خبریں

لکھیم پور کھیری تشدد کے متاثرین نے زرعی قانون کی منسوخی پر کہا-آدھی لڑائی جیتے، انصاف باقی

لکھیم پورکھیری میں ہوئےتشددکےدوران جان گنوانے والے کسانوں اور صحافی رمن کشیپ کے پسماندگان نے زرعی قانون رد ہو جانے کے بعد وزیر مملکت برائے داخلہ اجئےمشرا کو برخاست کرنے  کی مانگ کی ہے۔

لکھیم پور کھیری تشدد کے خلاف اکتوبر 2021 میں امرتسر میں ہوا ایک مظاہرہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

لکھیم پور کھیری تشدد کے خلاف اکتوبر 2021 میں امرتسر میں ہوا ایک مظاہرہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: بتایا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے جمعہ کو منسوخ کیے گئے تین زرعی قوانین کے خلاف سال بھر سے جاری احتجاج کے دوران لگ بھگ 700 کسانوں نے اپنی جان گنوائی ہے۔

مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ اتر پردیش اور پنجاب جیسے کئی صوبوں میں اسمبلی انتخاب ہونے سے پہلے سکھوں کےمقدس تہوار‘گروپرب’کے دن آیا ہے۔ اسی کی وجہ سے سرکار کی منشا کو لےکرشبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

بھارتیہ کسان یونین نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا ہےکہ یہ فیصلہ کسانوں کے لیے بڑی جیت ہے، پر اس لڑائی میں سات سو سے زیادہ کسانوں نے‘قربانی’دی ہے۔بیان میں کہا گیا کہ ‘ان اموات کے لیے وزیر اعظم کا گھمنڈ ذمہ دار ہے۔’

غورطلب ہے کہ کسانوں کی تحریک کے دوران ملک بھر میں مختلف جگہوں پر کسانوں نے مظاہرہ کیے تھے اور ان کے ساتھ افسوسناک واقعات بھی پیش آئے۔

گزشتہ3 اکتوبر کو کسانوں کے ایک مظاہرہ کے وقت لکھیم پور کھیری ضلع کےتکو نیا علاقے میں تشددکا واقعہ پیش آیاتھا، جس میں میں چار کسانوں سمیت آٹھ لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔الزام ہے کہ کسانوں کی موت وزیر مملکت برائے داخلہ اجئےمشرا کے بیٹے آشیش مشرا کی گاڑی سے کچل دیے جانے کی وجہ سے ہوئی تھی۔

ان آٹھ لوگوں میں سادھنا نیوز چینل کے 28سالہ صحافی رمن کشیپ بھی شامل تھے۔کشیپ اس واقعہ کو کور کرنے گئے تھے۔ اس دن دیر رات مقامی ضلع اسپتال میں ان کی لاش کی شناخت ہو سکی تھی۔

کشیپ کے والد رام دلارے، جو ایک کھیتی کے بیک گراؤنڈ سے آتے ہیں، نے اس وقت دی وائر کو بتایا تھا کہ ان کا بیٹا کسی کی حمایت کرنے کے لیے نہیں بلکہ کوریج کے لیے جائے وقوع پر گیا تھا۔

واقعہ کےایک مہینے سے زیادہ وقت کے بعد ان متنازعہ قوانین کو واپس لے لیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے اعلان کیا ہے کہ جانچ کی نگرانی سبکدوش جج راکیش جین کریں گے۔

جب دی وائر نے پھر سے رام دلارے سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ بھلے ہی تین قوانین کو واپس لے لیا گیا ہو، لیکن اس کا کوئی مطلب نہیں ہوگا اگر ان کے بیٹے کی موت کے لیے ذمہ دار لوگوں کو اس کی سزا نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا، ‘میرے بیٹے کی جان لینے والےتشدد کے لیےذمہ داروزیر  کو استعفیٰ دینے کے لیے مجبور کیا جانا چاہیے،اور انہیں سزا بھی ملنی چاہیے۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا، تب تک انصاف نہیں ہو سکتا۔ یہ سبھی کسانوں کی جیت ہو سکتی ہے،لیکن انہوں نے بہت بڑی قربانیاں بھی دی ہیں، کئی کسانوں نے اپنی جان بھی گنوائی ہے۔’

لکھیم پورتشدد میں مارے گئے کسانوں کو خراج تحسین پیش کرتے کسان۔ (فوٹو: عصمت آرا/دی وائر)

لکھیم پورتشدد میں مارے گئے کسانوں کو خراج تحسین پیش کرتے کسان۔ (فوٹو: عصمت آرا/دی وائر)

لکھیم پورکھیری تشدد میں جان گنوانے والوں میں ایک65سالہ کسان نچھتر سنگھ بھی تھے۔ ان کے بیٹے نے دی وائر سے کہا کہ یہ خوشی اور غم دونوں کا وقت ہے۔انہوں نے کہا،‘ایک طرف ہنسی ہے، ایک طرف رونا۔’

انہوں نے بھی اجئے مشرا کو برخاست کر سزا دینے کی بھی مانگ کی۔ انہوں نے کہا، ‘اس تحریک میں ہم نے کئی کسانوں کو کھویا ہے۔زرعی قوانین کورد کر دیا گیا ہے، لیکن دھیان دیں کہ یہ جدوجہد کا اختتام نہیں ہے۔ یہ تبھی پورا ہوگا جب اجئے مشرا استعفیٰ  دیں گے اور انہیں جیل بھیجا جائےگا۔’

وزیر اعظم مودی کے ذریعے ان کے خطاب میں جاری معافی کا ذکر کرتے ہوئے سنگھ نے کہا کہ اس احتجاج کی وجہ سے جن کسانوں نے اپنے گھروالوں کو کھویا ہے، ان کے لیے انہیں الگ سے معافی مانگنی چاہیے۔

انہوں نے آگے کہا،‘کسان رہنماؤں نے ہمیں یقین دہانی کرائی  ہے کہ وہ اب بھی اجئے مشرا کے استعفیٰ کی مانگ کرنا بند نہیں کریں گے۔ اور اب جب قوانین کو رد کر دیا گیا ہےتو میں آپ کے نیوز پورٹل ذریعےسبھی ہندوستانی نیوز چینلوں سے سچ کے راستے پر چلنے کی اپیل کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ آخرکار وہی جیتتا ہے۔’

اس تشدد کے مہلوکین میں19سالہ لوپریت بھی شامل تھے۔واقعہ کے بعد جب دی وائر ان کے گھر پہنچا تھا تب ان کے والدستنام سنگھ نے کہا تھا کہ وزیر کا بیٹا آشیش ایک‘غنڈہ’ہے اور اسے موت کی سزا دی جانی چاہیے۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اجئے مشرا کو وزارت داخلہ میں ان کےعہدےسے فوراً ہٹایا جانا چاہیے۔

جمعہ کو دی وائر سے بات کرتے ہوئے لوپریت کے چچا کیول سنگھ نے اجئے مشرا کےاستعفیٰ کی مانگ دہرائی۔ انہوں نے کہا،‘انہیں تب ہی برخاست کر دینا چاہیے تھا۔ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔’

کیول نے کہا کہ لوپریت کی ماں ستویندر کور اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کو برداشت نہیں کر پا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا،‘وہ اس کی تصویریں دیکھتی رہتی ہے اور روتی رہتی ہیں۔جہاں ہم خوش ہیں کہ قانون واپس لے لیے گئے ہیں، وہیں ہمیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ ہمیں اس کے لیے بہت کچھ کھونا پڑا، جس میں لوپریت جیسے نوجوان بھی شامل ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ لوپریت کے اہل خانہ اس بات سے خوش ہیں کہ قانون واپس لینے کے بعد اب اور کوئی اپنی جان نہیں گنوائےگا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے فعال کارکن شبھم مشرا بھی اس تشدد کا شکار ہوئے تھے۔ان کے اہل خانہ نے مظاہرین کسانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ شبھم کو ‘دنگائیوں’ نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا تھا۔

جمعہ کو گھروالوں سےرابطہ کرنے پر شبھم کے چچا انوپ مشرا نے کہا، ‘ہمارے بیٹے کو مارنے والے دنگائیوں کو ابھی بھی سزا نہیں ملی ہے لیکن قانون واپس لے لیا گیا ہے۔ اب کہنے کے لیے بچا ہی کیا ہے؟’

جان گنوانے والوں میں رام پور ضلع کے ڈبڈ با کے نوریت سنگھ بھی شامل ہیں، جن کی26 جنوری کو کسانوں کی ٹریکٹر پریڈ کے دوران موت ہو گئی تھی۔

ہردیپ سنگھ ڈبڈ با نوریت کے دادا ہیں۔انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کی قیادت  والی سرکارکے ذریعے معافی مانگنا ایک مثبت قدم ہے۔

انہوں نے دی وائر سے کہا، ‘میں اسے کسانوں کی جیت مانتا ہوں۔ لوگوں کی مودی کے بارے میں جو رائے تھی کہ وہ اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں اور پیچھے نہیں ہٹتے، وہ اب بدل گئی ہے۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)