فکر و نظر

نوٹ بندی کے پانچ سال بعد مودی حکومت کے پاس اس کی کامیابی کو بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے

نوٹ بندی کے غیرمتوقع  فیصلے کے ذریعے بات چاہے کالے دھن پر روک لگانے کی ہو، معاشی نظام سے سے نقد کو کم کرنے یا ٹیکس جی ڈی پی تناسب بڑھانے کی،اعدادوشمار مودی حکومت کے حق میں نہیں جاتے۔

(فوٹو بہ شکریہ: rupixen/Unsplash)

(فوٹو بہ شکریہ: rupixen/Unsplash)

ہندوستانی معیشت ابھی تک نوٹ بندی کے سائے سے باہر نہیں نکل پائی ہے۔ریزرو بینک آف انڈیانے جانکاری دی ہے کہ شہریوں کے ہاتھوں میں نقد تاریخی  سطح پر ہے۔ 4 نومبر، 2016 کو یہ 17.5 ٹرلین روپے تھا۔ 8 اکتوبر، 2021 کو یہ 57 فیصدی کے زبردست اچھال کے ساتھ 28 ٹرلین روپے ہو چکا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان کا نقد جی ڈی پی تناسب اب بڑھ کر 14.5 فیصدی ہو گیا ہے، جو آزادی کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ یہ ہندوستان کو بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ نقد جی ڈی پی تناسب والے ممالک میں شامل کر دیتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ 8 نومبر، 2016 کو، جب سرکار نے چلن کی 86 فیصدی کرنسی کو ڈی مونیٹائزکر دیا تھا، نوٹ بندی کا ایک اہم مقصد معیشت میں نقد کے تناسب کو بڑھانا اور ڈیجیٹل ادائیگی کو بڑھاوا دینا تھا۔ نوٹ بندی کے ٹھیک بعد جی ڈی پی میں نقد کا تناسب اصل میں 12 فیصدی سے گھٹ کر 7.5 فیصدی پر آ گیا تھا، لیکن یہ اس سطح پر بنا نہیں رہ پایا۔

بعد کے سالوں میں معیشت میں نقد کا تناسب بتدریج بڑھتا گیا اور مہاماری کے بعد نقد کی مانگ زیادہ ہونے پر اس میں کافی تیزی آئی۔ یہ بھی سچ ہے کہ نقد جی ڈی پی تناسب میں موجودہ اضافہ  مہاماری کے بعد جی ڈی پی میں آئی سکڑن کو بھی دکھاتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جی ڈی پی میں بہتری ہونے کے بعد بھی عوام کے ہاتھ میں موجود کرنسی میں کوئی خاص کمی نہیں آئےگی کیونکہ بڑی غیر رسمی معیشت میں نقد کے کلچر کا دبدبہ بنا رہےگا۔

مودی حکومت کی پالیسی کی سطح پرایک بڑی غلطی اس کی یہ سوچ تھی کہ ڈیجیٹل ادائیگی میں اضافہ  کے ساتھ نقد میں کمی آئےگی۔ جبکہ ہوا یہ ہے کہ نقد معیشت  اور ڈیجیٹل ادائیگی دونوں میں ہی ایک ساتھ اضافہ  ہوا ہے۔

آر بی آئی کے ڈیٹا کے مطابق یوپی آئی، کریڈٹ کارڈوں اور ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی میں زبردست اضافہ  ہوا ہے۔ 2018 میں آر بی آئی کا ڈیجیٹل پیمنٹ انڈیکس 100 پر تھا، اب بڑھ کر 270 پر پہنچ گیا ہے۔ یہ لگ بھگ 200 فیصدی کا متاثر کن اضافہ ہے۔ یعنی نقد اور ڈیجیٹل ادائیگی میں ہی اضافہ  ہو رہا ہے اور یہ ان پالیسی سازوں کے لیے ایک سبق ہے، جنہوں نے ہر نقد کو مشکوک  مان لیا تھا اور جنہیں یہ لگا تھا کہ ڈیجیٹل ادائیگی سے لازمی طور پر نقد معیشت کو نقصان پہنچےگا۔

ہندوستان  کی بڑی غیر رسمی معیشت نے ہمیشہ اپنا کام نقد سے چلایا ہے۔ ہندوستان  کے 90 فیصدی سے زیادہ گھر 15000روپے سے کم کی آمدنی پر گزر بسر کرتے ہیں۔ یہ چھوٹی کمائی بنیادی طور پر نقد میں ہی ہوتی ہے اور نقد میں ہی اسے خرچ کیا جاتا ہے۔ معیشت  کے اس حصہ کو زبردستی ڈیجیٹل کی طرف  دھکیلنے کی کوشش کا کوئی تک نہیں بنتا تھا۔

یہ ہمیشہ سے پتہ تھا کہ کالا دھن کا اہم حصہ ریئل اسٹیٹ اور سونے کے طور پر ہے۔ اس مسئلے کا متاثر کن  طریقے سےحل کرنے کی کوئی کوشش مودی حکومت کی طرف سےکبھی نہیں کی گئی اور اس نے صرف نقد پر وار کرنے کا فیصلہ لیا۔

آج بھی ملک کے زیادہ تر حصوں میں جائیداد کی خریدوفروخت کا بڑا حصہ کالے دھن میں ہو رہا ہے۔ جی ایس ٹی سسٹم سے ویلیو چین کی تمام  خریدوفروخت کا حساب رکھنے کی امید کی گئی تھی، لیکن ثبوتوں کی مانیں تو کئی مصنوعات میں ویلیو ایڈیشن کا پورا سلسلہ جی ایس ٹی کے ڈھانچے سے باہر ہے۔

ایسے میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ 2017 یعنی جی ایس ٹی کے نفاذسے اب تک کے لگ بھگ پانچ سالوں میں جی ایس ٹی وصولی 95000 کروڑ سے 110000 کروڑ روپے تک ہی محدود رہ گئی ہے۔

عام طور پر جی ایس ٹی کے اضافے کو جی ڈی پی اضافہ  کے ساتھ قدم ملاکر چلنا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ جی ایس ٹی ریونیو کو ہر سال کم سے کم 10 سے 11 فیصدی کی شرح سے بڑھنا چاہیے تھا اور پانچ سال میں اس میں کل 60 فیصدی سے زیادہ کا اضافہ  ہونا چاہیے تھا۔ لیکن جی ایس ٹی وصولی میں اگلے سال تک، یعنی اس نئے ٹیکس سسٹم  کےاثر میں آنے کے پانچ سال بعد، ایسے اضافہ کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے۔

لیکن جی ایس ٹی وصولی  پچھلے پانچ سالوں میں مستحکم ہو گئی ہے اور یہ اندازوں کے مطابق نہیں رہی ہے۔

جی ایس ٹی بھی معیشت کے کئی ویلیو چینوں کے ڈیجیٹلائزیشن کی ایک شکل ہے۔ یہ بات کہ اقتصادی سرگرمیوں  کا ایک بڑا حصہ ابھی بھی اس کے باہر ہے، اپنے آپ میں جانچ کاموضوع ہے۔

نوٹ بندی کے بعد سرکار نے ٹیکس جی ڈی پی تناسب میں تیزاضافےکا دعویٰ کیا تھا، کیونکہ اس سے نئے ٹیکس دہندگان کی پہچان ہو سکےگی۔ لیکن اصل میں ٹیکس جی ڈی پی تناسب مہاماری کی وجہ سے معیشت  کی وجہ سے ڈانوا ڈول ہونے سے پہلے ہی تھوڑا گھٹ گیا تھا۔

کیا کسی کو یاد ہے کہ ان ہزاروں معاملوں کا کیا ہوا جن میں نوٹ بندی کے بعد لاکھوں کروڑوں کا کل نقد جمع کرنے والوں کو نوٹس بھیجے گئے تھے۔ اگر یہ سسٹم کے ذریعے پکڑے گئے نئے ٹیکس دہندہ تھے تو آنےوالے سالوں میں ٹیکس جی ڈی پی تناسب میں قابل ذکر اضافہ کیوں نہیں ہوا۔ ایسے کئی سوال ہیں، جو آج تک جواب کے انتظار میں  ہیں۔

مجموعی طور پریہ واضح ہے کہ نوٹ بندی نے معیشت کو بھاری اور لمبے وقت تک رہنے والا نقصان پہنچایا ہے، جس کو دستاویزکی صورت میں محفوظ ہونا ابھی باقی ہے، صرف اس لیے کیونکہ مودی سرکار نے اس پورے معاملے کونظریاتی چشمے سے دیکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے پہلے سے طے کر لیے گئے نتائج کہ نوٹ بندی سے صرف معیشت کو فائدہ پہنچےگا، کو چیلنج دینے والے کسی بھی بات کو سامنے آنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔

یہاں یہ یاد کرنا مفید ہوگا کہ 2017 میں دنیا کی زیادہ تر بڑی معیشتوں کی جی ڈی پی میں اضافہ  ہوا تھا، لیکن ہندوستان ان کچھ ممالک میں شامل تھا جس کی معیشت میں اصل میں گراوٹ درج کی گئی۔ تو چاہے بات کالے دھن پر روک  لگانے کی ہو، معاشی نظام سے نقد کو کم کرنے کی ہو یا ٹیکس جی ڈی پی تناسب بڑھانے کی ہو، اعدادوشمار مودی حکومت کےحق میں نہیں جاتے ہیں۔

(اس مضمون  کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)