خبریں

لوگ آزادی سے سانس لے سکیں، اس لیے یو اے پی اے اور سیڈیشن قانون کو رد کرنا چاہیے: جسٹس نریمن

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس روہنٹن نریمن نے کہا کہ شاید یہی وجہ ہے کہ ان جابرانہ قوانین کی وجہ سےبولنے کی آزادی پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔اگرآپ ان قوانین کے تحت صحافیوں سمیت تمام لوگوں کو گرفتار کر رہے ہیں، تو لوگ اپنے دل  کی بات نہیں کہہ پائیں گے۔

جسٹس روہنٹن نریمن۔ (السٹریشن: دی وائر)

جسٹس روہنٹن نریمن۔ (السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس روہنٹن نریمن نے گزشتہ اتوارکو کہا کہ سپریم کورٹ کو سیڈیشن قانون اور یو اے پی اے کو رد کرنا چاہیے تاکہ ملک کے لوگ‘کھلے میں سانس’لے سکیں۔

لائیولاءکے مطابق جسٹس روہنٹن نریمن نے کہا،‘میں سپریم کورٹ سےدرخواست کرتا ہوں کہ وہ معاملے کو سرکار کے پاس واپس نہ بھیجیں۔ سرکاریں آئیں گی اور جائیں گی اور قوانین میں ترمیم یااس یا کو رد کرنا سرکار کا کام نہیں ہے۔سپریم کورٹ کے سامنےیہ معاملہ آیا ہے اور عدالت اپنے اختیارات کا استعمال کرکےدفعہ124اے(سیڈیشن)اور یو اے پی اےکی خلاف ورزی کرنے والی دفعات کو رد کرے، تاکہ ملک کے لوگ زیادہ آزادی  سے سانس لے سکیں۔’

سابق جج نے کہا کہ ایسا کرنے کے بعد شاید تب ہندوستان  ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں180میں سے 142ویں رینک سے اوپر اٹھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیڈیشن قانون ایک نوآبادیاتی قانون ہےاوراسے ہندوستانیوں،بالخصوص مجاہدین آزادی  پر ظلم کرنے کے لیے لایا گیا تھا۔سابق  جج نے کہا کہ اس کا آج بھی غلط استعمال ہو رہا ہے۔

جسٹس نریمن آنجہانی وشوناتھ پسایت کی109ویں سالگرہ کےموقع پر منعقد ایک پروگرام میں بول رہے تھے۔

انہوں نےاپنی تقریرمیں اس سال کے نوبل امن ایوارڈ کا بھی ذکر کیا،جسے دوصحافیوں ماریا ریسا (فلپائن)اوردمترے مراٹوو (روس)کو بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کی میدان  میں مسلسل کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے باوجود ہندوستان ورلڈپریس فریڈم کی ریکنگ میں پیچھےہے۔ جسٹس نریمن نے کہا کہ ایسا ان ‘پرانے’اور ‘جابرانہ’ قوانین کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔

جسٹس نریمن نے کہا کہ اصل آئی پی سی میں سیڈیشن کا اہتمام نہیں تھا، لیکن یہ ڈرافٹ میں ضرور تھا۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق انہوں نے کہا، ‘سیڈیشن کا اہتمام ڈرافٹ میں تھا، نہ کہ قانون میں۔ بعد میں اس کا پتہ لگایا گیا اور اسے پھر سے ڈرافٹ کیا گیا۔اسے لےکر کہا گیا تھا کہ یہ دفعہ غلطی سے چھوٹ گئی تھی۔ اس کے لفظ بھی غیرواضح تھے۔ 124اے کے تحت سزا بہت بڑی تھی، کیونکہ اس میں عمر قید اور تین سال کی قید کا اہتمام کیا گیا تھا۔’

انہوں نے کہا کہ یو اے پی اے کی تاریخ  کا پتہ چین اور پاکستان کے ساتھ ہندوستان کی جنگوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

سابق جج نے کہا،‘ہماری  چین اور پاکستان کے ساتھ جنگ ہوئی  تھی۔اس کے بعد ہم نے یو اے پی اےایکٹ پیش کیا۔ یو اے پی اے ایک سخت ایکٹ ہے، کیونکہ اس میں کوئی پیشگی  ضمانت نہیں ہے اور اس میں کم ازکم پانچ سال کی قید ہے۔ یہ ایکٹ ابھی جانچ کے دائرے میں نہیں ہے۔ اسے بھی سیڈیشن قانون کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔’

انہوں نے کہا،‘ان کی وجہ سے بولنے کی آزادی پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔اگر آپ ان قوانین کے تحت صحافیوں  سمیت تمام لوگوں کو گرفتار کر رہے ہیں، تو لوگ اپنےدل  کی بات نہیں کہہ پائیں گے۔’