خبریں

معیشت کو بھگوان کی ضرورت ہے، ایم ایس ایم ای اور روزگار سے متعلق مسائل سنگین ہیں: پرنب سین

ہندوستان کےسابق چیف شماریات دان اورسینئر ماہراقتصادیات پرنب سین نے کہا کہ ملک کی معیشت سے جڑے مسائل کو حل کرنے کا واحد راستہ عوامی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے، لیکن اس کے لیے مرکز اور ریاستوں کےدرمیان سیاسی اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

کرن تھاپر اور پرنب سین۔

کرن تھاپر اور پرنب سین۔

نئی دہلی:ملک کی اقتصادی ترقی کی شرح رواں مالی سال2021-22 کی دوسری سہ ماہی(جولائی تاستمبر) میں8.4فیصد رہنے کو لےکرہندوستان کے سابق چیف شماریات داں  اورمعروف ماہر اقتصادیات پرنب سین نے کہا ہے کہ اس میں کوئی دو راے نہیں ہے کہ اس سے معیشت  کو راحت ملی ہے۔

حالانکہ سین، جو اس وقت انٹرنیشنل گروتھ سینٹر کے کنٹری ڈائریکٹر ہیں، نے یہ بھی کہا کہ نجی کھپت، ایم ایس ایم ای اور روزگار کے ساتھ سنگین مسائل بدستور موجود ہیں، کیونکہ ہمارے پاس ان سے نمٹنے کے لیے آسان یا مؤثر طریقے نہیں ہیں۔

انہوں نے یہاں تک کہا، ‘معیشت کو بھگوان کی مدد کی ضرورت ہے۔’

سین نے کہا کہ ملک میں کےشکل(K-shaped)میں اقتصادی  بحالی ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے ہی جانتے ہیں کہ اس ملک میں دو ملک ہیں انڈیا اور بھارت۔ ایک وقت میں ان دونوں کے بیچ کی دوری ختم ہو رہی تھی، لیکن اب دونوں کے بیچ کی دوری بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا، اس لیے، انڈیا کے لیے‘وی شکل(V-shaped)’میں اقتصادی بحالی ہو رہی ہے اور بھارت، جو کہ ملک کی 70-80 فیصدی آبادی ہے، میں کے شکل(K-shaped)میں اقتصادی بحالی ہو رہی ہے۔

انڈیا اور بھارت کو لےکرسین کا مطلب ممکنہ طور پر‘امیر اور غریب’ سے ہے۔

دی وائر کو دیے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اس سال معیشت میں دہائی کے اعدادوشمار میں اضافہ  ہو لیکن یہ معمولی ہی ہوگا، کیونکہ پچھلے سال معیشت میں7.3 فیصدی کی گراوٹ آئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اگرمعیشت میں10فیصدی کا بھی اضافہ  ہوتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہو کہ دو سال پہلے کی  صورتحال کے مقابلے محض دو فیصدی کااضافہ  ہوا ہے۔

انہوں نے زراعت کے شعبے میں اس سال 4.5 فیصدی اور دو سال پہلے مہاماری کی شروعات کے بعد سے 7.6 فیصدی اضافے کی تعریف کی۔

سین نے کہا کہ یہ دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ زراعت کے شعبےنے مہاماری کےسب سے برے مہینوں اور اس سال گرمی میں آئی اس کی دوسری شدید لہر اور اس کے بعد متنازعہ زرعی قوانین سے جوجھتے ہوئے ایسا کرکے دکھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ دکھاتا ہے کہ زراعت کے شعبے میں بڑی تعداد میں لوگ کام کر رہے ہیں اور یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ لوگ کھیتی سے ہٹ کر معیشت کے دوسرےشعبوں  میں نوکریوں کی جانب بڑھیں۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے سال کے مقابلےنجی سرمایہ کاری میں11فیصدی کااضافہ  اور مہاماری سے قبل کی سطح سے 1.5فیصدی کا اضافہ قابل اعتبار ہے، لیکن یہ کارپوریٹ بھارت کے ایک بہت چھوٹے طبقےتک محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی نوکریاں بنانے میں اس کا اثر بہت کم ہوگا۔

سین نے کہا کہ سب سے اہم فکرنجی کھپت تھی، جو معیشت کا 55 فیصدی حصہ ہے، لیکن ابھی بھی مہاماری سے قبل کی سطح سے 3.5 فیصدی نیچے ہے، اور ایم ایس ایم ای، جو جی ڈی پی کا 30 فیصدی اور روزگار میں 80-85 فیصدی حصہ  دیتا ہے، اس کی بھی حالت اچھی نہیں ہے۔

سین نے کہا کہ سرکار کے پاس نجی کھپت کو بڑھانے اور ایم ایس ایم ای کی جدوجہد کو کم کرنے کے لیے اچھے اور مؤثر طریقے نہیں ہیں۔ بینک قرض دینے سے ان کی مددنہیں ہوئی کیونکہ بینک بڑھتے قرض اور پیسہ ڈوبنے کے ڈر سے ایم ایس ایم ای کو ادھار دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔

اس کو لے کر سین نےمشورہ دیا کہ سرکار کو دودیگر اقدامات پرغور کرنا چاہیے۔

پہلایہ کہ بینک ایم ایس ایم ای کو مخصوص مختص قرض  دینے کا متبادل چن سکتے ہیں، جیسا کہ پچھلے سال کیا گیا تھا۔ حالانکہ انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال ایم ایس ایم ای کے لیےمختص3 لاکھ کروڑ روپے میں سے صرف 66 فیصدی کا استعمال کیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایم ایس ایم ای کی مدد کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ کچھ نہیں سے تو بہتر ہے۔

دوسرا، انہوں نے مشورہ دیا کہ سرکار کو ‘براہ راست منتقلی’کے توسط سے نجی کھپت کو بڑھاوا دینا چاہیے اور یہ کچھ ہفتوں یا مہینوں کے لیے نہیں، بلکہ سالوں تک چلنا چاہیے۔ حالانکہ انہوں نے کہا کہ ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے۔

پرنب سین نے کہا کہ سرکار کے ہاتھ میں واحدطریقہ عوامی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے، جو وہ کر رہی ہے، لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ، ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سے ریاستی حکومتوں کو بہت زیادہ سرمایہ کاری کرنی ہوتی ہے۔مرکزی حکومت اور صوبوں کے بیچ سیاسی اختلافات اکثر اسے مشکل بنا دیتے ہیں۔

سین نے اس بات پر اتفاق  کیا کہ یہ صرف نجی کھپت، ایم ایس ایم ای،ادائیگی یا نوکریاں جانا جیسےمعاشی  خدشات کوسلجھانا نہیں ہے، بلکہ اس کے علاوہ مرکز اور ریاستی سرکاروں کے بیچ اختلافات سے جڑے سیاسی مدعے بھی ہیں، جن کا حل ہونا چاہیے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)