خبریں

ایک تہائی مسلمانوں، 20 فیصدی سےزیادہ دلت-آدی واسیوں کے ساتھ صحت کی سہولیات میں امتیازی سلوک: سروے

آکسفیم انڈیا نے ہندوستان میں کووڈ 19 ٹیکہ کاری مہم کے ساتھ چیلنجز پر اپنے سروے کے نتائج جاری کیے ہیں، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تمام جواب دہندگان میں سے 30 فیصدی نے مذہب، کاسٹ یا بیماری یا صحت کی صورتحال کی بنیاد پر اسپتالوں میں یا صحت کی دیکھ بھال کرنے والےپیشہ وروں کی طرف  سے امتیازی سلوک کی جانکاری دی ہے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: ملک میں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر صحت کی سہولیات میں امتیازی سلوک کو لےکر ایک سروے سامنے آیا ہے۔جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ چار میں سے ایک ہندوستانی کے ساتھ ذات پات  اور مذہب کی بنیاد پرامتیازکیا جاتا ہے۔

سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے اس میں شامل ایک تہائی مسلمانوں، 20 فیصدی سے زیادہ دلت اور آدی واسیوں اورتمام جواب دہندگان میں سے 30 فیصدی نے مذہب، ذات پات یا بیماری یا صحت کی صورتحال کی بنیاد پر اسپتالوں میں یا صحت کی  دیکھ بھال کرنے والے پیشہ وروں کی طرف سے امتیازی سلوک کی جانکاری دی ہے۔

این جی او‘آکسفیم انڈیا’نے ہندوستان میں کووڈ 19 ٹیکہ کاری کی مہم کے ساتھ چیلنجز پر اپنے سروے کے نتائج  منگل کوجاری کیے۔

اس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 43 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ ٹیکہ نہیں لے سکے، کیونکہ جب وہ ٹیکہ کاری مرکز پہنچے تو ٹیکےختم  ہو گئے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہیں12فیصدی اس لیے ٹیکہ  نہیں لگوا سکےکہ وہ  ٹیکے کی‘قیمتیں’برداشت نہیں کر سکے۔

ہندوستان میں مریضوں کے حقوق کےتحفظ’کےعنوان  والی رپورٹ کے مطابق، نوفیصدی جواب دہندگان نے کہا کہ انہیں خود کو ٹیکہ  لگوانے کے لیے ایک دن کی مزدوری گنوانی پڑی۔

این جی او نے کہا کہ وزارت صحت اور ہندوستان کی  ٹیکہ کاری  مہم کے‘کچھ اہتماموں’کےخلاف مریضوں کے حقوق کو شامل کرنے کے لیے سروے دو حصوں میں کیا گیا۔

اس نے کہا کہ وزارت صحت کے مریضوں کے حقوق کے  چارٹر پر سروے فروری اور اپریل کے بیچ کیا گیا تھا اور اس میں 3890 ردعمل موصول ہوئے تھے۔

اس نے کہا کہ وہیں ہندوستان کی  ٹیکہ کاری مہم پر سروے اگست اور ستمبر کے بیچ 28صوبوں اور 5 یونین ٹریٹری میں 10955 جواب دہندگان کو شامل کرتے ہوئے کیا گیا۔

‘آکسفیم انڈیا’ نےسروے کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ‘چار ہندوستانیوں میں سے ایک کو ان کی کاسٹ اور مذہب کی وجہ سےصحت کی خدمات تک رسائی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔’

سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے، ‘ایک تہائی مسلمان جواب دہندگان، 20 فیصدسے زیادہ دلت اور آدی واسی جواب دہندگان اورتمام جواب دہندگان میں سے 30 فیصدی نے مذہب، ذات پات کی بنیاد پر یا بیماری یا صحت کی صورتحال پر اسپتال میں یا کسی صحت کی  دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ورکی جانب سے امتیازی سلوک  کی جانکاری دی۔’

اس نے دعویٰ کیا، 50 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ جب وہ یا ان کے قریبی رشتہ دار پچھلے 10 سالوں میں اسپتال میں بھرتی ہوئے تو انہیں علاج یا اس کےشروع ہونے سے پہلے علاج یااندازے کے مطابق اس کےاخراجات کی تفصیلات نہیں دی گئی۔

رپورٹ کےمطابق، وہیں31 فیصدی جواب دہندگان نے معاملے کے کاغذات، مریض کے ریکارڈ، جانچ رپورٹ سے اسپتال کے ذریعے انکار کیے جانے کی بات کہی، بھلے ہی انہوں نے اس کی مانگ کی۔

رپورٹ کے مطابق35 فیصدی خواتین نے کہا کہ کمرے میں کسی خاتون کی موجودگی کے بنا مرد اٹینڈنٹ نےان کی جانچ کی۔

اس میں کہا گیا ہے،‘19فیصد جواب دہندگان، جن کےقریبی رشتہ دار اسپتال میں تھے، نے کہا کہ اسپتال نے لاش  دینے سے انکار کر دیا۔’

آکسفیم انڈیا کے سی ای او امیتابھ بیہر نے ایک بیان میں کہا، ‘سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں صحت کی سہولیات میں غریب اور متوسط طبقےکومریضوں کےبنیادی حقوق سے باقاعدگی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔’

ملک میں مریضوں کو ان کے حقوق  سے انکار کیے جانے کو نشان زد کرتے ہوئے، رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 74 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ڈاکٹر نے صرف علاج  لکھا یا جانچ کرنے کے لیے کہا، لیکن انہیں ان کی بیماری، اس کی نوعیت اور بیماری کی وجہ  نہیں بتایا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیکہ کاری  مہم کے دوران امتیاز نہیں کرنے کے وزیر اعظم کےاعلانیہ  ارادے کے باوجود ہر ماہ 10000 روپے سے کم آمدنی والے 74 فیصد جواب دہندگان میں سے حاشیے اور اقلیتی طبقے کے 60 فیصد سے زیادہ جواب دہندگان نے محسوس کیا کہ سرکار انہیں یہ بتانے میں ناکام رہی کہ ٹیکہ کاری کیسے اور کب کی جائی۔

امیتابھ بیہر نے کہا،‘صحت کے نظام میں امیر اور غریب،مرد  اورخاتون، اشرافیہ اور حاشیے پر رہنے والے طبقوں کے الگ الگ تجربات اور چیلنجزکے تصدیق کی ضرورت ہے۔ یہ صحت کے نظام کو سبھی لوگوں کی ذاتی  ضروریات اورحوالے کے لیےجواب دہ  بنا دےگا۔’

انہوں نے مزیدکہا،‘ہندوستان  کو صحت عامہ کے نظام کو مضبوط کرنے اور نجی صحت کے شعبے پر مزید ضابطے قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ حکومت ہند کو فوری طور پر صحت کو ایک بنیادی حق بنانا چاہیے تاکہ ہر شہری اپنے صحت کے حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں قانون کا سہارا لے سکیں۔’

(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)