خبریں

دہلی فسادات کی جانچ کو لے کر کئی بار پولیس پر سوال اٹھانے والے ایڈیشنل سیشن جج کا تبادلہ

ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو دہلی کےکڑکڑڈوما ضلع عدالت میں دنگوں سے متعلق کئی معاملوں کی شنوائی کر رہے تھے۔ ان کاتبادلہ نئی دہلی ضلع کےراؤز ایونیو عدالت میں خصوصی جج (پی سی قانون) (سی بی آئی)کے طور پر کیا گیا ہے۔جسٹس یادو نے دہلی دنگوں کو لےکر پولیس کی جانچ کو لےکر سوال اٹھاتے ہوئے کئی بار اس کی سرزنش کر چکے ہیں۔ انہوں نے اکثر معاملوں میں جانچ کے معیار کو گھٹیا بتایا تھا۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: فروری2020میں دہلی میں ہوئے دنگوں کے کچھ معاملوں میں دہلی پولیس کی‘غیرحساس اور مضحکہ خیز’جانچ کی تنقید کرنے والی نچلی عدالت کے ایک جج کا قومی  راجدھانی کی ایک دوسری عدالت میں بدھ کو تبادلہ کر دیا گیا ہے۔

جج نے دہلی پولیس کی تنقید کے دوران یہ تبصرہ بھی کیاتھا کہ صحیح جانچ نہیں کرنے سے‘جمہوریت کے محافظ’ کو تکلیف پہنچے گی۔

ایڈیشنل سیشن جج(اےایس جے)ونودیادویہاں کڑکڑڈوماضلع عدالت میں دنگوں سےمتعلق کئی معاملوں کی شنوائی کر رہے تھے۔ان کا تبادلہ نئی دہلی ضلع کے راؤز ایونیو عدالت میں خصوصی جج (پی سی قانون) (سی بی آئی)کے طورپر کیا گیا ہے۔ وہ جج ویریندر بھٹ کی جگہ لیں گے، جو اب کڑکڑڈوما عدالت میں اےیس جے کاعہدہ سنبھالیں گے۔

تبادلہ کیے گئےججوں کے ناموں کی جانکاری دیتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ  نے ایک عوامی  نوٹس میں کہا، ‘معزز چیف جسٹس اور اس عدالت کے معزز ججوں نے دہلی ہائی جوڈیشیل سروس میں فوری اثر سے درج ذیل پوسٹنگ /ٹرانسفر کیے ہیں۔’

رجسٹرارمنوج جین کے دستخط کردہ عوامی  نوٹس میں کہا گیا ہے کہ جن جوڈیشیل افسران کا تبادلہ کیا جا رہا ہے، انہیں چارج  سونپنے سے پہلے ان معاملوں کو نوٹیفائی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، جن میں انہوں نے اپنےفیصلےیا آرڈرمحفوظ رکھے ہیں۔

معلوم ہو کہ پچھلی کئی شنوائیوں میں جسٹس ونود یادو نے دہلی دنگوں کو لےکر پولیس کی جانچ اور کام کرنے کے طریقے  کو لےکر سوال اٹھاتے ہوئے اس کی تنقید کرتے رہے ہیں۔

اپنےتبادلہ سے ایک دن پہلے دہلی پولیس کی تنقید کرتے ہوئے جسٹس ونودیادو نے کہا تھا کہ ‘پولیس کے گواہ حلف  لےکرجھوٹ بول رہے ہیں’ اور متضادبیان دے رہے ہیں۔

انہوں نے یہ تبصرہ  شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے دنگوں کے معاملے کی شنوائی کے دوران کی، جب ایک پولیس اہلکارنے تین مبینہ دنگائیوں کی پہچان کی،لیکن ایک دوسرے افسرنے کہا کہ جانچ کے دوران ان کی پہچان نہیں کی جا سکی۔

یادو نے کہا تھا،‘یہ بہت ہی افسوس ناک صورت حال ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نےپولیس کمشنر (نارتھ ایسٹ)سے رپورٹ مانگی تھی۔

جج یادو نے دنگوں سےمتعلق  کچھ معاملوں میں دہلی پولیس کی جانچ سے اختلاف کیا تھااور‘غیرحساس اور مضحکہ خیز’جانچ کےلیے کئی بار اس کی سرزنش کی تھی اور جرمانہ بھی لگایا تھا، جسے بعد میں ہائی کورٹ  میں چیلنج دیا گیا تھا۔

انہوں نے پچھلے کچھ مہینوں میں اس معاملے میں جانچ پر نظر رکھنے اور قصوروار پولیس افسروں کےخلاف کارروائی کرنے کے لیے دہلی پولیس کمشنر راکیش استھانا کےدخل اندازی  کی مانگ کی ہے۔

معلوم ہو کہ ونود یادو نے ستمبر میں دہلی دنگا سےمتعلق معاملوں میں جانچ کو لےکر کئی بار پولیس کی تنقید کی تھی۔

گزشتہ 28 ستمبر کو عدالت نے دنگا معاملے میں ایف آئی آر درج کیے جانے کے مہینوں بعد بھی جانچ میں کوئی ترقی  نہیں دکھنے پر پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے  کہا تھا کہ ‘یہ شرمناک صورتحال  ہے۔’

اس سے پہلے 22 ستمبر کو عدالت نے فروری 2020 میں ہوئے دنگوں کے دوران دکانوں میں مبینہ طورپر لوٹ پاٹ کرنے کے دس ملزمین کے خلاف آگ زنی کے الزام کو ہٹاتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس ایک خامی کو چھپانے اور دو الگ الگ تاریخوں کے واقعات کو ایک ساتھ جوڑ نے کی کوشش کر رہی ہے۔

گزشتہ9 ستمبر کو دنگوں سے جڑے ایک معاملے میں ایک ملزم کو بری کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ فرقہ وارانہ تشدد کے معاملوں میں بےحد حساس ہوکر غورو فکر کیا جانا چاہیے، لیکن عملی حکمت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

ایڈیشنل سیشن جج ونودیادو نے 22سالہ جاوید کو آگ یادھماکہ خیز مواد سے نقصان پہنچانے کے الزام  سے بری کر دیا اور کہا تھا کہ شکایت گزاروں  کے بیان سے یہ واضح  نہیں ہوتا کہ متعلقہ جرم ہوا تھا۔

اسی طرح دو ستمبر کو دنگوں کے ایک ملزم گلفام کے خلاف الزام طے کرنے کی شنوائی کے دوران ایک اور ایف آئی آر سے بیان لینے پر پولیس کی سرزنش کی تھی۔

گزشتہ دو ستمبر کو ہی ایک دوسرے معاملے میں جج ونود یادو نے کہا تھا کہ جب تاریخ تقسیم کے بعد سےقومی  راجدھانی میں سب سے بدترین فرقہ وارانہ  دنگوں کو دیکھےگی تو صحیح جانچ کرنے میں پولیس کی ناکامی جمہوریت کے محافظ کو تکلیف دےگی۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ معاملے کی صحیح جانچ کرنے میں پولیس کی ناکامی ٹیکس دہندگان کے پیسے اور وقت کی‘بھاری’ اور ‘مجرمانہ’بربادی ہے۔

گزشتہ 28 اگست کو عدالت نے ایک اور معاملے کی شنوائی کرتے ہوئےانہوں نے کہا تھا کہ دہلی دنگوں کے اکثر معاملوں میں پولیس کی جانچ کا معیار بہت گھٹیا ہے۔

 ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے کہا تھا کہ پولیس آدھے ادھورے چارج شیٹ دائر کرنے کے بعد جانچ کو منطقی انجام  تک لے جانے کی بہ مشکل ہی پرواہ کرتی ہے، جس وجہ سے کئی الزامات میں نامزد ملزم سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ زیادہ تر معاملوں میں جانچ افسر عدالت میں پیش نہیں ہو رہے ہیں۔

جولائی میں دہلی دنگا معاملے میں جانچ کو‘غیرحساس اور مضحکہ خیز’ قرار دیتے ہوئے یہاں کی ایک عدالت نے دہلی پولیس پر 25 ہزار روپے کا جرمانہ لگایا تھا۔

ونودیادو نے ہدایت دی تھی کہ جرما نے کی رقم بھجن پورہ تھانے کےانچارج اور ان کےمعائنہ کرنے والے افسران سے وصولی کی جائے، کیونکہ وہ اپنی ئینی ذمہ داری نبھانے میں بری طرح سے ناکام رہے۔

جولائی میں دنگے کے دوران مدینہ مسجد میں ہوئی آگ زنی معاملے میں پولیس کے رویے پر سخت سرزنش  کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘وہ مدینہ مسجد آگ زنی معاملے میں پولیس کے رویے(بے حسی )سے ناراض  ہیں۔’

شمال-مشرقی  دہلی میں ہوئے دنگے کے دوران شیو وہار کی مدینہ مسجد میں آگ لگا دی گئی تھی۔ اس کے لےکر کورٹ نے آرڈر دیا تھا کہ پولیس اس کیس میں ایک الگ ایف آئی آر دائر کرے۔ بعد میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کو لےکر پہلے ہی ایف آئی آر درج کیا گیا تھا، لیکن اس کی جانکاری عدالت کو انجانے میں نہیں دے سکی تھی۔

گزشتہ اپریل میں جواہرلال نہرو یونیورسٹی(جے این یو)کے سابق طالبعلم عمر خالد اور کارکن خالد سیفی کو ہتھکڑی لگاکر نچلی عدالتوں میں پیش کرنے کی اجازت دینے کی پولیس کی عرضی  کو خارج کر دیا تھا۔

ونودیادو نے کہا تھا کہ یہ ملزم گینگسٹر نہیں ہیں اور نہ ہی پیشی کے دوران ان سے کسی طرح کا خطرہ ہے، اس لیےانہیں ہتھکڑی لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ساتھ ہی اس معاملے سے جڑے ڈی ایس پی سے یہ درخواست دائر کیے جانے پر وضاحت بھی طلب کی تھی۔

اپریل میں ہی کھجوری خاص علاقے میں دنگوں سےجڑے ایک معاملے میں میں جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد کو ضمانت دے دی تھی۔ کہا تھا کہ واقعہ  کے دن وہ  جائےواردات پر موجود نہیں تھے۔

گزشتہ15جنوری کو شمال-مشرقی حصے میں ہوئے دنگوں سے جڑے دو معاملوں میں گواہوں کی ساکھ پر شکوک کا اظہارکرتے ہوئے تین لوگوں کو ضمانت دی تھی۔ کہا تھا کہ ملزمین کا نام نہ ایف آئی آر میں ہے، نہ ہی ان کے خلاف خصوصی الزامات ہیں۔

اس سے پہلے دنگوں میں آگ زنی سےمتعلق معاملے میں دو ملزمین کو ضمانت دیتے ہوئے بھی ایسی ہی بات کہی تھی۔ عدالت نے تب بھی پولیس گواہوں کی ساکھ پر شکوک کا اظہار کیا تھا۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)