ادبستان

راجندر ناتھ لاہڑی: وہ انقلابی جنہیں یقین تھا کہ ان کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی …

یوم شہادت پر خاص:  راجندر ناتھ لاہڑی اُن انقلابیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اگست 1925 میں انگریزوں کا خزانہ لوٹا تھا۔ 1927 میں انصاف کے تمام تقاضوں کی نفی کرتے ہوئے انگریزی حکومت نے انہیں مقررہ دن سے دو روز  پہلے اس لیے پھانسی دے  دی تھی کہ انہیں خدشہ تھا کہ گونڈہ جیل میں بند لاہڑی کو ان کے انقلابی ساتھی چھڑا لے جائیں گے۔

انقلابی راجندر ناتھ لاہڑی۔ (فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

انقلابی راجندر ناتھ لاہڑی۔ (فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

سال1927میں وہ آج ہی کی تاریخ تھی-17دسمبر، جب انگریزوں نے اتر پردیش کے گونڈہ ضلع کی جیل میں بندانقلابی راجندر ناتھ لاہڑی کو شہید کرنے کے لیےاپنےاصول و ضوابط کو بھی قربان کر دیاتھا۔

دراصل انہوں نے لاہڑی کی شہادت کے لیے دو دن بعد 19 دسمبر کی تاریخ مقرر کی تھی۔ اسی دن فیض آباد جیل میں اشفاق اللہ خان کوتو گورکھپور جیل میں پنڈت رام پرساد بسمل کو اورالہ آباد کی ملاکہ جیل میں روشن سنگھ کو شہید کیا جانا تھا۔ لیکن انگریزوں کو یہ  ڈرستانے لگا کہ اس وقت تک انقلابی گونڈہ جیل پر حملہ کر کے لاہڑی کو آزاد نہ کرا لیں، چنانچہ انہوں نے عجلت میں انصاف کے تمام تقاضوں کو ٹھکراتے ہوئے لاہڑی کی زندگی کےمزید دودن ان سے چھین لیے۔

ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن کے ان چاروں انقلابیوں کا  قصور یہ تھا کہ انہوں نے ملک کی آزادی کے لیےمسلح جدوجہد کی غرض سے پیسہ اکٹھا کرنے کے لیےایک آپریشن کےتحت 9 اگست 1925 کو سہارنپور-لکھنؤ پسنجر ٹرین سےلے جائے جا رہے انگریزی حکومت کے خزانے کو کو لوٹ لیا تھا۔

حقائق کےمطابق،جب یہ ٹرین اس دن لکھنؤ کے کاکوری ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہوئی تو راجندر ناتھ لاہڑی نے زنجیر کھینچ کر اسےروکا، جس کے بعد انقلابیوں کے گروپ نے رام پرساد بسمل کی قیادت میں آپریشن کو انجام تک پہنچایا۔

انقلابیوں کے اس آپریشن سے برطانوی تخت کس طرح  ہل گیا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انقلابیوں نے کل 4601 روپے لوٹے، لیکن انگریزی حکومت نے اس کی جانچ وغیرہ پر دس لاکھ روپےخرچ کر دیے، اور اس کو تب تک چین نہیں آیاجب تک مقدمے کےڈرامےکے بعداس نے راجندر ناتھ لاہڑی، رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان اور روشن سنگھ کو پھانسی نہیں دے دی۔ سولہ دیگر انقلابیوں کو لمبی لمبی  سزائیں اور اذیتیں اس کے علاوہ تھیں۔

انقلابیوں کے اس آپریشن کو کاکوری کیس کہتے تھے اور اس کی سماعت کے لیے لکھنؤ کے رنگ تھیٹر میں جہاں اب جی پی اویعنی مرکزی ڈاک خانہ ہے، ایک خصوصی عدالت لگائی جاتی تھی۔ تمام انقلابیوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر جیل سے عدالت میں لایاجاتا تھا۔

آتے جاتے وہ سب مل کر حب الوطنی کےترانے گاتے تھے۔ ایک دن عدالت  سے نکلتے ہوئے ‘سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے’گانے لگے تو صوبیدار بربند سنگھ نے انہیں  خاموش رہنے کا حکم دیا۔ لیکن انقلابی کہاں ماننے والے؟وہ گاتے رہے تو مشتعل بربند سنگھ نے سب سے آگے چل رہےراجندر ناتھ لاہڑی کا گلا پکڑ لیا، لاہڑی نے اسے جواب دینے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگایا۔

ان کےبھرپور تھپڑ اور ساتھی انقلابیوں کے تنے ہوئے بازوؤں نے صوبیدار کے ہوش اڑا دیے۔ پولیس نے انقلابیوں پر اس کامقدمہ بھی چلایا، لیکن بعد میں جانے کس حکمت عملی کے تحت اس کو واپس لے لیاگیا۔

لاہڑی کو دو روز قبل پھانسی دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ صوبیدار کو تھپڑ مارنے کے مذکورہ واقعے کے بعد وہ بہت سے اہل وطن کے ہیرو بن گئے تھے۔ آزادی کے لیے اپنی شہادت پرانہیں خودبھی کچھ کم فخر نہیں تھا۔

اپنی شہادت سے چند روز قبل انہوں نے ایک دوست کے نام  خط  لکھاتھا،معلوم ہوتا ہے قربانی کی دیوی کو ہمارا خون درکار ہے…موت کیا ہے؟ زندگی کے دوسرے رُخ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر یہ سچ ہے کہ تاریخ اپنا رخ موڑ لیتی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ ہماری موت رائیگاں نہیں جائے گی، سب کو آخری سلام۔

ان کا یہ ایمان ان کی شہادت کے دن اس شکل میں ظاہر ہوا تھاکہ اس صبح بھی انہوں نے اپنے معمول میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ تاہم 6 اپریل1927 کو انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی اور اس کے بعد ہی انہیں اپنے ساتھیوں سے الگ کر دیا گیاتھا۔

پھانسی سے چند گھنٹے قبل ڈیوٹی پر موجود برطانوی جیلر انہیں ورزش کرتے دیکھ کر حیران ہونے لگاتو انہوں نے ہنستے ہوئے اس سے کہا،’ورزش میرا روزانہ کا اصول ہے۔میں موت کے ڈر سے اصول کیوں چھوڑوں؟ …میں تناسخ پر یقین رکھتا ہوں اور اس مقصد کے ساتھ ورزش کرتا ہوں کہ میرے دوسرے جنم میں بھی مجھے ایک مضبوط جسم ملے، جو برطانوی سلطنت کے خلاف جنگ میں ملک کے کام آسکے۔

وہ زندہ رہتے ہوئے انگریزوں کی آنکھ کی کرکری اور پریشانی کا باعث تھے، ان کی شہادت کے بعد بھی انگریزی حکومت ناخوشگوارواقعات کے خوف سے دوچار تھی۔ اس لیے اس نے خفیہ طور پر جیل کے قریب ٹیڑھی ندی کے کنارے ان کی آخری رسومات ادا کر دی تھی۔

ماہرین کے مطابق،انقلابیوں کے حامیوں اور خیر خواہوں نے ان کی جائےتدفین پر ان کی یادگارکو بنانے کی کوشش بھی کی تھی۔ لیکن انہیں اس کی اجازت نہ دے کر انہیں زبردستی روک دیا گیا۔ان میں لاہڑی کے رشتہ داروں کے علاوہ انقلابی منماتھ ناتھ گپتا، لال بہاری ٹنڈن اور ایشور شرن بھی شامل تھے۔

جب  بے بسی میں انہیں کچھ نہ سوجھا تو انہوں نے اس جگہ کی شناخت کوبرقرار رکھنے کے لیےوہاں ایک بوتل دفن کر دی تھی۔ لیکن ان میں سے کئی کو گرفتار بھی کیا گیا اور دیگر مقدمات میں جیل میں ڈال دیا گیا، پھر کسی نے بوتل اکھاڑ دی، جس کی وجہ سے بعد میں اس  جگہ کی شناخت ہی مشکل ہوگئی۔

یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ ابھی لاہڑی کی شہادت کو ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ انقلابی مانیندر ناتھ بنرجی نے اس کا بدلہ لینے کے لیے انگریزوں سے رائے بہادر کاخطاب پاچکے ان کے خفیہ محکمہ کے کارکن جیتندر بنرجی کو، جنہوں نے کاکوری کیس میں بھی جاسوسی کی تھی ، گولی مار دی۔

اس کے لیے انہوں نے 13جنوری کادن چناجو کہ اتفاق سے ان کی سالگرہ بھی تھی۔ جائے وقوع  تھاوارانسی کا دشاسوامیدھ گھاٹ۔ گولی مارنے کے بعد مانیندرتو بچ نکلے، لیکن تھوڑی دیر بعد واپس آئے اور گرے ہوئے جتیندر کے پاس گئے اور پوچھا،’رائے بہادر، تمہیں لاہڑی کی  پھانسی کا انعام مل گیانہ؟’

جب پکڑے گئے تو دس سال کی سزاہوئی اور 1934 میں فتح گڑھ سینٹرل جیل میں طویل بھوک ہڑتال کے بعد منمتھ ناتھ گپتا اور یشپال کی موجودگی میں آخری سانسیں لیں تو ان کی  باغیانہ  حوصلےوالی ماں سنائنا کوان کاآخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا..

لیکن اس کے بعد سے لاہڑی کی یادیں بھی کاکوری آپریشن کے دیگر شہداء کی طرح مؤرخین کے سوتیلے پن اور ملک اور معاشرے کی ناشکری کا سامنا کر رہی ہیں۔ اشفاق، بسمل اور روشن سنگھ کی توکبھی کبھی چرچہ ہوتی ہے لیکن لاہڑی کو ان کے یوم شہادت پر بھی اس انقلابی شعور کے ساتھ یاد نہیں کیا جاتا جس انقلابی شعور کی انہوں نے نمائندگی کی اور جس کی وجہ سے کاکوری آپریشن کے بعد عام لوگ برطانوی راج سے آزادی کے لیےانقلابیوں کی طرف زیادہ  امید سے دیکھنے لگے تھے۔

گونڈہ جیل میں ان کی جائے شہادت  سے لے کر ٹیڑھی ندی کے ساحل پر جھانجھڑی بلاک کے گاؤں چھاونی سرکار میں واقع ان قبر کے آس پاس کے علاقے کی جو زیبائش و آرائش کی گئی ہے،اس میں بھی انقلابی شعور اور تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے۔

ان کے یوم شہادت پر وہاں ہونے والی تقریب بہت سے لوگوں کے مطابق لیڈروں، وزراء اور افسران کے جھوٹے اعلانات کا پلیٹ فارم بنی ہوئی ہے۔ اس کے خلاف اٹھنے والی تمام آوازیں نقارخانے میں طوطی کی آواز میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

ہاں ایک اچھی بات یہ ہے کہ ان کی شہادت کے بعد سے آج تک مذکورہ جیل میں کسی دوسرے قیدی کو پھانسی نہیں دی گئی اور پھانسی گھر اور کال کوٹھری کو لاہڑی کے لیے وقف کر کےمحفوظ رکھا گیا ہے۔ ان کے یوم شہادت پر پھانسی  گھر عوام کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔

معلوم ہو کہ لاہڑی کی جائے پیدائش بنگال کے ضلع پابنا میں واقع ہے جو اب بنگلہ دیش میں ہے۔ ان کے والد کشتی موہن شرما اور والدہ کا نام بسنت کماری تھا۔ لیکن1909میں خاندان کے وہاں سے وارانسی منتقل ہونے کی وجہ سے لاہڑی کی تعلیم وارانسی میں ہی ہوئی۔

جب لاہڑی پیدا ہوئے تو ان کے والد کشتی موہن لاہڑی اور ان کے بڑے بھائی بنگال میں چلنے والی انوشیلن دل کی خفیہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کے جرم میں جیل میں تھے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کی جدوجہد لاہڑی کو ورثے میں ملی تھی۔

جب لاہڑی بنارس ہندو یونیورسٹی میں تاریخ میں ایم اے کے پہلے سال کے طالب علم تھے تو وہ انقلابی شچندر ناتھ سانیال کے رابطے میں آئے اور یہیں سے ان کی انقلابی زندگی کا آغاز ہوا۔

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)