فکر و نظر

ونود دوا نے دی وائر کو کیا دیا …

ونود دوا کےچالیس سالہ  ٹی وی نیوز کا تجربہ  اور ناظرین سے ان کاغیر معمولی رشتہ ان کی پہلی ڈیجیٹل کوشش میں اتنی آسانی سے آ گیا کہ جلد ہی انہوں نے بڑے پیمانے پر ناظرین  کومتوجہ کرلیا۔

ونود دوا ، فوٹو: دی وائر

ونود دوا ، فوٹو: دی وائر

سینئر ٹی وی پریزینٹر ونود دوا کی ڈیجیٹل میڈیاسے وابستگی  الگ ہی طرح کی تھی۔ ہندی ٹی وی خبروں کی دنیا میں بےحد کامیاب دوا فراخدلی  اور انتہائی کم وسائل کے ساتھ کام کرنے والے نئے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم کی مدد کرنے کے لیےپر عزم تھے۔

سال 2016 میں انہوں نے خود آگے آکر بنا کسی اعزازیہ کے دی وائر کےویڈیو پروجیکٹ کے لیے ایک ڈیلی شو کرنے کی پیش کش  رکھی تھی۔ یو ٹیوب پر دی وائر کو ان کی امیج سے بہت فائدہ ملا۔

جب انہوں نے دی وائر کے پلیٹ فارم سے روزانہ 15-20 منٹ کا ایک شو کرنے کی حامی بھری، تب ان کے ساتھ ٹی وی نیوز کے چار دہائیوں کاخالص، مگر کچھ الگ تجربہ تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ ان کا پہلا ڈیلی شو ہے جو ٹرائی پاڈ پر لگے ایک چھوٹے سے کیمرے سے شوٹ کیا جاتا ہے۔ اس طرح ‘جن گن من کی بات’کی شروعات ہوئی، وہ شو جس میں 15 منٹ ایک سنگل کیمرہ کے سامنے دوا اپنی رائے رکھتے تھے۔

دوا اکثر مجھ سے کہتے تھے کہ ایک سنگل اسٹیٹک کیمرے پر شوٹ ہونے والا ان کا شو بڑے بڑے اسٹوڈیو میں ریکارڈ ہونے والے پروگراموں کے مقابلے الگ طرح سے جدید اور کفایتی تھا۔ انہیں اس کم خرچ اور مستند انداز میں اتنا مزہ آیا کہ وہ اس فارمیٹ کے عادی ہو گئے۔وہ کہا کرتے تھے کہ کفایت شعاری  نئے ڈیجیٹل میڈیا کو چلانے کی کلید ہے۔

ان کےشو ‘جن گن من کی بات’کی شوٹنگ کے لیے کوئی مخصوص اسٹوڈیو نہیں تھا۔ وہ  اسے میری ڈیسک سے کیا کرتے تھے (جسے میں شوٹ کے لیے45 منٹ کے لیے چھوڑ دیا کرتا تھا)بغل کی ڈیسک پر ایک ہرے رنگ کی بوتل رکھی رہتی تھی، جسے وہ اپنا ‘گڈ لک چارم’مانا کرتے تھے۔ یہ کفایتی میڈیا کی خالص ترین شکل تھی۔

سب سے اہم بات یہ رہی کہ دوا کے چالیس سالہ ٹی وی نیوز کا تجزبہ اور ان کا ناظرین سےغیرمعمولی رشتہ ان کی پہلے ڈیجیٹل کوشش میں اتنی آسانی سے آ گیا کہ انہوں نے جلد ہی بڑے پیمانے پر ناظرین  کو دی وائر کے یوٹیوب چینل پر متوجہ کرلیا۔

ڈیجیٹل میڈیا میں اس ردعمل سے دوا خود بھی حیران تھے۔ اور جو بات انہیں سب سے زیادہ خوش کرتی تھی وہ تھا اس کا کفایتی اورمنظم ہونا۔ وہ ہر شام تقریباً چار بجے دی وائر کےدفتر آ جایا کرتے تھے، ان کا اس روز کاآئیڈیا اور اسکرپٹ ان کے ذہن میں ہی ہوتے تھے۔ اس دن کے موضوع پر جانکاریاں اور ڈیٹا نکالنے کے لیے وائر کی ٹیم کا ایک ممبر انہیں بطور ریسرچر مدد کرتا تھا۔ بس! یہی ان کا سیٹ اپ تھا۔

دوا آفس ڈیسک کے پیچھے ایک کاغذ کے ساتھ بیٹھ کر اپنے مخصوص انداز میں، اپنے چشمے کے تھوڑا اوپر سے کیمرہ کو دیکھتے اور اپنے ناظرین سے ویسی ہی گرم جوشی سے بات کرتے جیسےآپ پرانے دوستوں سے بات کیا کرتے ہیں۔انہیں اس میڈیم پر ایسی مہارت حاصل تھی کہ وہ اپنی بات کو انہیں ملے کل پندرہ منٹ میں ہی پورا کر لیتے۔ اس کے بعد کسی طرح کی ایڈیٹنگ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ ایسا کمال صرف دہائیوں کے مشق کے بعد ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ ان کےاور ناظرین کے بیچ دوطرفہ مکالمہ کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔

اب جب دوا ہمارے بیچ نہیں ہیں، ایسے میں کسی بھلے انسان کے ذریعے‘جن گن من کی بات’کو تیار کرنے کی آسان اور سادگی بھرےعمل کوصحافت کے اسکولوں میں مطالعاتی موادمیں شامل کیا جانا چاہیے۔

(اس مضمون  کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)