ہم’ کون ہیں،اور’وہ’کون ہیں؟ ‘دہشت گرد’کون ہے اور’رضاکار’کون ہے ۔ان کا اثر ہماری ثقافت پر بھی دکھتا ہے۔

مثال کے طور پر مقبول عام ٹیلی ویژن شو ‘فیملی مین ‘کولے لیجیے۔اس شو میں ملک کے جاسوسی افسران کی نجی زندگی کی کشمکش بےحد حساس ڈھنگ سے پیش کی گئی ہے ، مگر شو میں دشمنوں کا تصور ان ہی حد بندیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اصل خطرات پاکستانی، تمل ،مسلمان یا چینی  ہیں۔سب سے تشویش ناک امر یہ تھا کہ پچھلے ‘سیزن’ میں شو ‘لو جہاد’جیسےفرضی تصورات کا سہارا لیتا ہے ۔اس کے بر عکس اکثریت پسندی کو ایک ذاتی نقص کی طرح  پیش کیا گیا ہےنہ کہ ایک سماجی اور ریاستی مسئلہ کی طرح۔

ان سب کے باوجود کچھ امید کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں ۔ ملک کے اندر اور باہر دانشور ان تصورات پر سوال اٹھا رہے ہیں ۔ وہ ہمارے تحفظ کے تصور میں نسل، ذات، اور طبقاتی اثرات کا مطا لعہ کر رہے ہیں۔ مگر افسوس ان آوازوں کو اکثر حاشیے پر رکھا جاتا ہے اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایسے خیالات دانش گاہوں اور تحقیقی اداروں پر اثر انداز ہوتے ہیں یا نہیں ۔

پنجابی زبان  کے شاعر’پاش نے اپنی نظم ‘سرکھیا ‘میں یہ تنبیہ کی تھی کہ اگر ملک کی حفاظت جی حضوری پرمنحصر ہو تو ایسی حفاظت ملک اور اس کے باشندوں کے لیے خود ایک خطرہ بن جاتی ہے ۔ ملک کے دفاعی  ماہرین ہونے کے ناطے ہمیں پاش کی صلاح یاد رکھتے ہوئے خود سے ایک سوال پوچھنا چاہیے ۔ ہم کس کی حفاظت کر رہے ہیں ۔لوگوں کی یا حکومتوں کی ؟

اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

(امت جلکا بین الاقوامی تعلقات اور جنوبی ایشیائی سیاست کے ماہر ہیں۔)