فکر و نظر

مودی جی، زرعی قوانین کی مخالفت اگر سیاسی دھوکہ دہی ہے تو ان پر اڑے رہنا کیا ہے

مودی سرکار نے کسانوں سے بات چیت کے کئی دور چلائے،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ‘پارلیامنٹ سے منظور شدہ’زرعی قوانین کو قطعی واپس نہیں لیا جائےگا۔ کیونکہ اس سے پارلیامنٹ کی بالادستی مجروح  ہوگی۔گویا اب تک عوامی غم وغصے کی وجہ سےیاناقابل استعمال  ہو جانےپرجن قوانین کو واپس لیایا منسوخ  کیا جاتا رہا ہے، وہ  پارلیامنٹ کے بجائے وزیر اعظم کے دفتر میں پاس کیے گئے تھے!

وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

وزیراعظم نریندر مودی نےانگریزی میگزین‘اوپن’کودیےانٹرویو میں اپنی حکومت کے متنازعہ زرعی قوانین کو لےکر جو باتیں کہی ہیں، ان کے لیے ان کا‘شکریہ’ اداکرنے کی کم از کم دو وجوہات ہیں۔ البتہ لکھیم پورکھیری میں ان کےوزیرکےبیٹےکےذریعےچارکسانوں کو کچل کر مار دینے کے واقعہ پر ‘دانش مندی ’سےخاموشی اختیارکرکےاور نیو اربن انڈیا کانکلیو کےافتتاح کے لیے لکھنؤ جانے کے باوجود متاثرہ کسانوں کی فیملی کوہمدردی  کے دو بول سے بھی محروم  رکھ کر انہوں نے اس کی اہلیت بہت کم کر دی ہے۔

کسانوں کی تعریف کرنی چاہیے کہ اس کے باوجود انہوں نے اپنے صبروتحمل کو بنائے رکھا ہے اور ردعمل کے طور پرپیداہوئے اپنے غصے کو مقامی سطح سے آگے نہیں بڑھنے دیا ہے۔

اس کے باوجودعرصے بعد مذکورہ انٹرویو میں وزیر عظم کی زبان پرمذکورہ قوانین کا نام آیا تو ان کا ‘شکریہ’ادا کرنا بنتا ہے۔ اس وجہ سے اور کہ وہ اور ان کی سرکار ان کے خلاف طول پکڑتے جا رہے احتجاج کے باوجود یہی دکھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ان کے نزدیک  وہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہیں۔

اسے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ امریکہ سے لوٹنے کے بعدبھی وزیر اعظم نے نئے پارلیامنٹ ہاؤس کی تعمیر کا معائنہ کرکے اپنی ‘تھکان’اتارنا زیادہ ضروری سمجھا تھا، بجائے اس کے کہ کسانوں سے مل کر ان کے اعتراضات سنتے اور ان کےحل کو یقینی بناتے۔

بہرحال انہیں اس لیے بھی‘شکریہ’کہنے کا جی کرتا ہے کہ انہوں نے ان قوانین کےخلاف مظاہرہ کررہے کسانوں کو‘بخش’دیا اور اپنے سیاسی مخالفین پر ہی برس کر رہ گئے۔ ورنہ ابھی بھی ملک  کی عوام بھولی نہیں ہیں کہ نہ صرف انہوں نےبلکہ ان کی کابینہ اور پارٹی نے بھی گزشتہ نومبر سے راجدھانی کی سرحدوں پر بیٹھے کسانوں سے دشمنوں جیسا برتاؤ کرتے ہوئے ان پر تہمتیں لگانے اور ساتھ ہی ان کی تحریک  کو بدنام کرنے میں اپنی کتنی طاقت اورصلاحیت ضائع کی ہے۔

ابھی بھی ان کی سرکار سپریم کورٹ میں یہی کہہ رہی ہے کہ اس تحریک کو روکا نہیں گیا تو گزشتہ 26 جنوری کولعل قلعہ پر اور گزشتہ تین اکتوبر کو لکھیم پورکھیری میں ہوئے واقعات کےتکرار کوروکا نہیں جا سکےگا۔

یہ اور بات ہے کہ ان کی سرکار نے کسانوں سے وزارتی سطح کی مذاکرات کے کئی دور بھی چلائے، لیکن اس بڑی رکاوٹ کے ساتھ کہ ‘پارلیامنٹ سے منظور شدہ’زرعی قوانین کوقطعی واپس نہیں لیا جائےگا، کیونکہ اس سے پارلیامنٹ کی بالادستی  مجروح ہو جائےگی۔گویاکہ اب تک عوامی غم وغصہ بھڑکنے یا ناقابل استعمال ہو جانے پرجن قوانین کو واپس لیا یا منسوخ  کیا جاتا رہا ہے، وہ پارلیامنٹ کے بجائے وزیر اعظم دفتر میں پاس کیے گئے تھے!

ایسے میں کیاتعجب کہ کسانوں کی تنظیموں نے ‘زرعی قوانین کی واپسی نہیں تو گھر واپسی نہیں’ کا نعرہ دے دیا ہے اور بات یہاں تک بگڑ گئی ہے کہ اب دونوں فریق میں کوئی بات ہی نہیں ہو رہی۔ وزیر اعظم کی اس یقین دہانی کے باوجود کہ وہ کسانوں سے محض ایک فون کال کی دوری پر ہیں۔

اب وزیر اعظم نے مذکورہ انٹرویو میں زرعی قوانین کی مخالفت کر رہےحزب اختلاف کے رہنماؤں  پر سیاسی دھوکہ دہی کاالزام لگایا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ‘اگر آپ کسان کے حق میں کیے گئے اصلاحات کی مخالفت کرنے والوں کو دیکھیں گے تودانشورانہ بےایمانی اورسیاسی دھوکی دہی کا اصل مطلب سمجھ سکیں گے…یہ وہی لوگ ہیں، جنہوں نے اپنے منشور میں لکھا تھا کہ وہ  وہی اصلاحات نافذ کریں گےجو ہم لےکر آئے ہیں…لیکن اب ہم وہی اصلاحات لاگو کر رہے ہیں تو انہوں نے پوری طرح یو ٹرن لے لیا ہے اور دانشورانہ  بےایمانی کا بھونڈا مظاہرہ کر رہے ہیں۔’

وزیر اعظم کے کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر بی جے پی  کے بجائے حزب اختلاف ملک  کے اقتدار میں ہوتی تو وہ بھی ایسے ہی زرعی قانون بناتی، لیکن اب وہ ان قوانین کے اندھی مخالفت میں اس سچائی  کو پوری طرح سے نظر انداز کر رہے ہیں کہ کسان کے حق میں کیا ہے اور صرف یہ سوچ رہے ہیں کہ انہیں سیاسی طور پر کس طرح سے فائدہ پہنچےگا۔

وزیر اعظم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ زرعی قوانین کے جن بھی پہلوؤں پر کسانوں کواعتراض  ہے، وہ ان پر غوروخوض کرنے کو تیار ہیں۔ اس سلسلے میں کئی بیٹھکیں بھی ہوئی ہیں، لیکن ابھی تک کوئی ایک شخص بھی یہ بتا نہیں سکا ہے کہ کس پہلو میں تبدیلی  کی ضرورت ہے۔

ان کے اس قول سے کوئی بھی غیرجانکارشخص یہ نتیجہ  اخذ کرسکتا ہے کہ اصل میں زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کسان نہیں بلکہ اپوزیشن چلا رہے ہیں، جبکہ کسان ہیں کہ جو بھی ان کی تحریک  میں شامل ہونے جاتا ہے، اس کو اپنی سیاسی ٹوپی و جھنڈاپیچھے رکھ کر آنے کو کہتے ہیں۔ ایسا نہ کرنے پر اسے نہ اسٹیج دیتے ہیں نہ اہمیت۔

‘بھولے بھالے’کسانوں کو بھڑ کانے کے الزام تو وزیر اعظم ان مخالفین پر اس تحریک  کےشروع سے ہی چسپاں کرتے آ رہے ہیں۔ لیکن کیایہ بات سچائی کے ذرا بھی قریب ہے؟ کیا کسانوں کو بھروسہ میں لیے بغیر انہیں ناپسند زرعی قانون بنانے کےوزیراعظم  کی حکومت  کا گناہ اس امکان کے مد نظر گناہ نہیں رہ جاتا کہ کوئی اور سرکار آتی تو وہ بھی انہیں بناتی ہی بناتی؟

بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم بتاتے کہ وہ آتی کیسے، جب وہ  اور ان کی پارٹی کسانوں کے حق میں پالیسی سے متعلق تبدیلیوں کے لیے کچھ بھی اٹھا نہ رکھ کر 2022 تک ان کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ کر رہے تھے اور کسانوں نے ان کا اعتبار کرکے ووٹوں سے ان کی جھولی بھرنا مان لیا تھا؟

اب اقتدار میں ہیں تو یہ بتانا تو وزیر اعظم کی ہی ذمہ داری  ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق کسان کے حق میں پالیسی سے متعلق تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے کے بجائے انہیں کسان مخالف راستوں پر کیوں بڑھے جا رہے ہیں، جن پر اپوزیشن کی سرکار بڑھتی؟

کیاعوام نے انہیں اسی لیے چنا ہے کہ وہ  اپوزیشن کی پچھلی سرکاروں کی کارستانیوں کی، جن کی وہ پہلے پرزور مخالفت  کرتے رہے ہیں،مثال دےکر اور اس کی سرکار بننے پر اس کے بھی وہی سب کرنے کی بات کرکے انہیں پرانےحالات زارکے حوالے ہی کیے رکھیں؟ یعنی سرکار بدل کر بھی ہار جانے کی پرانی روایت میں نئی کڑی جوڑ نے میں ذرا بھی عذر نہ کریں؟

وزیر اعظم کہیں کچھ بھی، ان کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ زرعی قوانین سے متاثرہ  کسان یہ نئی کڑی جوڑ نے کو قطعی تیار نہیں ہیں۔نظام کی  شاطرانہ چالوں کوجھیلتے جھیلتے وہ اتنے بھولے بھالے بھی نہیں رہ گئے ہیں کہ وزیر اعظم یا ان کے مخالف انہیں بھڑکا، بہکا یا پھسلا سکیں۔

وہ  ایسا کر سکتے تو اب تک جانیں کب کسانوں کی تحریک سیاسی،افراتفری یا پرتشدد ہوکر یا قرار دی جاکر پٹری سے اتار دی جاتی اور اس بہانے سرکار انہیں نمٹا چکی ہوتی۔ لیکن کسان ان میں پھوٹ ڈالنے کی متعدد سرکاری کوششوں کے باوجود نہ صرف اپنی تحریک کےمزاج کو لےکر پوری طرح محتاط ہیں بلکہ لمبی لڑائی کے لیے بھی تیار ہیں۔ سوال ہے کہ کیا کسی بھی پھسلاوے یا بہکاوے کی عمر اس تحریک جتنی لمبی ہو سکتی ہے؟

وزیر اعظم بھلے اب بھی یہی کہتے آ رہے ہوں کہ کوئی ایک شخص بھی یہ بتا نہیں سکا ہے کہ زرعی قوانین کے کس پہلو میں تبدیلی کی ضرورت ہے، کسان رہنما صاف کر چکے ہیں کہ یہ تینوں قانون پورے کے پورے ان کی زندگی اور موت  کا سوال ہیں۔

دراصل اس تحریک کی قیادت بھی کسانوں کی روایتی تحریک کی قیادت سے مختلف ہے۔وہ سرکار کے سامنےعرضی گزار کی پوزیشن میں نہیں کھڑا ہوتا اور سہولیات و رعایتوں کے بجائے اپنےحقوق  کی مانگ کرتا ہے۔

سرکار کےوزیروں سے بات چیت کرنے وگیان بھون جاتا ہے تو بھی اس فخرکے ساتھ کہ وہ ملک کا ان داتا ہے، سرکاری دعوتوں یاحرص وطمع کا محتاج نہیں۔ اس لیے وہ وزیروں و نوکرشاہوں کے ساتھ مال مفت اڑانے سے منع کر دیتا ہے۔ ساتھ ہی ان کے نوکرشاہوں کی الجھانے والی سرکاری زبان یااصطلاح  کے جھانسے میں بھی نہیں آتا۔

اور تو اور اس کی حاضرجوابی کا تو جیسے جواب ہی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ دھکارنے لگتا ہے کہ کسانوں نے راجدھانی کی سرحدوں پر ہائی وے جام کر پورے دہلی شہر کا گلا گھونٹ دیا ہےتو بھی وہ مضطرب نہیں ہوتا۔ بتاتا ہے کہ یورآنر، ہائی وے ہم نے نہیں جام کیے، پولیس نے ہمیں دہلی آنے سے روکنے کے لیے قلعہ بندی  کرکے خود جام کیے ہیں اور تہمت ہم پر ہے۔

اس سوال کے سامنے کھڑے کرنے پر بھی وہ بےحدمتوازن جواب دیتا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے ذریعے متنازعہ زرعی قوانین کے عمل پر روک لگا دی گئی ہے تو اس کی تحریک کس کے خلاف ہے ‘ہم نے تو ان قوانین پر روک کی نہیں بلکہ ان کے آئینی جواز کے تجزیے کی گزارش کی تھی… ہم تو چاہتے ہی نہیں کہ جب ہم سرکار سے ان کی مکمل  واپسی کی مانگ کر رہے ہیں تو عدلیہ  کو بیچ میں لایا جائے… اسی لیے ہم عدلیہ  کے ذریعےبنائی گئی کمیٹی کے سامنے بھی نہیں گئے تھے۔

ہم مذکورہ قوانین پر روک لگائے جانے سے پہلے سے ان کی مخالفت کر رہے ہیں اور عدلیہ  کی جس بنچ نے یہ روک لگائی، وہ بھی ہماری مخالفت کے حق کے آڑے نہیں آئی تھی۔ اس نے ہمارا ایسا کرنے کا حق مانا تھا… اب عدلیہ اس حق کا پھر سے معائنہ کرنا چاہتی ہے تو کر لے…ہم سرکار کے ذریعےان قوانین کی واپسی کی مانگ مان لینے کے فوراً بعد اپنے ڈیرے تمبو اکھاڑ دیں گے۔ ہم کوئی نٹھلے نہیں ہیں اور ہمیں ناحق دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے رہنے کا شوق نہیں ہے۔’

ظاہر ہے کہ اس تحریک کے سلسلے میں سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی سرکار کے پاس کسانوں اور ان کےرہنماؤں کے نظریے،باڈی لینگویج اور برتاؤ کی ان تبدیلیوں کو پہچاننے کا وژن ہی نہیں ہے۔ اس وژن کی عدم موجودگی کا ہی نقصان ہے کہ ان کی  یہ تحریک اس کے گلے میں ایسی جا پھنسی ہے کہ نہ اگلتے بن رہا ہے، نہ نگلتے ۔اور وہ جتنااس کے دلدل سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے، اتنی ہی پھنستی جا رہی ہے۔

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی  ہیں۔)