فکر و نظر

رائے دہندگان کو متوجہ کرنے کی دوڑ میں سیاسی جماعتوں کے بیچ کوئی خاص نظریاتی فرق نہیں ہے

موجودہ ہندوستانی سیاست میں ہر پارٹی اپنا کامیاب فارمولہ ایجاد کرنے کی کوشش میں دوسری پارٹی سے کچھ نہ کچھ مستعار لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ آج ہندوستانی جمہوریت کم ہوتےسیاسی متبادل اور ان متبادل کی عدم موجودگی میں اپنے آپ  کو ہی متبادل خیال کرنے والوں  سے بھری پڑی ہے ۔

راہل گاندھی، نریندر مودی، ممتا بنرجی اور اروند کیجریوال۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

راہل گاندھی، نریندر مودی، ممتا بنرجی اور اروند کیجریوال۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

ہندوستانی سیاست اب اس موڑ پر کھڑی ہے،جہاں سے بہتری کی کوئی گنجائش نظرنہیں آتی ہے۔

کانگریس پارٹی ترقی کےنیو لبرل ماڈل کے ارد گرد بنائے گئے اتفاق رائے کو اس مقام تک لے کر آئی ہے جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے بیچ اقتصادی پالیسیوں کو لے کرکوئی اختلاف نہیں ہے۔

وہیں،ایک اورقومی پارٹی یعنی  بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)گزشتہ سات سالوں میں موجودہ سماج کے تصورات پر اتفاق رائے کو اس مقام پر لانے میں کامیاب رہی ہے جہاں تمام بڑی پارٹیاں اکثریتی ثقافتی قوم پرستی کے حدود میں اپنی جگہ بنانے اور’مسابقتی ہندوتوا’کےعمل کا حصہ بننے کے لیےمقابلہ کر رہے ہیں ۔

اتفاق رائے بنانے کی ان دوکوششوں کے جواب میں، علاقائی پارٹیوں نے براہ راست عوام کو فائدہ پہنچانے والےٹرانزیکشنل ویلفیئرزم کو اپنی بنیاد کے طور پر پیش کیا ہے۔انہوں نے کسانوں، طلبہ، نوجوانوں، اقلیتوں، دلت برادریوں  اور خواتین کے لیے اپنے طور پر منفرد فلاحی اسکیمیں شروع کی ہیں۔

انتخابی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اس نے فلاح وبہبود  کا فریم ورک تیار کیا ہے۔ فی الحال ان میں سے ہر ایک گروپ ایک دوسرے سے سیکھ رہا ہے اور اس کی تقلیدکر رہا ہے۔

اس دوران کانگریس نے’مندر کی سیاست‘میں کود کر اس فریم کادائرہ وسیع کیا ہے اور ایک جنیودھاری لیڈر کو آگے کرکےحقیقی ہندو ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ بی جے پی جارحانہ نو لبرل ازم کی مدد سے فلاحی فریم ورک کاماحول بنانے کا کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔

دوسری طرف، علاقائی پارٹیاں نو لبرل ایجنڈوں سے متاثر ہیں اور علاقائی خصوصیات کے ساتھ کل ہند ہندو شناخت کا توازن بنانے کے طریقےپر غوروخوض کر رہی ہیں۔

ووٹراس قسم کی مسابقتی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہ سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی خاص فرق کرپانے کے لیے جدوجہد کر تے نظر آرہے ہیں اور ایسے ذرائع تلاش کر رہے ہیں جن کی مدد سے وہ ووٹ دینے کے لیےصحیح پارٹی کا انتخاب کر سکیں۔

ان کی طرف سے لیڈروں اور عوامی نمائندوں کاایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہونے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی کیونکہ یہ شاید ہی کوئی معنی رکھتا ہے اور تو اور ان لیڈروں یا عوامی نمائندوں کی سیاسی اپیل یا کشش بھی وہی رہتی ہے۔

پارٹی بدلنا کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اصل بحران سیاسی سوچ/تخیل میں پیدا ہونے والا تعطل ہے۔ اس لیے توجہ شخصیات پر زیادہ مرکوز ہو گئی ہے جیسے کہ الگ الگ رہنما یا ان کی شخصی پہچان، خاندانی سیاست، خطابت کا انداز، اور سوانحی تفصیلات۔ ووٹرز ان کی کارکردگی کی بنیاد پراپنی سمجھ بناتے ہیں کہ پارٹیوں اور لیڈروں کے درمیان ممکنہ فرق کیا ہو سکتا ہے ۔

جیسا کہ اب یہ واضح ہے کہ بی جے پی حکومت کرنے کی اہل نہیں ہے اور منتخب باصلاحیت رہنماؤں کی حمایت سے نو لبرل ازم کو طویل مدتی پالیسی-فریم کے طور پر جاری نہیں رکھ سکتی ہے، جیسا کہ منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریس نے کیا تھا۔

اس لیےپارٹی اب اس کٹر ہندوتوا ایجنڈے پر توجہ مرکوز کرنے کو مجبور ہے، جو اسے پہلے سے ورثے میں ملی ہے۔ وہ اب اور بھی زیادہ جارحانہ،بولڈ اور بعض اوقات مضحکہ خیز انداز میں ہندوتوا کی پیروی کر رہی ہے۔

انتخابات  آتے ہی وہ مضطرب ہو جاتی ہے اور ہندو مسلم کو اپنے انتخابی رتھ کےمحرک کے طور پر دیکھتی ہے، اور جب یہ کام نہیں کرتاہے تو اسے کچھ نظر نہیں آتا، جیسا کہ دہلی اور بنگال کے انتخابات میں اس کو ملی ناکامی کے بعد دیکھا گیا تھا۔

پھر بھی، اگلے انتخابات میں یہی ترکیب دہرائی جاتی ہے۔حکومت چلانے میں اس کی نااہلی پارٹی کومجبور کر رہی ہےکہ وہ  ہندوتوا کی بحث اور بیان بازی کو عجیب وغریب حد تک کھینچ لے جائے، جیسا کہ اتر پردیش میں آلودگی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش۔

حالاں کہ،بی جے پی کے لیےترقیاتی ایجنڈے کو نافذ کرنے میں درپیش مشکلات کوئی اتفاق نہیں ہے، بلکہ یہ ہندوؤں سمیت شہریوں کو کمزور بنانے، انہیں انتہائی حساس ، غیر محفوظ اور بے چین کرکےحکمرانی کے وسیع تر ہندوتوا تصور کا نتیجہ ہے۔

غیر محفوظ ماحول اور اوسط درجے کی حکمرانی میں ترقی نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک اسٹرکچرل یعنی ساختیاتی تضاد ہے جسے وہ دور نہیں کر سکتی۔اس کو سنبھالنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ بحران/ایمرجنسی یا مستقبل کے اندیشوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بیانیہ تیار کیا جائے اور یہ امید کرنا ہے کہ لوگ بی جے پی-آر ایس ایس کی سیاست کے ساتھ جڑے رہنے کے لیےجنوبی طریقے سےاپنےردعمل کا اظہار کریں گے۔

ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس کچھ عرصے سے زوال کے دہانے پر ہے۔ کانگریس کا مخمصہ کسی حد تک بی جے پی کے بالکل برعکس ہے۔وہ سمجھتی ہے کہ وہ الیکشن کیوں ہارتی ہے،داخلی لڑائی، بدعنوانی کے الزامات، قیادت کے بحران اور توقعات پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے۔ لیکن جب وہ جیت جاتی ہےتو وہ نہیں جانتی کہ وہ کیوں جیت گئی، جیسا کہ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ہوا۔ اس کو کبھی کبھار ہی پتہ ہوتا ہے کہ ووٹرز نے اسے ووٹ کیوں دیا۔

اب یہ صاف ہوگیا ہے کہ کانگریس صرف اس لیے جیتتی ہے کیونکہ عوام کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے ۔وہ صرف انہی نو لبرل پالیسیوں کے خواب دکھا رہی ہے جن کو بی جے پی بھی آگے بڑھا رہی ہے۔

دراصل، زیادہ تر پالیسیاں،جن میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس(جی ایس ٹی)اور زرعی قوانین بھی شامل ہیں،  کانگریس کے ذہن کی اختراع تھیں۔

کانگریس مبہم اور متزلزل سیکولرازم اور اپنی ہندو شناخت کوقائم کرنے کی کوششوں کے بیچ جھول رہی ہے۔یہ صورت حال پالیسی اور نظریاتی رجحانات کا گہرا بحران ہے جو لیڈر(قیادت) کو کمزور، کنفیوز اور غیر کمیٹڈرہنما کے طور پر پیش کرتا ہے۔

کانگریس نے اس دلدل سے نکلنے کے لیے بہت کم کام کیا ہے اور وہ یہ سمجھتی رہی ہے کہ حکومت چلانے میں بی جے پی کی بڑی ناکامی کے سبب ووٹر کے پاس وہ واحد متبادل ہے ، اس لیے جیت سکتی ہے۔

ہندوستانی سیاست میں سیاسی نظریات کی’تاریخ کے خاتمے’کی اس صورتحال میں علاقائی پارٹیاں اپنے اپنے دعوے کرنے لگی ہیں۔

اس میں عام آدمی پارٹی(عآپ)اور ترنمول کانگریس ووٹروں کا اعتماد جیتنے کے لیےاپنے امکانات کو روشن کرتی نظر آرہی ہیں۔ بی جے پی کی حکمرانی کی ناکامیوں کو بنیاد بناکر توسیع کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ہر جگہ دہلی میں بہتر تعلیم، صحت، پانی اور بجلی کی سہولیات فراہم کرنے میں اپنی کامیابی کو  مثال بنا کر پیش کر رہی ہے۔

کیجریوال نے مذہبی مقامات پر مفت سفر کا اعلان کر کے ایک نیا ہندو راگ شروع کر دیا ہے۔عآپ سروس ڈیلیوری پر مبنی گورننس کے غیر سیاسی ماڈل پر چل رہی ہے، بالکل اسی طرح جیسے چندر بابو نائیڈو نے پہلے خود کو چیف منسٹر کے بجائے سی ای او کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ ماڈل مؤثر حکمرانی کے وعدے کی نمائندگی کرتی ہے کہ ہندوستان میں نو لبرل ازم آچکا ہے۔

ترنمول کانگریس(ٹی ایم سی)کا کانگریس سے ناطہ توڑنے اور بائیں بازو کے مخالف ہونے کی منفرد تاریخ ہے۔ یہ نہ صرف بنگال میں بائیں بازو کے سیاسی قلعے کو منہدم کرنے میں کامیاب ہوا بلکہ بائیں بازو کے کسی حد تک دقیانوسی تصورات کے خلاف نئے خیالات یا تخیل کے رہنما کے طور پر بھی ابھرا۔

ٹی ایم سی اس فلاحی نظام کی نمائندگی کرتی ہے جس میں اسکیموں کا براہ راست فائدہ لوگوں کو دیا جاسکے اور وہ  بی جے پی کی آمرانہ حکمرانی کے خلاف نظریاتی جنگ لڑ کر قیادت پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے اسے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔

بنگال کی معیشت کو دیکھتے ہوئے، ٹی ایم سی ترقی کے، یا احتیاط سے بنائی گئی ممتا بنرجی کی زمینی لیڈر کی امیج کو دیکھتے ہوئے مؤثر حکمرانی کے،بڑے بڑے دعوے نہیں کر سکتی ہے۔اس لیے بنرجی کی نظریاتی جنگ ایک طرف مودی کی شخصیت اور تکبر پر مرکوز ہے اور دوسری طرف وہ کابگریس کے خود کو اپوزیشن لیڈر کا قائد ماننے والے رویے کو چیلنج کر رہی ہے۔

متبادل ہونےسے زیادہ، ٹی ایم سی اور عآپ ہندوستانی سیاست میں پیدا ہوئےتعطل کا عکس یا امیج ہیں۔ وہ اسی راستے پر چل رہے ہیں جو فیشن سے باہر ہے۔ان کی بھی اپیل ایسی ہے کہ وہ سیاسی آپشن بننے سے زیادہ یہ سوچتے ہیں کہ ووٹر کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، اس لیے  ووٹر اسے ہی ووٹ دے گا۔

ہندوستانی جمہوریت آج سکڑتے ہوئے سیاسی متبادل اور ان متبادل کی عدم موجودگی میں وہ اپنے آپ کو متبادل سمجھ لینے والوں سے بھری پڑی ہے۔

(اس  رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)