خبریں

سری نگر انکاؤنٹر میں تین مشتبہ دہشت گردوں کی موت، عینی شاہدین نے پولیس کے دعووں پر سوال اٹھایا

سری نگر میں 24 نومبر کی شام پولیس انکاؤنٹرمیں تین مشبہ دہشت گردوں کو مار گرایا گیا تھا، لیکن مقامی  لوگوں اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جن لڑکوں کو پولیس نے انکاؤنٹر میں مارا، وہ نہتے تھے اور سڑک کنارے کھڑے تھے۔

(فوٹو:  پی ٹی آئی)

(فوٹو:  پی ٹی آئی)

سری نگر میں24 نومبر کی شام کو ہوئے پولیس انکاؤنٹر کو لےکرعلاقائی  پارٹیاں اور عینی شاہدین اس واقعہ  کےسرکاری ورژن  پر سوال اٹھا رہے ہیں، جس میں مزاحمتی محاذٹی آرایف کے ایک سینئر کمانڈر سمیت تین مشتبہ دہشت گردوں کی موت ہوئی ہے۔

حکام  کا کہنا ہے کہ ٹی آرایف کے ایک سی کیٹیگری کےدہشت گرد مہران یاسین شلا کو ان کےمبینہ  ساتھی حزب المجاہدین  کے سابق دہشت گرد منظور احمد میر کے ساتھ 25 نومبر کو سری نگر کے رام باغ  علاقے میں گولی مارکر ہلاک  کر دیا گیا۔

جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ جن حالات میں مبینہ دہشت گردوں  کو مارا گیا، اس کو لے کرسوالات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی نیشنل کانفرنس نے بھی اس شوٹ آؤٹ کو لےکرحکام سے وضاحت طلب کی ہے۔

جموں وکشمیر پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں سری نگر میں دہشت گردانہ سرگرمیوں  کو لےکرصحیح جانکاری ملی تھی، جس کے بعد ایک ٹیم بنائی گئی۔ بدھ کی  شام کو اس ٹیم نے رام باغ  علاقے میں ایک نجی کار کو رکنے کا اشارہ کیا۔

پولیس نے بیان میں کہا، ‘کار میں بیٹھےدہشت گردوں  نے موقع سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے پولیس پر اندھادھند گولی چلانی شروع کر دی۔حالانکہ دہشت گردوں  کی جانب  سے کی گئی اس فائرنگ کے مد نظر جوابی کارروائی کی گئی، جو تصادم میں تبدیل ہو گئی۔’

پولیس کا کہنا ہے کہ تینوں مشتبہ دہشت گرد اس جوابی کارروائی میں مارے گئے۔

سال 2014 میں سپریم کورٹ نے انکاؤنٹر میں شامل پولیس فورسز کے لیے16گائید لائن طے کیے تھے، جن میں خفیہ جانکاری دینا جس سے انکاؤنٹر کی حالت بنے، پولیس کی گولی باری میں زخمی  متاثرین کو طبی امداد فراہم کرانا، سینئر افسر کے ذریعےانٹرنل جانچ اور مجسٹریٹ جانچ کےآرڈر دینا شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا، ‘یہ پولیس حکام  کا فرض نہیں ہے کہ وہ ملزم کو صرف اس لیے مار دے کیونکہ وہ خطرناک مجرم ہے۔بلاشبہ پولیس کو ملزم کو گرفتار کرکے اس پر مقدمہ چلانا چاہیے۔ اس طرح کی ہلاکتوں کو بڑھاوا نہیں دینا چاہیے۔ یہ اسٹیٹ اسپانسرڈ دہشت گردی  کے برابر ہے۔’

پولیس کے دعووں کے خلاف عینی شاہدین

عینی شاہدین کے مطابق، رام باغ انکاؤنٹر کے دوران کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ جموں وکشمیر پولیس نے مبینہ طور پر ان ہدایات کی خلاف ورزی کی ہے۔ فائرنگ بند ہونے اور فورسز کے موقع سے چلے جانے کے بعد دی وائر اور دیگرمیڈیا سے بات کرنے والے کئی عینی شاہدین نے پولیس کے دعووں کی تردید کی ہے۔

کچھ کا الزام ہے کہ مشتبہ افرادکو کار سے باہر نکالا گیا اور انہیں مارا گیا جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ انہیں طبی امداد بھی نہیں دی گئی۔

مشتبہ افراد کی جانب سےپولیس پر فائرنگ کرنے کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے ایک خاتون نے کہا، ‘جب پولیس موقع پر پہنچی اور اندھادھند گولیاں چلانے لگی تو یہ تین لڑکے سڑک کنارے ہی کھڑے تھے۔ میں سمجھ نہیں پائی کہ کیا ہو رہا ہے۔’

انہوں نے مزید بتایا،‘ان لڑکوں کو گولیاں لگی لیکن یہ زندہ تھے۔ ان میں سے ایک نے بھاگنے کی بھی کوشش کی لیکن پولیس اہلکار اس کوپکڑکر دوبارہ لے آئے، اسے گولی ماری اور اسے تب تک سڑک پر چھوڑ دیا، جب تک وہ مر نہیں گیا۔’

سری نگر میں جس سڑک پر یہ گولی باری ہوئی،وہاں پر خون بکھرا ہوا ہے، جسے مقامی لوگوں اور پولیس اہلکارو ں  نے بدھ کی  شام کو صاف کیا۔

اس شوٹ آؤٹ کے بعد درجن بھرمشتعل افراد موقع پر پہنچے، سرکار اور پولیس کے خلاف نعرےبازی کی اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔

جائے وقوع پر ایک بزرگ خاتون کو ایک والیٹ ملا، جو مارے گئے ان تین مبینہ دہشت گردوں  میں سے ایک منظور کا تھا۔خاتون اپنے کانپتے ہاتھوں سے منظور کا آدھار کارڈ پکڑتے ہوئے صحافیوں سے پوچھا تھا کہ یہ کون تھا اور کہاں سے ؟

خاتون شوٹ آؤٹ میں شامل پولیس اہلکاروں کو کوستے ہوئے کہتی ہے، ‘خون کی طرف دیکھو۔ اس کا نام کیا ہے؟ مجھے بتاؤ اس کا نام کیا ہے؟ اے خدا! اس غریب لڑکے کے والیٹ میں کچھ بھی نہیں ہے۔’

موقع پر موجود خواتین  کے ایک گروپ نے کہا، ‘ان لڑکوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ ہم سب دیکھ رہے تھے۔ پولیس اہلکاروں  نے ان میں سے ایک شخص پر اتنی گولیاں برسائی کہ اس نے اپنی پینٹ میں ہی پیشاب کر دیا۔ مجھے بھی لگا کہ مجھے بھی گولیاں لگی ہیں۔ انہوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے بھائیوں کو مار دیا۔ وہ انسانی زندگی کی قیمت نہیں سمجھتے۔’

سوشل میڈیا پر شوٹ آؤٹ کے کئی ویڈیو سرکولیٹ ہوئے، جس میں ان تین مشتبہ افراد کے وحشیانہ قتل کی مخالفت کر رہے افراد کو دیکھا جا سکتا ہے۔

مشتبہ دہشت گردوں کی جانب سے پولیس اہلکاروں  پر گولی باری کرنے کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے ایک دوسری خاتون  کہتی ہے، ‘ہم نے کون ساگناہ کیا ہے؟ میرا بیٹا تین سال کا ہے۔ کیا میں اس لیے اسے پال رہی ہوں تاکہ کسی انکاؤنٹر میں اسے مار دیاجائے؟یہ ملک کب تک سوتا رہےگا؟ ہم اتنے بےبس کیوں ہیں؟ کوئی ہماری بات کیوں نہیں سنتا!’

پولیس کی مانگ بےگناہی ثابت کریں

ان ہلاکتوں کی مخالفت سری نگر میں بھی ہوئی، جہاں کا مہران مقامی باشندہ ہے۔الزام  ہے کہ مہران ٹی آرایف کا کمانڈر تھا، جو اس سال مئی میں تنظیم میں شامل ہونے کے بعد سے پچھلے کئی ہفتوں سے پولیس کی رڈار میں تھا۔ سینکڑوں لوگوں نے گزشتہ رات کو سری نگر کے ان کےآبائی  علاقے میں جلوس نکالا۔ اس دوران انتظامیہ  نے ان علاقوں میں انٹرنیٹ خدمات بند کردیں۔

رام باغ  میں یہ انکاؤنٹر پڑوس کے حیدرپورہ  علاقے میں تین مقامی لوگوں اور ایک مشتبہ  پاکستانی دہشت گرد کی ہلاکت کے کچھ دنوں بعد ہوا۔

پولیس کے سرکاری ورژن میں خامیوں کو لےکر لوگوں کے بڑے پیمانے پر احتجاج کے بعد حیدرپورہ شوٹ آؤٹ میں مارے گئے شخص کو شمالی کشمیر میں دفن کیا گیا تھا۔ دو کاروباریوں کی لا شوں کو ان کے اہل خانہ کو لوٹا دیا گیا اور مجسٹریٹ جانچ کے آرڈر دیے گئے۔ جانچ کمیٹی نے ابھی تک معاملے پر اپنی رپورٹ نہیں سونپی ہے۔

پی ڈی پی چیف محبوبہ مفتی نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘رام باغ علاقے میں کل ہوئے مبینہ انکاؤنٹر کی صداقت کو لےکرشبہ ہے۔رپورٹ اور عینی شاہد کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ فائرنگ یک طرفہ تھی۔ سرکاری  ورژن سچائی سے کوسوں دور ہے اور زمینی حقیقت کے مطابق نہیں ہے جیسا کہ ہمیں شوپیاں، ایچ ایم ٹی اورحیدرپورہ میں بھی دیکھنے کو ملا۔’

نیشنل کانفرنس کےترجمان عمران نبی ڈار نے کہا، ‘نیشنل کانفرنس نے انتظامیہ سے اس انکاؤنٹر کو لےکر بےداغ ہونے کی مانگ کی ہے۔ ایسے وقت میں یہ بہت ہی سنگین الزام  ہیں جب ہمیں حیدرپورہ انکاؤنٹر کو لےکر جموں وکشمیر پولیس سےوضاحت  نہیں ملی ہے۔’

اس بیچ پولیس بیان میں کہا گیا کہ مشتبہ دہشت کئی دہشت گردانہ  معاملوں میں شامل رہے تھے۔

بیان میں کہا گیا،‘مہران یاسین سری نگر کے بربر شاہ میں 26 جولائی2021 کو ہوئے گرینیڈ حملے میں شامل تھا، جس میں مدثر احمد بھٹ کی موت ہو گئی تھی اور تین دوسرے شہری شدید طو رپر زخمی  ہو گئے تھے۔’

بیان میں مہران پر سرینگر کے گجر گینگ کے خودساختہ لیڈر میران علی شیخ کی اس سال جولائی میں ہوئے قتل  میں شامل ہونے کا بھی الزام  لگایا۔

پولیس نے شروعات میں اسے دہشت گردانہ واقعہ میں ہواقتل  قرار دیا تھا لیکن بعد میں اسے گینگ وار دشمنی بتاتے ہوئے اپنے  بیان کو واپس لے لیا تھا۔ اب چار مہینے بعد اس قتل  کو دہشت گردی  سے جوڑا گیا ہے۔

پولیس بیان میں کہا گیا ہے کہ مہران سری نگر میں ستمبر مہینے میں ہوئے پولیس افسر ارشد احمد کے قتل اور پچھلے مہینے عیدگاہ میں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل سپندر کور اور ٹیچر دیپک چند کے قتل میں شامل تھا۔

بیان میں کہا گیا،‘دہشت گردی  رینک میں شامل ہونے سے پہلے پتھراؤ کے کئی واقعات میں ان کے رول  کےسلسلے میں ان کے خلاف معاملہ درج کیا گیا۔ مارا گیا ایک دوسرا دہشت گردعرفات  احمد پلوامہ میں 16 اکتوبر 2021 کو ایک غیرمقامی مزدور کےقتل  سمیت کئی دہشت گردانہ  معاملوں میں شامل تھا۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)