عالمی خبریں

آسام: ضرورت مندوں کے لیے مخصوص زمین وزیر اعلیٰ کے اہل خانہ سے براہ راست جڑی کمپنی کے پاس کیسے پہنچی

خصوصی رپورٹ: آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کی بیوی  رینیکی بھویاں شرما کی جانب سے شروع کی گئی کمپنی آر بی ایس رئیلٹرز کے ذریعے ‘سیلنگ سرپلس’ زمین کا حصول زمین سے متعلق ریاستی حکومت کی الاٹمنٹ پالیسی پر سوال قائم کرتا ہے۔

بیٹے نندیل اور بیوی رینیکی بھویاں شرما کے ساتھ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

بیٹے نندیل اور بیوی رینیکی بھویاں شرما کے ساتھ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

دی وائر اور گوہاٹی  کے نیوز پورٹل دی کراس کرنٹ کے اشتراک سےیہ تفتیشی رپورٹ تیارکی گئی ہے۔

آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما پورےصوبےمیں کسانوں کو ان کی رہائشی زمین سے بے دخل کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی غیر قانونی طریقے سےسرکاری زمین پر قبضہ کرنے کا اختیارنہیں ہے۔

لیکن دی وائر اور دی کراس کرنٹ کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ہمنتا بسوا شرما کی بیوی رینیکی بھویاں شرما کے ذریعےمشترکہ طور پر قائم ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی-جس میں ان کے بیٹے نندیل بسوا شرما کے مالی سال میں،2020 تک کافی شیئر تھے-نے18 ایکڑسرکاری زمین پر قبضہ کررکھا ہے، جبکہ ان زمینوں کوبے زمین لوگوں اور اداروں کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔

یہ زمین اس کے قبضے، فروخت اور استعمال سے متعلق سرکاری ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حاصل کی گئی۔

اس زمین کا ایک تہائی حصہ کامروپ ضلع کے بونگورا میں گوہاٹی ہوائی اڈے اور ٹیک سٹی سے ملحق ہے اور ریئل اسٹیٹ کے حساب سے بیش قیمتی ہے۔

یہاں ہم بات کر رہے ہیں آر بی ایس ریئلٹرز پرائیویٹ لمیٹڈکے بارے میں۔اس کمپنی نے دو مرحلوں میں 18 ایکڑ زمین حاصل کی ہے۔پہلی بار 2006-2007 میں اور دوسری بار 2009 میں۔ اس دوران شرما کی بیوی رینیکی بھویاں شرما اس کمپنی کی ڈائریکٹر تھیں اور شرما خود اس وقت کی ترون گگوئی سرکار میں ایک بااثر وزیر تھے۔کمپنی کے دوسرے بانی ڈائریکٹر رنجیت بھٹاچاریہ تھے، جو شرما کے اسسٹنٹ بھی ہیں۔

کارپوریٹ امور کی وزارت کے دستاویز میں رینیکی بھویاں شرما کوآر بی ایس ریئلٹرزکابانی ڈائریکٹر بتایا گیاہے۔

کارپوریٹ امور کی وزارت کے دستاویز میں رینیکی بھویاں شرما کوآر بی ایس ریئلٹرزکابانی ڈائریکٹر بتایا گیاہے۔

شرما کی کمپنی کی اس زمین پر ملکیت کی تفصیلات آسام حکومت کی ویب سائٹ دھریتری پر دستیاب ہے، جو ریاست میں زمین کی ملکیت کا ڈیجیٹل ریکارڈ فراہم کرتی ہے۔ اراضی ریکارڈ سے درانگ گھاٹی میں غیر قانونی طریقے سےزمین پر قبضہ کرنے کے معاملے میں ریاستی انتظامیہ کی طرف سے کی گئی کارروائی کا فرق واضح طور پر نظر آتا ہے:ستمبر میں سپاجھار میں سرکاری بے دخلی مہم کے دوران پولیس کے وحشیانہ حملے میں دو لوگوں کی  جان چلی گئی  تھی، جن میں سے  ایک نابالغ تھا۔

بعد میں شرما نے اس بے دخلی مہم کا دفاع بھی کیا تھا۔ بے دخل کیے گئے کسانوں  کا کہنا ہے کہ وہ اپنی  زمینوں اور گھروں کےندی کے کٹاؤ کی نذر ہوجانے کی وجہ سےاس علاقے میں آکر بس گئے۔

ندیوں کی کثرت والےآسام میں کٹاؤ ایک عام بات ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ زمینوں کے کٹاؤ کی نذر ہوجانے کے مسئلےکےمدنظرہی آسام میں اراضی قانون ندیوں کی وجہ سے اپنی زمین گنوانے والے لوگوں کی باز آبادی کے لیے ریاست کو خاطر خواہ  زمین فراہم کرانے یا کٹاؤ کی وجہ سے سرکاری زمین پر بسنے والوں کو ذہن میں رکھ کر بنائے گئے تھے۔

ماضی میں آسام حکومت کے ذریعےایسے خاندانوں کوآسام فکسیشن آف سیلنگ آن لینڈ ہولڈنگز ایکٹ، 1956 کے تحت حکومت کی ملکیت والی زمین سے زمین کا حصہ/پلاٹ الاٹ کیے گئے تھے۔

دس سال کے لاک ان کے باوجودآر بی ایس رئیلٹرزنےشروعاتی  الاٹمنٹ کے چند مہینوں کے اندر ہی زمین خرید لی

قانون کے مطابق،حکومت کی ملکیت میں آنے والی حد بندی (سیلنگ سرپلس) زمین کا مقصد آسام میں بے زمین لوگوں اور ضرورت مندوں کو زمین فراہم کرنا تھا۔اس کے تحت ایکٹ میں درج شرائط کے تحت زمین کے مالکان کو بھی کچھ زمین الاٹ کی جا سکتی ہے۔

پچھلی ایک دہائی کے دوران، جبکہ کئی صوبوں نے اپنے اراضی کی حدبندی قوانین میں اس طرح سے ترمیم کی ہےکہ صنعت کاروں اور غیر کاشتکاروں کو زرعی اراضی کے بڑے حصے خریدنے اور اسے غیر زرعی استعمال میں تبدیل کرنے کی اجازت دی جاسکے، آسام اس سے مستثنیٰ ہے۔

اس کے علاوہ ریاستی حکومت جن لوگوں کو حدبندی سے الگ اضافی زمین مختص کرتی ہے، وہ اس زمین کو 10 سال تک فروخت نہیں کر سکتے۔

ان اہتماموں کے پس منظر میں چیف منسٹر ہمنتا بسوا شرما سے براہ راست جڑی ایک کمپنی کے پاس حد بندی سرپلس  زمین کے ایک بڑے ٹکڑے کی ملکیت خاص طور پر مسئلہ بن جاتی ہے۔

سال2009میں بونگورا میں کل11بیگھہ تین کٹھہ اور چار لسہ(یعنی 301674 مربع فٹ یا 6.92 ایکڑ)حدبندی (سیلنگ سرپلس)زمین،جوآسام حکومت کی طرف سے ضرورت مند مانے جانے والے لوگوں  کو الاٹ کی گئی، شرما کی بیوی کی ریئل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ کمپنی کے ذریعے خریدی گئی۔

ان پلاٹوں کی فروخت اور رجسٹری اصل مستحقین کو الاٹ ہونے کے بعد تین ماہ سے بھی کم کےعرصے میں ہوگئی۔ یہ 10 سال کے لازمی لاک ان پیریڈ کی شرط کی خلاف ورزی تھی،جو ان پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے لیے پیشگی شرط تھی۔

جیسا کہ اراضی سےمتعلق سرکاری پورٹل میں آسامی زبان میں لکھا گیا ہے، یہ تمام الاٹمنٹ لاک ان کی شرط کے ساتھ کیے گئے: زمین کے اس  الاٹمنٹ کےدستاویز میں واضح طور پر لکھا گیاہے کہ یہ زمین دس سالوں فروخت نہیں کی جا سکتی)۔

اس شرط کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ضرورت مندوں کو الاٹ کی گئی زمین کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہ ہو۔

شرما کی بیوی کے آر بی ایس رئیلٹرز کے ڈائریکٹرکے عہدے سے استعفیٰ (9 جون 2009)دینے تک کل حد بندی سے بچی مجموعی زمین کا تقریباً80 فیصدحصہ کمپنی  خرید چکی تھی۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق، ان کی فروخت24 جنوری سے 28 جنوری 2009 تک کی گئی،جس وقت وہ کمپنی کی ڈائریکٹر تھیں۔

کمپنی کےدوسرے بانی ڈائریکٹر بھٹاچاریہ کو اکتوبر 2021 میں بی جے پی کےآسام کسان مورچہ کا نائب صدر بنایا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے خاندان کے ایک قریبی شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی وائر سے ان کا تعارف ‘ایچ پی ایس’کے غیر سرکاری پرسنل اسسٹنٹ کے طور پر دیا۔

ایچ بی ایس ہمنتا بسوا شرما کا مخفف ہے۔ اسی شخص کا دعویٰ ہے کہ کمپنی کے نام کا آر بی ایس شرما کی بیوی کامخفف ہے۔

رنجیت بھٹاچاریہ کو آسام بی جے پی کے کسان مورچہ کا نائب صدر بنانے کاخط۔

رنجیت بھٹاچاریہ کو آسام بی جے پی کے کسان مورچہ کا نائب صدر بنانے کاخط۔

آر ایس ایف کے’ہو اونس دی میڈیا’سروے کے مطابق بھٹاچاریہ کے پاس شرما خاندان سے منسلک ایک میڈیا کمپنی میں13.2 فیصدی  شیئرز بھی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ان سے ان کا رشتہ بھی ہو:پرائیڈ ایسٹ انٹرٹینمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کی ایم جی ٹی-7 فائلنگ کے مطابق رنجیت بھٹاچاریہ مرنالنی دیوی(شرما کی والدہ)اور کیلاش ناتھ شرما (شرما کے والد)کےساتھ ہندو غیرمنقسم خاندان کےتحت درج ہیں- جس کا مطلب ہے کہ وہ شرما خاندان کے رشتہ دار ہیں۔ رنجیت بھٹاچاریہ کے بارے میں مزید معلومات حاصل نہیں ہو پائی ۔

دلچسپ طریقےسےآر بی ایس رئیلٹرز کے ذریعےخریدی گئی حدبندی سے بچی رہ گئی (سیلنگ سرپلس)زمین بونگورا گاؤں میں آسام حکومت کے ٹیک سٹی پروجیکٹ کے بغل میں ہے، جو گوہاٹی کے باردولی انٹرنیشنل ہوائی اڈے کے کافی قریب ہے۔

ہوائی اڈے کےقریب زیر تعمیر ٹیک سٹی کا تصور ریاستی حکومت کی  ملکیت والی آسام الکٹرانکس ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ نے پورے نارتھ-ایسٹ اور آسیان میں اپنی نوعیت کےاکلوتے الکٹرانکس اور آئی ٹی مرکز کے طور پر پیش کیا ہے اور یہ حکومت ہند کی لک ایسٹ پالیسی سےمتعلق ہے۔

گزشتہ ماہ دی وائر اور دی کراس کرنٹ کے نامہ نگاروں نے بونگورا کے دورے کے دوران پایا کہ ٹیک سٹی اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹکنالوجی-آئی آئی ٹی  کے بیچ  واقع زمین کے ایک حصے پر تعمیرات  کا کام جاری ہے۔

ٹیک سٹی کے قریب جاری تعمیراتی کام ۔

ٹیک سٹی کے قریب جاری تعمیراتی کام ۔

سرکاری پورٹل سے ملی جانکاری کی بنیاد پرکمپنی کےذریعے خریدی گئی حد بندی سرپلس زمین کا داگ نمبر دکھائے جانے پرایک مقامی لینڈ افسر نے زیر تعمیر علاقے کو اسی زمین کا حصہ بتایا۔ ان کے دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں جا سکی ہے۔

حالاں کہ کمپنی- شرما کی بیوی جس کی ایک بانی ڈائریکٹر ہیں-کے ذریعے حد بندی سرپلس (سیلنگ سرپلس)زمین کی خریداری حکومت کی طرف سے زمین کے الاٹمنٹ کے لیے مقرر ہ دس سالہ لاک ان کی شرط کی خلاف ورزی تھی، پھر بھی محکمہ اراضی نے کمپنی اور اس کے ڈائریکٹر رنجیت بھٹاچاریہ کے نام پرپلاٹ  رجسٹری کردی  تھی۔

شمالی گوہاٹی میں پہلےبھی خریدی گئی زمین

آسام حکومت کےپورٹل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اسی کمپنی، آر بی ایس رئیلٹرز نے 2006 میں بنیادی طور پرشمالی گوہاٹی میں فلاحی اداروں کو الاٹ دو پلاٹوں کو خریدا۔

حکومت کے قوانین کے مطابق، اداروں/فارموں کو الاٹ کی گئی زمین کسی پرائیویٹ شخص یا پرائیویٹ کمپنی کو فروخت نہیں کی جا سکتی اور ایسا کرنا غیر قانونی ہو گا۔

اس کے علاوہ، جن لوگوں کو یہ زمین اصل میں الاٹ کی گئی تھی، وہ اگردرخواست میں مذکور مقصد کے لیےاس کااستعمال نہیں کرتے ہیں توتین سال کے اندر وہ زمین واپس حکومت کے پاس چلی جائے گی۔

سرکاری اراضی کےریکارڈ کے مطابق، ان قوانین کے باوجود، شمالی گوہاٹی میں 17 بیگھہ، 2 کٹھہ اور پانچ لسہ (462303 مربع فٹ یا 10.6 ایکڑ) سرکاری زمین آر بی ایس رئیلٹرزکے پاس چلی گئی۔

شرما خاندان مسلسل آر بی ایس ریئلٹرز کے  مالک میں رہا

کارپوریٹ امور کی مرکزی وزارت کے پاس کمپنی کی فائلنگس میں، جو کہ دی وائر اور دی کرس کرنٹ کے پاس ہیں، آر بی ایس رئیلٹرز کی شمولیت23 جون 2006 کو رینیکی بھویاں شرما اور رنجیت بھٹاچاریہ کے ذریعے کی گئی، دونوں کے پاس ایک روپے کے50000ایکوئٹی شیئر تھے۔

فائلنگس کے مطابق، ان دونوں کے شیئر مل کر کمپنی کے 65.78 فیصد ایکویٹی شیئر تھے۔ شرما اور بھٹاچاریہ کمپنی کے پہلے ڈائریکٹر بھی تھے۔

آر بی ایس رئیلٹرز کی شمولیت کا سرٹیفکیٹ۔

آر بی ایس رئیلٹرز کی شمولیت کا سرٹیفکیٹ۔

مالی سال 2007 کے لیےآر بی ایس کی سالانہ فائلنگ کےمطابق اپنے پہلے مالی سال میں اس نے چھ مختلف کمپنیوں کو ایکویٹی شیئرز جاری کیے، اور ان سب نے کمپنی میں ایک حصہ داری خریدی۔یہ کمپنیاں تھیں: ڈنگو کوموڈیل پرائیویٹ لمیٹڈ؛ ایلی گینس ٹریڈ اینڈ ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ؛اولینڈر مینوفیکچررز اینڈ کریڈٹ پرائیویٹ لمیٹڈ؛ ایکولیک وینیمیہ پرائیویٹ لمیٹڈ، پرکھر ویاپے پرائیویٹ لمیٹڈاورمینک ٹائی اپ پرائیویٹ لمیٹڈ۔

سال 2008 میں چار اور کمپنیوں نے اس کی حصہ داری خریدی- ہراللکا کمرشیل پرائیویٹ لمیٹڈ؛ یولان مارکیٹنگ پرائیویٹ لمیٹڈ؛ سبریکھا ویاپارپرائیویٹ لمیٹڈ؛ اور چھتیس گڑھ بیربی پٹا پرائیویٹ لمیٹڈ۔

سال 2009 میں، سات اور کمپنیوں نے اس میں سرمایہ کاری کی-آچی فنانسیل اینڈ مینجمنٹ کنسلٹنسی پرائیویٹ لمیٹڈ، نیلہٹ پروموٹرز اینڈ فسکل پرائیویٹ لمیٹڈ، ریڈینٹ مرچنڈائز پرائیویٹ لمیٹڈ، ایس کے اسٹاک ڈیلرز پرائیویٹ لمیٹڈ؛شبھ لکشمی کول اینڈ ایگزم پرائیویٹ لمیٹڈ،سلو اینڈ ساؤنڈ الکٹرانکس پرائیویٹ لمیٹڈاور ترساگرر ایجنسیز پرائیویٹ لمیٹڈ۔

کمپنی کی بیلنس شیٹ سے پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 2009 تک کل 17 کمپنیوں نے آر بی ایس رئیلٹرز میں حصہ داری  خریدی تھی۔ ان کمپنیوں کے خریدے گئےشیئر 100 روپےکے فیس ویلیو کے تھے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان کے پاس کتنےووٹنگ حقوق تھے۔

قابل ذکر ہے کہ9 جون 2009 کو، رینیکی بھویاں شرما نے آر بی ایس رئیلٹرز کے ڈائریکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔اسی دن گوہاٹی کے فینسی بازار کے ایک تاجر اشوک کمار دھانوکا نےان کی جگہ لی، انہیں وزیر اعلیٰ شرما کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔

دھانوکا ڈائریکٹر بھلےبن چکے ہوں، لیکن کارپوریٹ امور کی مرکزی وزارت مین جمع فائلنگس کے مطابق ان کے پاس کوئی شیئر نہیں ہے۔

سال 2009 اور 2010 کے بیچ ایک کو چھوڑ کر تمام شیئر ہولڈرز نےنئے لوگوں کو اپنے شیئر کو منتقل کر دیے۔ لیکن بھٹاچاریہ ایک شیئر ہولڈر اور ڈائریکٹر بنےرہے۔ اب نئے شیئر ہولڈرزتھے- سنجیب ورما، دیپنیتا شرما گنا، تامولی پھوکن، اجیت شرما، بھاسکر شرما، مدن چندر شرما، جینا دیوی، بلو دیوی اور دیپانکر شرما۔

جب کہ تامولی پھوکن ہمنتا بسوا شرما کی بیوی کے ماموں ہیں،وہیں جینا دیوی نئے شیئر ہولڈر بھاسکر شرما کی بیوی ہیں۔ بھاسکر شرما کا تعارف یہ ہے کہ وہ شرما خاندان کے کے ذریعے چلائی جانے والی ایک اور کمپنی پرائیڈ ایسٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹر ہیں، جو آسامی نیوز چینل نیوز لائیو چلاتے ہیں۔

آرایس ایف کے ‘ہو اونس دی میڈیا سروے’میں کہا گیا تھا، پرائیڈ ایسٹ انٹرٹینمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کی ایم جی ٹی7- فائلنگس کے مطابق، بھاسکر شرما کا نام رینیکی بھویاں شرما اور اتانو بھویاں کے ساتھ بطور پروموٹر ہندو غیر منقسم خاندان میں شامل ہے – اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہےکہ وہ شرما خاندان کے رکن ہیں۔

بھاسکر شرما کے بھائی سنجیب شرما کا نام بھی آر بی ایس رئیلٹرز کے نئے شیئر ہولڈرز میں شامل ہے۔ چونکہ والد/شوہر کے نام کے کالم میں جینا دیوی، بلو دیوی اور دیپانکر شرماکے ذریعےمدن چندر شرما کا نام  درج ہے، اس لیے یہ واضح ہے کہ یہ شیئر ہولڈر ایک اور نئے شیئر ہولڈر مدن چندر شرما کے خاندان کے رکن ہیں، جو پرائیڈ ایسٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹر بھاسکر شرما کے سسر ہیں۔

آر بی ایس کا نام بدل کر ہواوششٹھ

نئے شیئر ہولڈرز کے آنے کے فوراً بعد، آر بی ایس رئیلٹرز نے نام بدلنے کے لیے درخواست دی اور اپنا نام پھر سے وششٹھ ریئلٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ کے طور پرکرایا۔ لیکن  کارپوریٹ کی مرکزی وزارت کے دستاویزوں میں ان دونوں کمپنیوں کا سی آئی این نمبر ایک ہی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں دراصل ایک ہی کمپنی ہیں۔

کمپنی کے ریکارڈ کے مطابق، 2017 میں وششٹھ رئیلٹرز کے 100 روپے کے فیس ویلیو شیئرزکے23.61 فیصدشیئر رینیکی بھویاں شرما کی والدہ اور وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کی ساس مینابھویاں کو منتقل کیے گئے ۔

شرما کے بیٹے نندیل بسوا کے بالغ ہونے کے صرف 18 دن بعد،16 ستمبر 2019 کو مینا بھویاں نے اپنے شیئر انہیں منتقل کر دیے۔اس طرح سےمالی سال 2020 تک چیف منسٹر کے بیٹے کے پاس کمپنی کے 100 روپے والے شیئرز کے23.61 فیصد شیئرز ہیں، جو کمپنی کے جاری کردہ تمام ایکویٹی شیئرز کا 15.9 فیصد ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ وششٹھ رئیلٹرز کا ایک بڑا حصہ دار– اور مانا جاسکتا ہے کہ مشتبہ طریقے سے حد بندی سرپلس والی سرکاری زمین کی خریداری کا ایک بڑا فائدہ اٹھانے والا – وزیر اعلیٰ کا بیٹا نندیل بسوا شرما ہے۔

مجموعی طور پر وزیر اعلیٰ بسوا شرما کے بیٹے کی کمپنی کے مالکانہ حق سرکاری زمین کا رقبہ 29 بیگھہ، 9 لسہ (یعنی 784296 مربع فٹ یا 18 ایکڑ)ہے، جبکہ یہ زمین بے زمین لوگوں اور ضرورت مندوں کوالاٹ کرنے کے لیےتھی۔اس میں شہر کے قریب بیش قیمتی زمین11 بیگھہ، دو کٹھہ اور 4 لسہ یعنی 300318 مربع فٹ یا 6.89 ایکڑ ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخرآر بی ایس رئیلٹرز کو ایک پرائم لوکیشن پر دو سیٹ سرکاری اراضی حاصل کرنے میں کامیابی کیسے ملی، حالانکہ وہ اس زمین کوحاصل کرنے کی حقدار نہیں تھی؟

گوہاٹی میں پہلے عہدیداروں نے فلاحی الاٹمنٹ کی سفارش کی، بعد میں آر بی ایس میں نے زمین خریدی

آر بی ایس رئیلٹرز نے 27 دسمبر 2006 اور 20 اگست 2007 کو یعنی شرما کی بیوی کےبانی ڈائریکٹررہتے ہوئےکمپنی کی شمولیت کے محض ایک سال بعد شمالی گوہاٹی میں سیلا سیندرگوفا موضع میں دو پلاٹوں کی  خریداری کی۔

آسام حکومت کے لینڈ پورٹل کے مطابق، نامالی جلاہ گاؤں (پٹہ نمبر 96، داگ نمبر 464) میں7 بیگھہ، دو کٹھہ اور پانچ لسہ ذخائر کے ساتھ فری ہولڈ زمین 10 اگست 2006 کو ریونیو ڈپارٹمنٹ کے ذریعے اُدیون فشری ڈیولپمنٹ فارم کے صدر رمیش چندر مہنتھا کو الاٹ کی گئی۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق،فشریز فارم کو یہ زمین 24 اپریل 2006کے ریاستی حکومت کےمحکمہ محصولات کی سفارش پر الاٹ کی گئی تھی۔اس خط پر ایڈیشنل ڈائریکٹر، منسٹری آف ریونیو، کامروپ دیہی ضلع کے حکم سے (11 اگست 2006) کو مہر لگائی گئی۔ مہنتھا نے اس زمین کے لیے787217 روپے ادا کیے تھے۔

حالاں کہ آسام کے اراضی قوانین کے مطابق، حکومت کےذریعےسرکاری اداروں اور عوامی بہبود کے اداروں/ فارمز وغیرہ کو دی گئی زمین کی نجی افراد یا نجی کمپنیوں کے ذریعے فروخت یا خریداری نہیں جاسکتی ہے، لیکن اُدیون فشری ڈیولپمنٹ فارم نے اپنا پلاٹ آر بی ایس رئیلٹرز کو 27 دسمبر 2006 کو فروخت کردیا اور وہ بھی اسے ملنے کے صرف چار ماہ بعد۔

یہ لین دین جس سال کیا گیا(مالی سال 2007)اس مالی سال کے لیےآر بی ایس ریئلٹرز کی بیلنس شیٹ میں غیر منقولہ جائیداد کےتحت 38.04 لاکھ روپے کی زمین درج ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کیا یہ پلاٹ کے لیے کمپنی کی طرف سےادا کی گئی قیمت کو ظاہر کرتا ہے یا اس کے بک ویلیو کو دکھاتا ہے۔

تقریباً 7 ماہ بعد- 20 جولائی 2007 کو – آر بی ایس رئیلٹرز نے شمالی گوہاٹی کے اسی گاؤں میں ادارہ جاتی زمین کا ایک اور پلاٹ خریدا۔

سرکاری ریکارڈ کےمطابق یہ زمین10بیگھہ(270000 مربع فٹ یا 6.19 ایکڑ)ہے۔یہ آبی ذخائر سے ملی ہوئی زرعی زمین ہے (پٹہ نمبر 97، داگ نمبر 466)۔ دونوں ہی پلاٹوں کی زمین کی لیز اور داگ نمبر سے پتہ چلتاہے کہ دونوں ہی پلاٹ ایک دوسرے سے ملحق ہیں۔

سرکاری لینڈ پورٹل کے مطابق، یہ دوسرا پلاٹ بنیادی طور پرادارہ جاتی/فلاحی استعمال کے لیے جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا اسی ڈھنگ سے الاٹ کی گئی تھی۔ ڈسٹرکٹ ریونیو آفس کے اسی ایڈیشنل ڈائریکٹر کے جاری کردہ حکم ( مورخہ 30 اگست 2006)اور ریاستی حکومت کے محکمہ ریونیو کے خط کی سفارش کی بنیاد پر یہ زمین 23 اگست 2006 کو ویلفیئر ایکٹیویٹی اسکول کو الاٹ کی گئی۔

حالاں کہ سرکاری پورٹل پر اسکول کے کسی عہدیدار کے  نام کا ذکرنہیں ملتا، لیکن اس میں یہ ضرور لکھا ہواہے کہ سرکاری زمین کے الاٹمنٹ کے لیے اسکول نے25 لاکھ روپے ادا کیے تھے۔

نتیجہ کے طور پر کہاجائے تو ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ شمالی گوہاٹی میں زمین کے دونوں پلاٹ بنیادی طور پرحکومت کی طرف سے اگست 2006 میں ادارہ جاتی/فلاحی مقاصد کے لیے الاٹ کیے گئے تھے۔ اور دونوں  ہی زمین کو دسمبر 2006 اور اگست 2007 کے درمیان آر بی ایس رئیلٹرز نے خریدا تھا- اس دوران شرما کی بیوی رینیکی بھویاں شرما کمپنی کی بانی ڈائریکٹر تھیں۔

سرکاری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ان  پلاٹوں کی  رجسٹری رنجیت بھٹاچاریہ کے نام پر کی گئی ، جو رئیل اسٹیٹ کمپنی آر بی ایس رئیلٹرزکے دوسرے بانی ڈائریکٹر تھے۔

مالی سال08 کے لیےکمپنی کی بیلنس شیٹ میں فکسڈ اثاثہ جات کے تحت 58.07 لاکھ قیمت کی زمین کا ذکر ملتا ہے، حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ ایک سال پہلے کے مقابلے زمین کی قیمت میں(38.4 لاکھ سے)یہ اضافہ زمین کی قیمتوں میں ہونے والا عام اضافےکی وجہ سے تھایا نئی زمین کی خریداری کی وجہ سے۔

مالی سال 2010 کے بعد کمپنی نے ‘غیر منقولہ جائیداد’ کے تحت کسی زمین کا ذکر  چھوڑ دیا۔ اس کی وجہ صاف نہیں ہے اور متعلقہ حکام کو بھیجے گئے سوالنامے کا اس رپورٹ کی اشاعت تک کوئی جواب نہیں آیا تھا۔

اسی طرح سےمالی سال 20 کی بیلنس شیٹ میں کمپنی کے جسمانی اثاثے کےطور پر4.17 مالیت کے دفتری جگہ کا ذکر ہے، لیکن یہ صاف نہیں ہے کہ یہ مذکورہ زمین پر تیار کیے جارہے کامرشیل ڈیولپمنٹ کا حصہ ہے۔

شرما لینڈ ایڈوائزری کمیٹی کے سابقہ رکن تھے

آر بی ایس ریئلٹرز کے ذریعےدونوں پلاٹوں کی خریداری سرکاری ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئےکی گئی، لیکن یہ حقیقت کہ جنہیں بنیادی طور پران پلاٹوں کا الاٹمنٹ ہوا تھا، انہیں یہ زمین دلانے میں شرما کا کردار ہو سکتا ہے، جو  اس منتقلی میں غیر اخلاقی حرکت کی ایک اور پرت کااضافہ کرتا ہے۔

ایسے اداروں/فارموں کو زمین الاٹ کرنے کی سفارش کی شروعات سب ڈویژنل لینڈ ایڈوائزری کمیٹیوں سے ہوتی ہے، جس میں وہاں کےمقامی ایم ایل اے سابقہ رکن ہوتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں، جلوکباری اسمبلی کے ایم ایل اے کے طور پر،جس میں شمالی گوہاٹی بھی شامل ہے، ہمنتا بسوا شرما بھی دونوں بنیادی سفارشات کا حصہ تھے- جس نے اپنی بیوی کے ذریعہ چلائی جانے والی کمپنی کےلیے زمین کی خریداری کی راہ ہموار کی۔

کامروپ کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں دی کراس کرنٹ کی طرف سے دائر کی گئی ایک آر ٹی آئی، جس میں ادیون فشری ڈیولپمنٹ فارم اینڈ ویلفیئر ایکٹیویٹی اسکول کو زمین الاٹ کرنے کا فیصلہ کرنے والی بیٹھک کی منٹس کی کاپی مانگی گئی تھی، کویہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا گیا کہ اس میٹنگ کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔

بونگورا میں زمین کی الاٹمنٹ کے بعد آر بی ایس رئیلٹرز کے ذریعے زمینوں کی خریداری کاسلسلہ

عوامی طور پر دستیاب دستاویزوں کے مطابق، آر بی ایس رئیلٹرز نے ٹیک سٹی کے قریب بونگورا گاؤں میں سوئیآنی موضع کی حدبندی سرپلس زمین سے زرعی زمین کے سات بلاک کی خریداری کی۔ ان زمینوں کے پٹہ اور داگ نمبر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پلاٹ ایک دوسرے سے ملحق ہیں۔

دی وائر اینڈ کراس کرنٹ کے ذریعے دیکھے گئے اراضی  ریکارڈ کے مطابق، مانک تعلقدار کی بیوہ لال موتی تعلقدار کو کامروپ ضلع انتظامیہ کےآرڈر(25 نومبر 2008 کو)کےمطابق سات بیگھہ،12 لسہ زمین(پٹہ نمبر 367، داگ نمبر 1549 11241542154415451546)زمین الاٹ کی گئی ۔

الاٹمنٹ کی شرائط میں واضح طور پر لکھا ہے کہ الاٹ کی گئی حد بندی سرپلس زمین کسی دوسری پارٹی کوکم از کم دس سال تک فروخت نہیں کی جا سکتی۔ اس کے باوجود دو ماہ گزرنے سے پہلے ہی 28 جنوری 2009 کواس   زمین کی رجسٹری آر بی ایس رئیلٹرز کے نام پرکردی گئی- جو کہ تعلقدار کو یہ زمین الاٹ کرنے کی شرائط کی صریح خلاف ورزی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ 25 نومبر 2008 کو ایک اور حد بندی والی13 لسہ زمین(1872 مربع فٹ)بسنتا ناتھ کو الاٹ کی گئی۔سرکاری پورٹل میں واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ زمین(پٹہ نمبر 372، داگ نمبر 1547)دس سال کی لاک ان مدت پوری ہونے سے پہلے کسی اور کو فروخت نہیں کی جا سکتی۔

لیکن سابقہ معاملوں کی طرح یہ  زمین غیر قانونی طور پر آر بی ایس رئیلٹرز کو تین ماہ سے بھی کم کےعرصے میں فروخت کر دی گئی۔ 28 جنوری 2009 کو اس زمین کی رجسٹری آر بی ایس ریئلٹرز کے ڈائریکٹر رنجیت بھٹاچاریہ کے نام کردی گئی۔

پہلے والےمعاملے کی طرح ان دونوں پلاٹوں کی رجسٹری کمپنی کے ڈائریکٹر بھٹاچاریہ کو رینیکی بھویاں کے ڈائریکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دینے سےتقریباً تین ماہ قبل کردی گئی۔ دونوں رجسٹریوں کی رسمی کارروائیاں ایک ہی دن مکمل کی گئیں۔

اسی گاؤں کی تیسری زرعی زمین(پٹہ نمبر 378، داگ نمبر: 78378411241126)دو بیگھہ اور آٹھ لسہ (55152 مربع فٹ)کی ہے۔ پہلے کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی تاریخ (25 نومبر 2008)کو ریاستی ریونیو ڈپارٹمنٹ کے آرڈر سے حدبندی سرپلس زمین ستیہ تعلقدار کو الاٹ کردی گئی۔

لیکن28 جنوری 2009 کوتین کٹھہ13 لسہ(5760 مربع فٹ)زمین آر بی ایس رئیلٹرز کے ڈائریکٹر رنجیت بھٹاچاریہ کو منتقل کر دی گئی۔ یہ ٹرانسفر بھی شرما کے ڈائریکٹر رہتے ہی ہوا۔

رینیکی بھویاں شرما ایک تقریب میں رنجیت بھٹاچاریہ کے ساتھ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

رینیکی بھویاں شرما ایک تقریب میں رنجیت بھٹاچاریہ کے ساتھ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

زرعی زمین کے چوتھے پلاٹ (پٹہ نمبر 368، داگ نمبر 1543)کا سائزتین بیگھہ، دو کٹھہ اور 13 لسہ (785320 مربع فٹ)ہے۔

ریاست کے ریونیو ڈپارٹمنٹ نےیہ پلاٹ بھوگی ناتھ تعلقدار کی بیوہ راجوبالا تعلقدار کو 25 نومبر 2008 کے آرڈر کے مطابق الاٹ کردیا۔ لیکن یہ پورا پلاٹ، جو بے زمین لوگوں اور ضرورت مندوں کے لیے تھا، 24 جنوری 2009 کو آر بی ایس ریئلٹرز کے رنجیت بھٹاچاریہ کو منتقل کر دیا گیا۔

ریاستی حکومت کی ہدایات کے مطابق ضلع انتظامیہ کے ذریعے19مارچ 2009 کو ایک بیگھہ، تین کٹھہ اور 15 لسہ (33048 مربع فٹ)کا ایک اور پلاٹ بیکسائے ناتھ نام کے ایک اور شخص کو الاٹ کیا گیا۔ اس میں سے دو کٹھہ اور 15 لسہ(5752 مربع فٹ)زمین آر بی ایس رئیلٹرز نے خریدی۔

دس دسمبر 2009 کو اس زمین کی رجسٹری کمپنی کے ڈائریکٹر رنجیت بھٹاچاریہ کے نام کردی گئی۔ حالاں کہ یہ زمین آسام حکومت نے متعلقہ شخص کو اس وقت الاٹ کیا جب شرما کی بیوی کمپنی کی ڈائریکٹر تھیں، لیکن یہ پلاٹ کمپنی نے ڈائریکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے چھ ماہ بعد خریدی۔

دو کٹھہ اور 15 لسہ(4752 مربع فٹ)کا چھٹا پلاٹ بیلی رام تعلقدار کو 19 مارچ 2019 کو الاٹ کیا گیا۔ 10 دسمبر 2009 کو اس زمین کی رجسٹری بھی آر بی ایس ریئلٹرز کے ڈائریکٹر بھٹاچاریہ کے نام کر دی گئی۔

ساتواں پلاٹ اسی گاؤں کے نوبن ناتھ کو الاٹ کیاگیا۔ انہیں3 نومبر 2009 کو ایک کٹھہ اور 11 لسہ (2880 مربع فٹ)زمین دی گئی، اسی شرط کے ساتھ کہ وہ  10 سال کے لاک ان پیریڈ کو مکمل کیے بغیر کسی کو فروخت نہیں کر سکتے۔ لیکن بہ مشکل ایک مہینہ گزرنے کے بعد 14 دسمبر 2009 کو اس نے یہ زمین آر بی ایس رئیلٹرز کو بیچ دی۔

مذکورہ بالامعاملے کی طرح زمین کی یہ منتقلی بھی شرما کی بیوی کی کمپنی کے ڈائریکٹر کا عہدہ چھوڑنے کے بعدکی گئی۔

منتقلی کی غیر معمولی رفتار سے ملتا ہےانتظامیہ کی ملی  بھگت کا اشارہ

ان تمام پلاٹوں کے بارے میں ریاستی حکومت کے دھریتری پورٹل کا کہنا ہے کہ الاٹ کی گئی زمین10 سالوں تک کسی کو فروخت  کی جا سکتی ہے،نہ کسی اور کا اس پر قبضہ ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود رینیکی بھویان کی کمپنی نے اصل الاٹمنٹ کے چند ماہ کے اندر یہ زمینیں خرید لیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ لوگوں کو زمین فراہم کرنے والی ضلع انتظامیہ کےچار احکامات ایک ہی تاریخ یعنی 25 نومبر 2008 کو دیے گئے ۔اسی طرح ان میں سے تین پلاٹوں کی کمپنی اور اس کے بانی ڈائریکٹر کے نام پر ایک ہی تاریخ یعنی28 جنوری 2009 کو رجسٹری  کی گئی ، جبکہ ایک پلاٹ چار دن پہلے 24 جنوری 2009 کو رجسٹری  کی گئی۔

اسی طرح سےباقی بچی ہوئی تین حد بندیوں سرپلس زمینوں میں سے دو کی کمپنی کے نام رجسٹری ایک ہی دن 12 دسمبر 2009 کو کی گئی اور باقی ایک کی رجسٹری دو دن بعد 14 دسمبر 2009 کو کی گئی۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک ہی تاریخ کو ریاستی حکومت نے حد بندی سرپلس زمین میں سے 9 بیگھہ، چار کٹھہ اور 10 لسہ زمین (249624 مربع فٹ) چار لوگوں کو الاٹ کی۔

چند ہفتوں کے اندر ہی یہ زمین آر بی ایس رئیلٹرز کی ملکیت ہو چکی تھی۔اس وقت تک شرما کی بیوی بانی ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ یہ تمام پلاٹ یا تو کمپنی یا رنجیت بھٹاچاریہ کے نام پر رجسٹری کی گئی ۔

چونکہ2006 کےاسمبلی انتخابات کےلیے کانگریس امیدوار کےطور پر شرما کا اثاثہ سےمتعلق حلف نامہ 16 مارچ 2006 کو داخل کیا گیا تھا، اور آر بی ایس رئیلٹرز کی  شمولیت اسی سال 23 جون کو ہوئی ، اس لیے کمپنی میں ان کی شیئر ہولڈنگ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

حالاں کہ، اس حلف نامے میں ان کی اہلیہ کے پاس شمالی گوہاٹی میں سیلا موضع کے تحت سلاما کھٹی میں 5 بیگھہ، دو کٹھہ اور 11 لسہ زرعی زمین کا ذکر ہے۔

جب انہوں نے 2011 کے اسمبلی انتخابات کے لیے اپنا انتخابی حلف نامہ داخل کیا ،تب اس میں ان کی اہلیہ کے پاس کوئی زرعی اراضی ہونے کا ذکر نہ ہوکرغیر فہرست شدہ کمپنی میں شیئر(29 لاکھ)ہونے کا ذکر تھا۔

سال 2016 اور 2021 کے حلف ناموں میں بھی ان کی اہلیہ کے نام پر کسی زرعی زمین کا ذکر نہیں ہے، حالانکہ غیر فہرست شدہ کمپنیوں کے شیئرزان کی اہلیہ کے پاس ہونے کا ذکر ضرورہے۔ شرما کے2021 کے حلف نامے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی اہلیہ کے پاس 2 کروڑ روپے کے شیئرزہونے کا ذکر ہے۔ڈیپنڈنٹ 3میں 7 کروڑ کی قیمت کے برابر کےشیئر کا ذکر ہے۔


دی وائر اور دی کراس کرنٹ نے رینیکی بھویاں شرما اور رنجیت بھٹاچاریہ اور وششٹھ ریئلٹرز کو الگ الگ سوالنامے بھیجے ہیں۔ اس رپورٹ کی اشاعت تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔آپ یہاں ان سوالوں  کو ملاحظہ کر سکتے ہیں:

پہلا: بنام ڈسٹرکٹ کمشنر ،کامروپ

بخدمت،

نوڈل آفیسر/ضلع کمشنر

کامروپ

دی وائر(ڈبلیو ڈبلیوڈبلیو ڈاٹ دی وائرڈاٹ ان) دہلی واقع ایک ڈیجیٹل نیوز پورٹل ہے، جو انگریزی، ہندی، اردو اور مراٹھی میں شائع ہوتا ہے۔گوہاٹی واقع آسامی نیوز پورٹل دی کراس کرنٹ(ڈبلیو ڈبلیوڈبلیو ڈاٹ دی کراس کرنٹ ڈاٹ کام) کے ساتھ مل کر دی وائر عوامی ریکارڈ کی بنیاد پرکامروپ ضلع میں زمین کی خریداری پرایک نیوز رپورٹ کر رہا ہے۔

اس سلسلے میں ہم آپ سے ضلع کے نوڈل افسر کی حیثیت کےطور پرچند سوالات کے جوابات چاہتے ہیں۔

‘آسام گورنمنٹ لینڈ پالیسی-1989’کےاہتماموں کےتحت ریاستی حکومت کے ذریعےسرکاری اداروں/فلاحی تنظیموں کو دی گئی زمینوں کوکبھی بھی نجی افراد یا کمپنیوں کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ کیایہ درست ہے؟

کیا یہ درست ہے کہ شمالی گوہاٹی کے نمالی جھالا گاؤں میں محکمہ ریونیو کے ذریعےسات بیگھہ، دو کٹھہ اور پانچ لسہ ادارہ جاتی زمین ادیون فشری ڈیولپمنٹ فارم کو الاٹ کی گئی؟ کیا 1989 اور 2007 کے بیچ ‘آسام حکومت کی لینڈ پالیسی-1989’میں کوئی تبدیلی ہوئی؟

کیا اس 7 بیگھہ اراضی کا کوئی حصہ یا پوری زمین ادیون فشری ڈیولپمنٹ فارم کو الاٹ کرنے کے بعد کسی نجی کمپنی یا شخص کو منتقل یا فروخت کی گئی ؟ اگر ایسا ہے تو کس کو اور کب؟

کیا اس زمین کا کوئی حصہ آر بی ایس رئیلٹرز نے خریدا، اگر ہاں تو، کب اور کس طرح سے؟

کیااگست 2006 میں شمالی گوہاٹی کے نمالی جھالا گاؤں کی دس بیگھہ زمین مذکورہ پالیسی کے تحت ایک ‘ویلفیئر ایکیٹویٹی اسکول کو الاٹ کی گئی؟

کیا 7 بیگھہ، 12 لسہ زرعی زمین کامروپ ضلع کے بونگورا گاؤں میں مانیکا تعلقدار کی بیوہ لال موتی تعلقدار کو کامروپ ضلع کےانتظامیہ کے افسران کے آرڈر(25 نومبر 2008)کے تحت الاٹ کی گئی، جس میں یہ شرط  شامل تھی کہ اسے دی گئی زمین دس سالوں تک کسی کو نہیں بیچی جا سکتی؟

کیاالاٹمنٹ کے دس سال کے اندر یہ زمین کسی نجی شخص یا کمپنی کو فروخت کی گئی؟ کیا یہ زمین 28 جنوری 2009 سے آر بی ایس رئیلٹرز کے نام پر رجسٹرڈ ہے؟

اسی گاؤں میں 25 نومبر 2008 کو تقریباً 13 لسہ زمین بسنتا ناتھ کواس شرط کے ساتھ الاٹ کی گئی کہ یہ زمین دس سالوں تک کسی کو فروخت نہیں کی جا سکتی؟ کیا یہ زمین آر بی ایس رئیلٹرز کو فروخت کی گئی تھی؟ اگر ہاں تو کیسے اور کب؟

اسی گاؤں میں25 نومبر 2008 کو تقریباً دو بیگھہ اور آٹھ لسہ زمین ستیہ تعلقدار کو الاٹ کی گئی، اس شرط کے ساتھ کہ یہ الاٹمنٹ کے وقت سے دس سال تک کسی کو فروخت نہیں کی جا سکتی۔ کیایہ  زمین آر بی ایس رئیلٹرز کو فروخت کی گئی تھی؟ اگر ہاں، توکب؟

اسی گاؤں میں25 نومبر 2008 کو تقریباً تین بیگھہ، دو کٹھہ اور 15 لسہ زمین راجوبالا تعلقدار کو الاٹ کی گئی، اس شرط کے ساتھ کہ الاٹمنٹ کے وقت سے دس سال تک اسے کسی کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ کیا زمین آر بی ایس رئیلٹرز کو فروخت کی گئی تھی؟ اگر ہاں، تو کب؟

اسی گاؤں میں19 مارچ 2009 کو تقریباً ایک بیگھہ تین کٹھہ 15 لسہ زمین بیکسائے ناتھ کو الاٹ کی گئی، اس شرط کے ساتھ کہ الاٹمنٹ کے وقت سے دس سال تک اسے کسی کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ کیا یہ زمین آر بی ایس رئیلٹرز کو فروخت کی گئی تھی؟ اگر ہاں، تو کب؟

اسی گاؤں میں19 مارچ 2009 کو تقریباً دو کٹھہ اور 15 لسہ زمین بیلی رام تعلقدار کو اس شرط کے ساتھ الاٹ کی گئی کہ الاٹمنٹ کے وقت سے دس سال تک اسے کسی کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ کیا یہ زمین آر بی ایس رئیلٹرز کو فروخت کی گئی تھی؟ اگر ہاں، تو کب؟

اسی گاؤں میں19 مارچ 2009 کو نوبن ناتھ کو تقریباً ایک کٹھہ اور 11 لسہ زمین الاٹ کی گئی، اس شرط کے ساتھ کہ الاٹمنٹ کے وقت سے دس سال تک اسے کسی کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ کیایہ زمین آر بی ایس رئیلٹرز کو فروخت کی گئی؟ اگر ہاں، توکب؟

دوسرا:  وششٹھ رئیلٹرز کے نام

بخدمت،

ڈائریکٹرز، آر بی ایس ریئلٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ/وششٹھ ریئلٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ

دی وائر(ڈبلیو ڈبلیوڈبلیو ڈاٹ دی وائرڈاٹ ان) دہلی واقع ایک ڈیجیٹل نیوز پورٹل ہے، جو انگریزی، ہندی، اردو اور مراٹھی میں شائع ہوتا ہے۔گوہاٹی واقع آسامی نیوز پورٹل دی کراس کرنٹ(ڈبلیو ڈبلیوڈبلیو ڈاٹ دی کراس کرنٹ ڈاٹ کام) کے ساتھ مل کر دی وائر عوامی ریکارڈ کی بنیاد پرآر بی ایس ریئلٹرز کمپنی کے ذریعےشمالی گوہاٹی میں(ادارہ جاتی)اور کامروپ ضلع میں گوہاٹی ہوائی اڈے کے قریب بونگورا گاؤں میں 2006-2007 اور 2009 کے بیچ(حد بندی سرپلس) کےقریب 18 ایکڑ زمین خریدنے کو لے کرایک نیوز رپورٹ کر رہا ہے۔

اس سلسلے میں، ہمارے پاس کمپنی کے لیے ایک سوالنامہ ہے، جس کا نام بعد میں کارپوریٹ امور کی وزارت کو جمع کرائی گئی تفصیلات کے مطابق بدل کر وششٹھ ریئلٹرز کر دیا گیا۔

ریاستی حکومت کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ آر بی ایس رئیلٹرز نے 2009 میں کامروپ ضلع کے بونگورا گاؤں میں سات افراد کو الاٹ کی گئی زمین خریدی۔ ہماری  سمجھ ہے کہ یہ زمین ان افراد کو اس شرط کے ساتھ الاٹ کی گئی تھی کہ یہ پلاٹ دس سال تک کسی کو فروخت نہیں کیے جا سکتے۔

لال موتی تعلقدار، بسنت ناتھ، ستیہ تعلقدار اور راجوبالا تعلقدار کو 25 نومبر 2009 کو بونگورا گاؤں میں حد بندی سرپلس زمین کاالاٹمنٹ کیا گیا تھا۔ 28 جنوری 2009 کو 10 سال کی لاک ان پیریڈ کی شرط کی خلاف ورزی کرتے ہوئےان چاروں پلاٹوں کی رجسٹری آر بی ایس رئیلٹرز کے نام کردی گئی۔

بکسائے ناتھ بیلی رام تعلقدار کو 19 مارچ 2009 کو بونگورہ میں حد بندی سرپلس زمین الاٹ کی گئی۔ 10 دسمبر 2009 کو اس زمین کی رجسٹری آر بی ایس کے ڈائریکٹر رنجیت بھٹاچاریہ کے نام پر کردی گئی۔

نوبن ناتھ کو 3 نومبر 2009 کو حد بندی سرپلس زمین کاالاٹمنٹ کیا گیا۔ اسے آر بی ایس رئیلٹرز نے 14 دسمبر کو خریدلیا۔

کیا10سالوں کی ایسی کوئی پبلک نوٹیفکیشن یا آرڈر ہے جس نےآر بی ایس رئیلٹرز کو ایسی زمین کی خریداری پر 10 سال کی پابندی کی شرط سے مستثنیٰ کردیا؟

آسام حکومت کے لینڈی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اداروں/فارموں کو شمالی گوہاٹی میں الاٹ کیے گئے دو پلاٹ 2006-07 کے بیچ آر بی ایس رئیلٹرزکےذریعے خریدے گئے۔جبکہ  ایک پلاٹ 27 دسمبر 2006 کو اُدیون فشری ڈیولپمنٹ فارم سے خریدا گیا،کمپنی نےدوسرا پلاٹ ویلفیئر ایکٹیویٹیز اسکول سے 20 جولائی 2007 کو خریدا۔

آسام حکومت کی لینڈ پالیسی-1989 کےمطابق ایسی زمین جنہیں الاٹ کی جاتی ہے، وہ اسے کبھی فروخت نہیں کر سکتے ہیں۔ اسی پالیسی میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر اس کا استعمال اس مقصد کے لیےنہیں کیاجاتا، جس کے لیے اسے الاٹ کیا گیا تھا تو اسے تین سال کے اندر لازمی طور پر واپس کردیا جانا چاہیے۔

کیا کوئی پبلک نوٹس یا آرڈر تھا جس نے آر بی ایس رئیلٹرز کو ایسی زمین سے متعلق قوانین کو نظر انداز کرنے کی اجازت دی؟ اگر ایسا ہے تو ایساآرڈر کب اور کس نے دیا تھا؟

ہماری سمجھ ہے کہ آر بی ایس رئیلٹرز نے اپنا نام بدل کر وششٹھ رئیلٹرزکر لیا۔ کیایہ صحیح ہے؟

سولہ ستمبر 2029 کو – نندیل بسوا شرما کے 18 سال کے ہونے کے فوراً بعد – مینا بھویاں نے اپنے شیئر انہیں منتقل کر دیے۔کیایہ صحیح ہے؟ اگر ایسا ہے تو وششٹھ رئیلٹرز میں نندیل بسوا شرما کا کیا رول ہے؟ ان کی شیئر ہولڈنگ کی کیا قیمت ہے؟

مالی سال 20 کے لیے آپ کی بیلنس شیٹ کمپنی کے جسمانی اثاثہ کےعنوان کے اندر4.17 کروڑ کی’آفس اسپیس’ کا ذکر کرتی ہے۔کیایہ 2006-2007 میں آر بی ایس رئیلٹرز کے ذریعے حاصل کی گئی زمین پر کامرشیل ڈیولپمنٹ کا حصہ ہے؟

تیسرا:  رینیکی بھویاں شرما اور رنجیت بھٹاچاریہ کے نام

بخدمت،

رینیکی بھویاں شرما اور رنجیت بھٹاچاریہ

دی وائر(ڈبلیو ڈبلیوڈبلیو ڈاٹ دی وائرڈاٹ ان) دہلی واقع ایک ڈیجیٹل نیوز پورٹل ہے، جو انگریزی، ہندی، اردو اور مراٹھی میں شائع ہوتا ہے۔گوہاٹی واقع آسامی نیوز پورٹل دی کراس کرنٹ(ڈبلیو ڈبلیوڈبلیو ڈاٹ دی کراس کرنٹ ڈاٹ کام) کے ساتھ مل کر دی وائر عوامی ریکارڈ کی بنیاد پرآر بی ایس ریئلٹرز کمپنی کے ذریعےشمالی گوہاٹی میں(ادارہ جاتی)اور کامروپ ضلع میں گوہاٹی ہوائی اڈے کے قریب بونگورا گاؤں میں 2006-2007 اور 2009 کے بیچ(حد بندی سرپلس) کےقریب 18 ایکڑ زمین خریدنے کو لے کرایک نیوز رپورٹ کر رہا ہے۔

کارپوریٹ امور کی مرکزی وزارت کے دستاویزوں کے مطابق، آپ دونوں نے 2006 میں کمپنی بنائی تھی اور اس کے بانی ڈائریکٹر بنے۔ ان زمینوں کی رجسٹری اس وقت ہوئی جب آپ دونوں اس کے ڈائریکٹر تھے۔ اس سلسلے میں، ہمارے پاس آر بی ایس رئیلٹرزجس کا نام بعد میں تبدیل کر کے وششٹھ رئیلٹرزکر دیا گیا،کے بانی ڈائریکٹرکےطور پر آپ کے لیے ایک سوالنامہ ہے۔

کارپوریٹ امور کی مرکزی وزارت کے ساتھ کمپنی کی فائلنگس،جسے اس ای میل کے ساتھ بھی منسلک کیا گیاہے،کے مطابق آر بی ایس رئیلٹرز کے کام کاج کے پہلے سال میں، رینیکی بھویاں شرما اور مسٹر بھٹاچاریہ دونوں کے پاس کمپنی کی 32.8 فیصد حصہ داری تھی۔ کیا آپ اس کے صحیح ہونے تصدیق کر سکتے ہیں۔

سال 2006-07 میں ریاستی حکومت کے لینڈ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ آر بی ایس ریئلٹرز نے 27 دسمبر 2006 اور 20 اگست 2007 کو شمالی گوہاٹی کے سیلا سیندرگوفا موضع میں دو پلاٹوں کی  خریداری کی۔

حالاں کہ آسام سرکار کے زمینی قوانین کے مطابق حکومت کے ذریعےعوامی اداروں اور فلاحی تنظیموں/فارموں وغیرہ کو دی گئی زمین کسی فرد یا نجی کمپنیوں کو فروخت نہیں کی جا سکتی، لیکن اُدیون فشری ڈیولپمنٹ فارم نے اپنے پلاٹ کوآر بی ایس رئیلٹرز کو بیچ دیا وہ بھی 27 دسمبر 2006کو اپنے نام اس کے الاٹمنٹ کے صرف چار ماہ ہونے پر۔

کیا ادیون فشری پر زمین کی فروخت نہ کرنے کی شرط میں نرمی دینے والی کوئی پبلک نوٹیفکیشن یا آرڈر ہے، جس کی بنیاد پر یہ زمین آر بی ایس کو فروخت کی جا سکی۔

حالاں کہ آسام کے زمینی قوانین کے مطابق حکومت کے ذریعےسرکاری اداروں اور فلاحی تنظیموں کو دی گئی زمین کو نجی افراد یا کمپنیاں خرید و فروخت نہیں کر سکتی، مگرویلفیئر ایکٹیویٹی اسکول نے 20 جولائی2007 کو اپنا پلاٹ آر بی ایس رئیلٹرز کو فروخت کر دیا۔ وہ بھی زمین پانے کےمحض11 ماہ گزرنے کےبعد ہی۔

کیا ویلفیئر ایکٹیویٹی اسکول پر زمین کو بیچنے کو لے کر لگائی گئی پابندی کو بدلنے کو لے کر کوئی پبلک آرڈر یانوٹس  موجود ہے ،جس کی بنیاد پر اس نے زمین کی فروخت آر بی ایس کو  کی؟

رینیکی بھویاں شرما کیا آپ اس بات کی تصدیق کر سکتی  ہیں کہ آر بی ایس ریئلٹرز کو اس زمین کی منتقلی آر بی ایس ریئلٹرزمیں آپ کےڈائریکٹر اور شیئر ہولڈررہنے کے دوران کی گئی؟

مسٹر بھٹاچاریہ کیا آپ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ آر بی ایس کو اس زمین کی منتقلی آر بی ایس ریئلٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ میں آپ  کے ڈائریکٹر اور شیئر ہولڈر رہنے دوران کی گئی؟

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کےلیے کلک یہاں کلک کریں)