خبریں

کرناٹک: پولیس نے عیسائیوں سے کہا-دائیں بازو کے حملوں سے بچنے کے لیےدعائیہ اجتماع کا اہتمام نہ کریں

معاملہ بیلگاوی کا ہے،جہاں ہندوتوا تنظیموں کے ذریعے عیسائیوں پر حملے کے کچھ واقعات پیش آنےکے بعد پولیس نے عیسائیوں کو اسمبلی  کےسرمائی اجلاس کے اختتام تک دعائیہ اجتماعات سے گریز کرنے کو کہا ہے۔ 13 سے 24 دسمبر تک چلنے والے اس سیشن میں تبدیلی مذہب سے متعلق متنازعہ قانون کےپیش ہونے کی امید ہے۔

(فوٹو:  پی ٹی آئی)

(فوٹو:  پی ٹی آئی)

کرناٹک کے بیلگاوی میں چرچ جانے والوں کا ایک طبقہ پولیس کی طرف سے دعائیہ اجتماعات کے انعقاد کے لیے دی جانے والی نام نہاد ‘دوستانہ وارننگ’سےفکرمند ہے۔

کئی لوگوں کو ہندوتوا تنظیموں کے ذریعے حال میں عیسائی کمیونٹی پر کیے گئے حملوں کو لےکر ان کے عدم تحفظ کے پیش نظرپولیس کی یہ کارروائی بدنیتی سے متاثر لگتی ہےنظم ونسق کےلیےخطرہ بنے ہوئے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے پولیس نے عیسائیوں سے ہی دو قدم پیچھے ہٹنے کو کہا ہے۔

پادری تھا مس جانسن نے دی نیوز منٹ کو بتایا،‘کچھ پادریوں کو بلایا گیا اور یہ کہتے ہوئے کہ دائیں بازو کے لوگ ان پر حملہ کر سکتے ہیں اور پولیس انہیں تحفظ نہیں دے پائےگی، انہیں دعائیہ تقریب  کا اہتمام  نہیں کرنے کے لیے کہا گیا ۔’

انہوں نے کہا، ‘اس پر پابندی نہیں ہے کیونکہ انہوں نے تحریری طور پر کچھ بھی نہیں دیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بنائے رکھنے کے لیے ہے۔ کیمپ اورتلکواڑی تھانہ حلقہ، جہاں پادری چیرین پر حملہ کیا گیا، میں پولیس نے پادریوں کو بتایا کہ اگر آپ کے پاس اپنی چرچ کی عمارت ہے تو آپ دعائیہ اجتماع  کا اہتمام کر سکتے ہولیکن کرایہ کی عمارتوں اور نجی جگہوں میں دعائیہ اجتماع  کا اہتمام نہ کریں۔’

غورطلب ہے کہ ان کو کرناٹک اسمبلی  کےسرمائی اجلاس کے اختتام تک دعائیہ اجتماعات کےاہتمام سے گریز کرنے کو کہا گیا ہے۔ یہ سیشن 13 سے 24 دسمبر تک ہوگا اور اس دوران تبدیلی مذہب سے متعلق متنازعہ قانون کے پیش ہونے کی امید ہے۔

بتا دیں کہ ضلع کے 25 سے زیادہ پادریوں سے پولیس نے ان دعائیہ اجتماعات کےاہتمام سےگریزنے کو کہا ہے۔

گزشتہ کچھ مہینوں میں شری رام سینا اور بجرنگ دل سمیت کئی ہندوتواگروپ  صوبے کے کئی حصوں میں عیسائی پادریوں کے ذریعے مبینہ طور پر جبراً تبدیلی مذہب کی مخالفت کر رہے ہیں۔

پادری جانسن کا کہنا ہے کہ دعائیہ اجتماعات کے لیے کرایے پر لی گئی عمارتوں کے اکثر مالکان سے کہا گیا ہے کہ وہ دعائیہ اجتماعات کے لیے جگہ نہ دیں۔ دائیں بازو کے گروپوں نے ان میں سے کچھ کو دھمکیاں بھی دی ہیں اور دیگر کو پولیس نےمشورہ  دیا ہے۔

ان میں سے اکثرپادری بیلگاوی میں فل گاسپل چرچ سےوابستہ ہیں۔اوراس وقت  سے کرایے کی عمارتوں میں دعائیہ اجتماعات  کا اہتمام کر رہے ہیں، جب ان کے پاس چرچ نہیں تھا۔ اب یہ شری رام سینا جیسے ہندوتوا تنظیموں کے نشانے پر ہیں۔

ایک اور پادری نے پہچان اجاگر نہ کرنے کی شرط پر بتایا،‘ہمارے پاس ایسے لگ بھگ 20 لوگ ہیں جو اتوار کی دعائیہ مجلس میں حصہ لیتے ہیں۔ ان میں سے اکثرمزدور ہیں جو کسی بھی طرح کی پریشانی میں پھنسنے سے ڈرتے ہیں۔ بیلگاوی میں صرف پروٹیسٹنٹ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ کیتھولک کی طرح زیادہ باا ثر نہیں ہیں۔’

پادری بینی پال ستوری نے کہا کہ پولیس عبادت گاہوں پر آئی،یہاں تک کہ پولیس نجی رہائش گاہ پر بھی آئی جہاں پر دعائیہ اجتماع  کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور کچھ دیگر پادریوں کو پولیس نے تھانے بلایا۔

انہوں نے کہا،‘انہیں(پادریوں)بتایا گیا کہ جب تک اسمبلی  کا سرمائی اجلاس مکمل نہیں ہو جاتا، دعائیہ اجلاس کا اہتمام نہ کریں کیونکہ ہمیں نہیں پتہ کہ یہ دائیں بازو کے لوگ  کب آئیں گے اور آپ کے لیے مسئلہ  پیداکر دیں گے اس لیے پولیس نے پادریوں کو محفوظ رہنے کی صلاح دی اور کرایے کی جگہوں پر دعائیہ اجتماع  کااہتمام نہیں کرنے کو کہا۔’

پادری تھا مس نے کہا، ‘دائیں بازو کے کارکن چرچوں میں گھس آتے ہیں، چیزیں توڑتے ہیں، لوگوں پر حملہ کرتے ہیں لیکن آخرکار معاملے پادریوں کے خلاف درج کیے جاتے ہیں اور ان پر جبراً تبدیلی مذہب  کا الزام  لگایا جاتا ہے۔اب کئی پادری زوم کال کے ذریعے آن لائن دعائیہ اجتماع کرا رہے ہیں۔ ہم انہیں (دائیں بازو)کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتے۔’

انہوں نے کہا،‘بیلگاوی میں ان سرگرمیوں  پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے اور اسمبلی کے سرمائی اجلاس میں تبدیلی مذہب مخالف بل پر زور دینا چاہتے ہیں۔’

دائیں بازوکی تنظیموں نے بل کا ایک مسودہ تیار کیا تھا اور اسےصوبے کے وزیر اعلیٰ  بسوراج بومئی کو سونپ دیا تھا۔ شری رام سینا کے‘بدنام زمانہ’صدر پرمود متالک سمیت ہندو سنتوں کے ایک وفد نے وزیر اعلیٰ  سے ملاقات کی تھی اور جلد سے جلد اس قانون کو لانے کی مانگ کی تھی لیکن اس کو لےکر ابھی بھی تذبذب  بنا ہوا ہے کہ کیا اسے اسمبلی  کے سرمائی اجلاس میں لایا جائےگا۔

شری رام سینا کے ایک رکن نے کہا، ‘ہمارے لیڈروں کووزیر اعلیٰ کی طرف سےیقین دہانی کرائی گئی ہے لیکن ہم صرف اس پر بھروسہ کرکےہمیشہ انتظار نہیں کر سکتے۔اسمبلی  کے سرمائی اجلاس کے شروع ہونے پر ہم بیلگاوی کی زمینی حقیقت کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔’

پادری بینی نے بتایا،‘گزشتہ دو ہفتوں میں کئی آڈیٹوریم مالکان نے املاک کو نقصان پہنچنے کے خوف سے اپنے ہال کرائے پر دینے سے انکار کر دیا ہے۔ پرمود متالک اسی علاقے سے ہیں اس لیے وہ اور شری رام سینا یہاں بہت سرگرم  ہیں۔’

اس طرح کے ہال کے کچھ مالکوں نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے کچھ وقتوں کے لیے فی الحال پادریوں سے کہا ہے کہ وہ  ان کے املاک پر دعائیہ اجتماعات  کا اہتمام نہ کریں۔

اتوار کے دعائیہ اجتماعات کے لیے ہال کو کرایے پر دینے والے بیلگاوی کی تھیوسوفیکل سوسائٹی کے رکن جوتیبا جادھو نے بتایا کہ انہوں نے پولیس کو تحریری  بیان دیا ہے کہ انہیں دعائیہ اجتماع کے لیے ہال کو کرایے پر دینے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا،‘مراٹھا کالونی میں کچھ لوگ ہیں، جنہیں پریشانی تھی۔ پولیس نے ان معاملوں کو سلجھانے کے بجائے اور ہال کو سیکیورٹی دینے کے بجائے ہال مالکوں سے ہال کو پادریوں کو کرایے پر نہ دینے اور سی سی ٹی وی کیمرہ  لگانے کو کہا۔’

بیلگاوی میں کیمپ تھانے کے انسپکٹر نے بھی تصدیق کی کہ ایسا ڈر کا ماحول ہے کہ دائیں بازو کے لوگ چرچ پر حملہ کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘صرف کیمپ پولیس اسٹیشن میں ہی نہیں بلکہ دو یا تین دوسرے تھانہ حلقوں میں بھی۔ دو ہفتے پہلے شیواجی کالونی میں پیش آئے واقعہ کے مدنظر ہم نے سوچا کہ باقی دوسرےمحفوظ رہیں اور ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔’

انہوں نے کہا، ‘اس لیے ہم نے ان سے چرچ کے آس پاس کیمرہ  لگانے کو کہا۔ ہم نے ان سے دعائیہ اجتماع  میں دوسری کمیونٹی کے لوگوں کو بھی نہیں لانے کو کہا کیونکہ اس سے ان پرتبدیلی مذہب کا الزام  لگےگا۔ ہم نے ان سے صرف چرچ میں ہی دعائیہ اجتماع  کا اہتمام کرنے کو کہا۔ ہم نے ان سے اسمبلی کےسرمائی اجلاس کے ختم ہونے ہونے تک محتاط رہنے کو کہا ہے۔’

ریورینڈ نندو کمار اور ریورینڈ ڈیریک فرنانڈس کی سربراہی  میں بدھ کو بشپ اور عیسائیوں کے ایک وفد نے بیلگاوی پولیس کمشنر سے ملاقات کی اور انہیں تحفظ فراہم کرانے کے لیے ایک میمورنڈم سونپا۔

اس میمورنڈم میں کہا گیا،‘یہ ایک خطرناک پیش رفت ہے جہاں ایسا لگتا ہے کہ عیسائیوں کو تحفظ دینے کے بجائے سماج کے کچھ لوگوں کی طرف سےلاحق خطرے کی وجہ سے ہم سے ہی ہماری تمام سرگرمیوں کو روکنے کو کہا گیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ پادریوں کو دعائیہ اجتماعات کے اہتمام سے روکنے کے بجائے شرپسندوں کے خلاف معاملہ درج کرکے ان پر کارروائی کی جانی چاہیے۔ ان دعائیہ اجتماعات میں جو بھی ہو رہا ہے، وہ آئین  کے دائرے میں ہے۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)