فکر و نظر

کنگنا کی زبان درازی کے پس پردہ کون ہے؟

کہتے ہیں کہ آر ایس ایس  کےہزار ہزاربازو اور ہزار ہزار منہ ہیں۔ان ‘ہزار ہزار منہ’میں بی جے پی ایم پی ورون گاندھی کو چھوڑ دیں تو کنگنا کے معاملے پر خاموشی اختیار کرنےکو لےکرزبردست اتفاق رائے ہے۔ پھر اس نتیجہ تک کیوں نہیں پہنچا جا سکتا کہ کنگنا کا منہ بھی ان ہزاروں منہ میں ہی شامل ہے؟

ٹائمز گروپ ایونٹ میں کنگنا رناوت۔(فوٹو کریڈٹ:اسکرین گریب/ٹائمز ناؤ)

ٹائمز گروپ ایونٹ میں کنگنا رناوت۔(فوٹو کریڈٹ:اسکرین گریب/ٹائمز ناؤ)

اداکارہ کنگنا رناوت نے اپنے اس بیان‘ملک کو 1947 میں ملی آزادی بھیک تھی اور حقیقی آزادی 2014 میں ملی، کو شیخی بگھارتے ہوئے ہاتھ کنگن کو آرسی کی طرز پر اس ‘چیلنج’ تک پہنچا دیا ہے کہ کوئی بتا دے کہ 1947 میں کون سی لڑائی لڑی گئی تھی، تو وہ اپنا‘پدم شری’واپس کر دیں گی۔

پھربھی کئی حضرات اپنے اس شکوک و شبہات کو دور نہیں کر پا رہے کہ کیایہ محض اتفاق ہے کہ جب ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، وہ اس طرح سے اس کوکمتر دکھانے والےتبصرے کر رہی ہیں، جیسےاس سے ان کی کوئی پرانی دشمنی ہو اور صلح کی کوئی گنجائش نہ ہو؟

اگر نہیں، تو کیا ان کے پیچھےملک  کااقتدارچلانے والی آر ایس یاس  کا کوئی تجربہ ہے، جس نے ان دنوں پورے ملک کو اپنی تجربہ گاہ میں تبدیل کر رکھا ہے؟ کنگنا کایہ‘چیلنج’ کہ 1947 میں کون سی لڑائی لڑی گئی تھی، اس دوسرے سوال کا جواب ہاں میں ہی دیتی ہے۔

اس چیلنج کی معرفت جو بات کنگنا بنا کہےکہنا چاہتی ہیں، سنگھ کے سب سے بڑے نظریہ ساز‘گرو جی’ عرف مادھو راؤ سداشیوراؤ گولکلکر اسے ان لفظوں میں لکھ گئے ہیں،‘انیس سو سینتالیس میں ہم نے لڑنا چھوڑ دیا اور ملک کی آزادی کے لیے ایک ہزار سال پرانی کامیاب جد وجہد کاقابل مذمت خاتمہ کر دیا۔’

پھر جب وہ کہتی ہیں کہ حقیقی آزادی1947میں نہیں، 2014 میں ملی تو کون ہے، جسے 2014 میں26 مئی کو نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے پر وشو ہندوو پریشد لیڈر اشوک سنگھل کایہ تبصرہ یاد نہیں آتا کہ دہلی میں800 سال کے بعد ‘گوروشالی ہندو’حکومت کرنے آئے ہیں؟

اس کے بعد بھی اس بابت کوئی شک بچا رہ جاتا ہے تو اسے کنگنا کے لیےسنگھ پریوار اور اس کی سرکاروں کی‘رواداری’سے دور کیا جا سکتا ہے۔اس حقیقت سے کہ کل تک انہیں سماجوادی پارٹی کے سپریمو اکھلیش یادو کی طرف سےآزادی کی مشترکہ جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے مہاتما گاندھی، سردار ولبھ بھائی پٹیل و جواہر لال نہرو کے ساتھ محمد علی جناح  کا نام لینا تک گوارہ نہیں تھا اور ان کی مانگ تھی کہ اکھلیش اس کے لیے معافی مانگیں۔

پھر جیسے ہی کانگریس لیڈر سلمان خورشید نے اپنی کتاب‘سن رائز اوور ایودھیا’ میں ہندوتوا کی سیاست کو جہادی اسلامی تنظیموں آئی ایس آئی ایس اور بوکو حرام جیسا بتایا، وہ نہ صرف ان پر بلکہ ان کی پارٹی اور اس کے دوسرے رہنماؤں پر بھی کود پڑے اور ہندوو یا سناتن دھرم کو بدنام کرنے کی تہمت لگانے لگے!

ابھی بھی ان کی پوری کوشش ہے کہ اس حقیقت کو گڈ مڈ کرکے رکھ دیں کہ مذکورہ کتاب میں سلمان خورشید کی بنیادی تشویش ہی یہی ہے کہ ہندوتوا کی سیاست روایتی ہندوو یا سناتن دھرم کو کنارے لگا دے رہی ہے۔

لیکن کنگنا کے نہ صرف آزادی بلکہ اس کےلیے ہوئے جدوجہد کو توہین آمیزاور شرمسار کرنے والے سطحی تبصرے کو لےکر سنگھ پریوار کو لقوہ  مار گیا ہے۔ بی جے پی کے اکلوتےایم پی ورون گاندھی کو چھوڑ دیں تو اس کے سارے ‘قوم پرستوں’ کی زبان سل گئی ہے اور کچھ بولتے ہوئے تھوک گلے میں ہی اٹک کر رہ جا رہا ہے۔

یاد کیجیے، اس سے پہلے بی جے پی یووا مورچے کی اتر پردیش کی ایک تیز طرار خاتون لیڈر نے ایک یو ٹیوب چینل کے پروگرام میں دعویٰ کیا کہ ملک کو آزادی ننانوے سال کے پٹے (لیز)پر ملی ہوئی ہے اور وہ اس کے ‘ثبوت’بھی پیش کر سکتی ہے تو بھی اس خیمے کو کسی احتجاج کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی تھی۔

آزادی کے لیےجان  کی بازی لگانے والوں کی اس تذلیل کا احساس جرم بھی اسے نہیں ہی ہوا تھا۔

کنگنا کے معاملے میں تو اس کی طرف  سے براہ راست یہ یاد دلاکر بھی انہیں‘معاف’کر دینے پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ پہلے بھی بڑبولاپن برتتی رہی ہیں۔ انہوں نے کبھی کسانوں کی تحریک کے سلسلے میں اپنی زبان  دراز کی  اورکبھی مغربی  بنگال اسمبلی  انتخاب میں بی جے پی کی ہار کے سلسلے میں۔

پھر یہ کہہ کر بھی ان کے لیے‘رعایت’ چاہی جا رہی ہے کہ وہ کوئی مؤرخ نہیں ہیں۔ لیکن اس سوال کا جواب نہیں دیا جا رہا کہ کوئی روز روز بدتمیزی پر آمادہ رہنے لگے تو کیا اس کی بدفعلی  کونیکی مان لیا جائےگا؟

پھر وزیر دفاع راجناتھ سنگھ ہی کون سےتاریخ داں  ہیں، پچھلے دنوں جن کے یہ کہنے پر بھرپور بحث کی گئی کہ ‘ویر’ ونائک دامودر ساورکر نے مہاتما گاندھی کے کہنے سے انگریزوں سے معافی مانگی تھی؟

پھر کیا کنگنا کے بیانات کوبھی اسی سلسلے میں مودی حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں ہے، جس میں وہ باتیں جو وزیر داخلہ کو کہنی چاہیے،وزیر دفاع کہتے نظر آتے ہیں اور جو وزیر دفاع کو کہنی چاہیے، انہیں وزیر خزانہ۔ پیگاسس جاسوسی اسکینڈل میں جو صفائی وزیر اعظم کی طرف سے آنی چاہیے تھی، ان کے الگ الگ وزیروں کے منہ سے الگ الگ اورناقابل یقین انداز سے سامنے آئی۔

اتنا ہی نہیں، طالبان نے ہندوستان کی جانب منہ کیا تو ہندوستان کیا کرےگا، اس کا اعلان اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کیا!

ویسے بھی کہتے ہیں کہ آر ایس ایس  کے ہزار ہزار بازو اور ہزار ہزار منہ ہیں۔ ان ہزار ہزار منہ میں بی جے پی ایم پی ورن گاندھی کو چھوڑ دیں تو کنگنا کے معاملے پر خاموشی اختیار کرنے  کو لےکرزبردست اتفاق رائے ہے۔ پھر اس نتیجہ تک کیوں نہیں پہنچا جا سکتا کہ کنگنا کا منہ بھی ان ہزار منہ میں ہی شامل ہے؟

نہ ہوتا تو اب تک وہ ان کےخلاف سیڈیشن کا مقدمہ چلانے کی مانگ کو لےکر آسمان سر پر اٹھا چکے ہوتے۔لیکن کنگنا اس نریندر مودی سرکار کے لیے بھی تنقید سے پرے بنی ہوئی ہیں، جس نے دکھاوے کے لیے ہی سہی ملک کو آئین کے مطابق چلانے کا حلف اٹھارکھا ہے۔

وہ اس سوال کا بھی سامنا نہیں کر رہی کہ اگر آزادی بھیک میں ملی تو اس کے ذریعےملک مخالف قرار دی جانے والی کانگریس یاانقلابوں کے ہیروز کو چھوڑ بھی دیں تو کیا اس کے ‘ویر’ ونائک دامودر ساورکر بھی بھکاری ہی تھے؟

پھر آزادی پندرہ اگست، 1947 کے بجائے 2014 میں ملی تو وہ بھلا کس بات کا امرت مہوتسو منا رہی ہے؟ کیا اس کی وجہ یہی نہیں ہے کہ آر ایس ایس کے لیے بدتر اور آئین‘منوسمرتی’ سے بھی کمتر؟

یادش بخیر دستور ساز اسمبلی کے ذریعےمتفقہ طور پر ترنگے کوقومی جھنڈے کے روپ میں قبول کرنے کے باوجود آر ایس ایس کےلیڈروں نے اسے آدھے ادھورے من سے بھی قبول نہیں کیا تھا۔

ان کے‘گرو جی’ نے 14 جولائی، 1946 کو کہا تھا کہ ‘بھگوا جھنڈا ہی ہماری عظیم ثقافت کو کلی طور پرپیش کرتا ہے۔یہ ایشور کا روپ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ آخرمیں پوراملک اس بھگوا جھنڈے کے آگے سر خم کرے گا۔

سنگھ کے ماؤتھ پیس‘آرگنائزر’کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ ‘وہ لوگ جو قسمت کے بل پراقتدار میں آ گئے ہیں، ہمارے ہاتھوں میں بھلے ہی ترنگا پکڑا دیں، پر یہ کبھی ہندوؤں کی عزت نہیں پا سکےگا اور نہ ان کے ذریعے اپنایا جا سکےگا۔ تین کی تعداد اپنے آپ میں بد ہے اور تین رنگوں والا جھنڈا یقینی طورپرنفسیاتی مضر اثرات کا باعث بنے گا اور یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا۔’

سنگھ کے نظریہ سازوں کو یہ بھی لگتا تھا کہ آئین نے جو جمہوریت کا تصور دیا ہےوہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہے، کیونکہ یہ شہری کو بہت زیادہ آزادی دیتا ہے اور آئین اس لیے نہیں کہ وہ ہمارے ایک ملک کے یقین میں پختہ نہیں ہے۔ ‘گرو جی’ کے ہی لفظوں میں ‘فریمرس آف اور پریزنٹ کانسٹی ٹیوشن آلسو ویئر ناٹ فرملی روٹیڈ ان د ی کنوکشن آف اور سنگل ہوماجینیس نیشن ہڈ۔’

صاف ہے کہ کنگنا ہماری آزادی کو یوں ہی بھیک نہیں بتا رہی ہیں۔ان کے پیچھےتنگ نظر ہندوقوم پرستی کےوقار کےلیے ہمارے سارے قومی  فخر کو درکنار کرنے کا سنگھ پریوار کامنصوبہ ہے۔

ہاں، اس منصوبہ اور کنگنا میں ایک فرق ابھی بھی بچا ہوا ہے: سنگھ پریوار نے اس آئین میں تب اعتماد کا اظہار کیا تھا، جب مہاتما گاندھی کے وحشیانہ قتل کے بعد وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے اس کے بغیر اس پر لگی پابندی ہٹانے سے انکار کر دیا تھا۔

لیکن ہم نہیں جانتے کہ کنگنا اس حقیقت پر کب یقین کریں گی کہ ہمیں آزادی صرف 1947 میں ملی تھی اور یہ بھیک نہیں تھی بلکہ ہمارے جنگجوؤں کی جدوجہد اور شہادت کا صلہ ہے۔