خبریں

کشمیر: حیدر پورہ انکاؤنٹر میں مارے گئے شہریوں کے اہل خانہ نے کہا، ان کا استعمال ہیومن شیلڈ کے طور پر ہوا

گزشتہ15نومبر کو سری نگر کے حیدر پورہ علاقے میں ایک شاپنگ کمپلیکس میں دہشت گردوں  سے انکاؤنٹر کے دوران دو مشتبہ دہشت گردوں کی موت کے ساتھ ہی دو شہریوں کی بھی موت ہوئی تھی ۔ ان میں سے ایک شاپنگ کمپلیکس کے مالک محمد الطاف بھٹ اور دوسرے ڈینٹسٹ ڈاکٹر مدثر گل شامل ہیں۔ پولیس نے دونوں کےدہشت گردوں کا ساتھی ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ ان کے اہل خانہ  کاالزام ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ان کا استعمال ‘ہیومن شیلڈ’کے طور پر کیا۔

انکاؤنٹر میں مارے گئے محمد الطاف بھٹ کے سوگواراہل خانہ۔ (تمام فوٹو: فیضان میر)

انکاؤنٹر میں مارے گئے محمد الطاف بھٹ کے سوگواراہل خانہ۔ (تمام فوٹو: فیضان میر)

جموں وکشمیر کے حیدر پورہ میں انکاؤنٹر کے دوران دو شہریوں کی موت کو لےکر بڑا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ مقامی پارٹیوں اور حریت دونوں نے اس معاملے میں عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

جموں وکشمیر پولیس نے اس کو لےکر ایک ایس آئی ٹی کا قیام کیا ہے، جو مدثر گل نام کے  ایک ڈاکٹراور محمدالطاف بھٹ نام کے کاروباری کی موت کی جانچ کرےگی۔گزشتہ سوموار (15 نومبر)کی رات کو ہوئے انکاؤنٹر کے دوران ان دونوں افراد کے علاوہ دو مشتبہ دہشت گردوں کی موت ہوئی تھی۔

انسپکٹر جنرل آف پولیس(کشمیر)وجے کمار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایس آئی ٹی کی قیادت  ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس کریں گے اور یہ ان واقعات کی جانچ کرےگی، جن کی وجہ سےانکاؤنٹر ہوا۔

ایک سینئر پولیس افسرنے کہا کہ گزشتہ 15 نومبر کی شام تقریباً6:30 بجے سری نگر کے حیدر پورہ علاقے میں گولی باری ہوئی تھی۔ اس دوران پولیس، فوج اورنیم فوجی دستوں کی ایک مشترکہ ٹیم نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر ایک شاپنگ کمپلیکس کا محاصرہ کیاتھا۔

آئی جی وجے کمار نے گزشتہ منگل کو بتایا تھا کہ اس کارروائی میں دومشتبہ دہشت گردوں کی موت ہوئی تھی، جس میں سے ایک پاکستانی شہری حیدر اور دوسرا جموں کے بانہال علاقے کا رہنے والاتھا۔

حالانکہ اس دوران دو شہریوں کی بھی موت ہوئی، جس میں سے ایک شاپنگ کمپلیکس کے مالک محمد الطاف بھٹ اور دوسرے ڈینٹسٹ ڈاکٹر مدثر گل شامل ہیں۔گل زمین دلانے والے بروکر کےطور پربھی کام کرتے تھے اور ان کا آفس بھٹ کےکمپلیکس میں ہی تھا۔

آئی جی کمار نے صحافیوں سے کہا کہ جوابی فائرنگ میں الطاف کی موت ہوئی، جبکہ ڈاکٹر مدثردہشت گردوں کےساتھی کے طور پر کام کر رہے تھے۔ حالانکہ اس الزام کو اہل خانہ نے خارج کیا اور گزشتہ منگل کی صبح سری نگر کے پریس انکلیو کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے سیکیورٹی فروسزپرقتل کا الزام لگایا۔

ڈاکٹر مدثر کی رشتہ دار یسریٰ بلال نے کہا، ‘وہ ایک ڈاکٹر تھے، دہشت گرد نہیں۔ وہ کل بیٹی کے لیے چپس اور بسکٹ لےکر گھر لوٹے تھے۔ انہوں نے کون سا جرم کیا تھا؟ ان کو اس طرح کیوں قتل کیا گیا؟’

ڈاکٹر مدثر کے پسماندگان میں ان کے والدین، بیوی اور 10 سال کی بیٹی ہیں۔

حالانکہ آئی جی کمار کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر مدثر نے غیرملکی شہری حیدر کی مدد کی اور اسے کرایہ پر رہنے کی جگہ دی تھی، جو اسے ‘ہائی ٹیک ٹھکانے’کے طورپر استعمال کر رہا تھا۔ آئی جی نے ٹھکانے سے کچھ ہتھیار، موبائل فون اور کئی کمپیوٹر برآمد کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔

آئی جی نے کہا، ‘وہ (مدثر)دہشت گردوں کو پناہ دے رہے تھے اور انہیں جنوبی  اورشمالی کشمیر کے علاقوں سے (سری نگر تک)جانے میں ان کی مدد کرتے تھے۔ انہوں نے حال ہی میں سری نگر میں ہوئے ایک حملے کی جگہ سے حیدر کو بھاگنے میں بھی مدد کی، جس میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیاتھا۔’

سری نگر واقع اپنے گھر میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے شاپنگ کمپلیکس کے مالک محمد الطاف کی نابالغ بیٹی نے کہا کہ ان کی فیملی کو اس افسوسناک خبر کے بارے میں رات تقریباً10بجے پتہ چلا، جب ان کے چچا عبدالمجید بھٹ کو ایک فون آیا۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا،‘جب ہم شاپنگ کمپلیکس پہنچے تو میں نے وہاں کے پولیس اہلکاروں سے پوچھا کہ انہیں کیسے پتہ چلا کہ میرے والد  ایک دہشت گرد تھے، تو وہ مجھ پر بےشرمی سے ہنسنے لگے۔’

سرچ آپریشن کے دوران الطاف کو ہیومن شیلڈیعنی انسانی ڈھال کےطور پر استعمال کرنے کا پولیس پر الزام لگاتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘میرا بھائی دوسری جماعت میں ہے۔ اس کا پاپا سے بہت لگاؤتھا۔ ہم اسے کیا کہیں گے؟ ماں اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو پا رہی ہیں۔ میرے والد کا جرم کیا تھا؟’

الطاف کے بھائی ماجد نے دی وائر کو بتایا کہ گزشتہ سوموار شام کو جب انہوں نے (فوج)شاپنگ کمپلیکس کی تلاشی لی تو ان کے بھائی کو سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جانے کے لیے کہا گیاتھا۔

انہوں نے کہا، ‘وہ(سیکیورٹی فورسز)باہر آ گئے کیونکہ انہیں کیمپس کے اندر کوئی نہیں ملا۔ کچھ دیر بعد سیکیورٹی فورسز نے انہیں پھر سے ساتھ چلنے کو کہا۔ تبھی فائرنگ شروع ہو گئی۔’

ماجد نے کہا،‘ہم انصاف چاہتے ہیں۔اگر پولیس یہ ثابت کر دیتی ہے کہ ان کے دہشت گردوں سے تعلقات تھے، تو میں بھی پھانسی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔لیکن وہ بے قصور تھے۔ ان کے چھوٹے بچہ ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کون کرےگا؟’

الطاف کے تین بچے ہیں، جس میں سے دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ 30 سالوں سے ریئل اسٹیٹ کے بزنس میں تھے۔ان کا ماننا ہے کہ چونکہ ڈاکٹر مدثرمعاملے کے عینی شاہد تھے اور انہوں نے سب کچھ دیکھا تھا کہ اس وقت شاپنگ کمپلیکس کیا ہوا، اس لیے انہیں مارا گیا۔

اس متنازعہ گولی باری کے تقریباً24 گھنٹے پہلے جموں وکشمیر پولیس کی ایک ٹیم پر سری نگر کے نوا کدل علاقے میں مشتبہ دہشت گردوں کے ذریعے حملہ کیا گیا تھے، جس میں ایک کانسٹبل زخمی ہوئے تھے۔

الطاف اور ڈاکٹر مدثر کے گھر والے افسروں سے ان کے جسد خاکی کو لوٹانے کی مانگ کر رہے ہیں، تاکہ وہ  ان کی تجہیز وتکفین کر سکیں۔ اس گولی باری سے پورے کشمیر میں غم وغصہ  کا ماحول ہے۔

عدالتی جانچ کی مانگ

نیشنل کانفرنس، پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی)اور سی پی آئی(ایم)جیسی علاقائی پارٹیوں نے حیدر پورہ انکاؤنٹر کے دوران عام شہریوں کے مارے جانے کی غیرجانبدارانہ اور وقت سے جانچ کرائے جانے کی مانگ کی ہے۔پارٹیوں نے ان حالات کی‘آزادانہ جانچ’کی مانگ کی ہے، جن کی وجہ سے دو شہریوں کا قتل ہوا۔

ڈاکٹر مدثر گل کی بیوی(بیچ میں)۔

ڈاکٹر مدثر گل کی بیوی(بیچ میں)۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدراورسابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹوئٹ کیا،‘ماضی  میں فرضی انکاؤنٹرکےکئی واقعات پیش آئے ہیں اور حیدر پورہ انکاؤنٹر کے بارے میں اٹھائے گئے سوالوں کا تیزی سے اور قابل اعتماد طریقے سے جواب دینے کی ضرورت ہے۔’

انہوں نے کہا،‘حیدر پورہ میں حالیہ انکاؤنٹر کی غیر جانبدارانہ اور قابل اعتماد جانچ بہت ضروری ہے۔ انکاؤنٹر اور مارے گئے لوگوں کے بارے میں بہت سارے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔’

بدھ کو ایک ٹوئٹ میں عبداللہ نے کہا، ‘انہیں دہشت گردیا ان کے لیے کام کرنے والے کےطور پر بدنام کرنا کافی برا ہے،لیکن لاشوں کو لے جانا اور انہیں شمالی کشمیر میں جبراً دفن کرنا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ لاشوں کو اہل خانہ کو لوٹایا جانا چاہیے تاکہ انہیں دفن کیا جا سکے۔ یہ واحد انسانی کام ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘پولیس تسلیم کرتی ہے کہ وہ عمارت کے مالک الطاف اور کرایہ دار گل کو عمارت میں لے گئے اور دروازے کھٹکھٹانے کےلیے ان کا استعمال کیا۔ پھر ان لوگوں کو دہشت گرد کیسے کہا جا سکتا ہے۔ وہ شہری ہیں، جن کی موت ہوئی کیونکہ انہیں ایک خطرناک مقام پر کھڑا کر دیا گیا تھا۔’

نیشنل کانفرنس کے ایک بیان کے مطابق، پارٹی کے رہنما فاروق عبداللہ، محمد اکبر لون اور حسنین مسعودی نے بھی غیرجانبدارانہ اور طے شدہ وقت میں جانچ کی مانگ کی۔

وہیں پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے مہلوکین میں سے ایک الطاف بھٹ کی بیٹی کے ویڈیو کا جواب دیتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا، ‘بے قصورشہریوں کا انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا، انہیں گولی باری میں مارنا اور پھر انہیں آسانی سے اوجی ڈبلیو(اوور گراؤنڈ ورکر -دہشت گردوں کے لیے کام کرنے والا) بتا دیناحکومت ہند کی اصولی کتاب کا حصہ ہے۔’

انہوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ سچائی کو سامنے لانے کے لیے ایک قابل اعتماد جانچ کی جائے۔

جموں میں پارٹی دفتر میں نوجوانوں کے ایک گروپ کو خطاب کرتے ہوئے محبوبہ نے کہا، ‘مجھے حیدر پورہ میں ایک انکاؤنٹر کے بارے میں ایک خبر ملی۔دہشت گردوں  کا مارا جانا سمجھ آتا ہے، لیکن اہل خانہ  کا الزام ہے کہ مکان کے مالک کوانسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا اور انہیں ایک نوجوان ڈاکٹر کے ساتھ مار دیا گیا۔’

انہوں نے کہا، ‘مجھے نہیں پتہ کہ انہیں(مکان مالک اور ڈاکٹر)کس خانے میں رکھا جائےگا، لیکن دل دکھتا ہے۔ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ آپ نےدہشت گردوں سے لڑتے ہوئے شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ یہ غلط ہے۔’

اس کے ساتھ ہی حریت کےاعتدال پسند دھڑے کے سربراہ میر واعظ عمر فاروقی نے بھی اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کامطالبہ کیا ہے۔حریت کے ساتھ ساتھ پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی، سی پی آئی(ایم)اور پیپلس کانفرنس جیسی علاقائی پارٹیوں نے ان حالات کی‘آزادانہ جانچ’کی مانگ کی ہے، جن کی وجہ سے دو شہریوں کاقتل ہوا۔

فاروق نے حکام کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا، ‘یہ انکاؤنٹر ریاست کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بھارت میں عالمی برادری اور سول سوسائٹی کی خاموشی کو واضح کرتا ہے، جس نے کشمیر میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا ہے۔’

سی پی آئی(ایم)کے رہنماایم وائی تاریگامی نے کہا کہ شہریوں کے گھر والے دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کا غیرقانونی تنظیموں سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا،‘ایسا لگتا ہے کہ قانون کو بنائے رکھنے کی آڑ میں انتظامیہ قانون کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ عدالتی جانچ کا آرڈر دیا جانا چاہیے، تاکہ ان متاثرین کو جواب مل سکے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔)