خبریں

لیبر فورس کی شرکت کی شرح میں کمی کو ملک کے پالیسی ساز نظر انداز نہیں کر سکتے

روزگار کی شرح یالیبر فورس  کی شرکت کا تناسب اس بات کا ایک پیمانہ ہے کہ معیشت میں کتنے روزگار کے اہل لوگ اصل میں نوکری  کی تلاش میں ہیں۔سی ایم آئی ای کےمطابق،ہندوستان کے لیبر فورس  کی شرکت کا تناسب مارچ 2021 میں41.38 فیصدی تھا (جو کہ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے بالکل قریب ہے)لیکن گزشتہ ماہ یہ گر کر 40.15 فیصدی  رہ گیا۔

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

جبکہ قومی پیداوار ایک بار پھر وبائی امراض سے پہلے کی سطح پر واپس آگئی ہے،کچھ عرصےسےہندوستان میں روزگار کی شرح میں ڈرامائی کمی؛یوں کہیں کہ تاریخی طور پرکم ترین سطح-42 فیصدی کےآس پاس ہونا ایک حل طلب معمہ ہے۔

یہ تمام مسابقتی ایشیائی معیشتوں میں سب سے کم ہے،جہاں لیبر فورس  کی شرکت کا تناسب یا ملازمتوں کی تلاش میں سرگرم لوگوں کا تناسب بین الاقوامی لیبرآرگنائزیشن(آئی ایل او)کے ذیل کے اعداد و شمار کے مطابق، روزگار کی اہل آبادی کے60 فیصد سے زیادہ ہے۔

روزگار کی شرح یا لیبر فورس کی شرکت کا تناسب اس بات کا ایک پیمانہ ہے کہ معیشت میں کتنے روزگار کے اہل لوگ اصل میں  ملازمتوں کی تلاش میں ہیں۔

آزاداقتصادی ڈیٹا ایجنسی ایم آئی ای  کے مطابق،ہندوستان کی لیبر فورس کی شرکت کا تناسب مارچ 2021 میں41.38 فیصد تھا (جو کہ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے بالکل قریب ہے)لیکن گزشتہ ماہ یہ مزید گر کر 40.15 فیصد پر آ گیا ہے۔ (ذیل میں جدول دیکھیں)

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں60 فیصدی ملازمت کرنے والے افراد لیبر مارکیٹ سے باہر نکل گئے ہیں۔وہ نوکریوں کی تلاش میں بھی نہیں ہیں۔کیا ایسی معیشت جس کے 60 فیصد افراد روزگار کی تلاش میں نہ ہوں، ترقی کر سکتی ہے؟یہ سب سے اہم سوال ہے۔

(بہ شکریہ: سی ایم آئی ای)

(بہ شکریہ: سی ایم آئی ای)

سی ایم آئی ای کےسی ای او مہیش ویاس کہتے ہیں کہ کچھ ناقابل فہم وجوہات کی بناء پر، ہندوستانی پالیسی سازوں نے حالیہ برسوں میں لیبر فورس کی شرکت کے تناسب (ایل پی آر)میں آئی غیر معمولی گراوٹ  کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے۔

سی ایم  آئی ای  کے مطابق مارچ 2017 میں ایل پی آر 47 فیصدی  تھا اور صرف چار سالوں میں یہ ڈرامائی طور پر کم ہو کر 40 فیصدی  کےقریب آ گیا ہے۔ یہاں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اس گراوٹ  کا ایک بڑا حصہ وبائی امراض سے پہلے کاہے۔

انڈونیشیا، فلپائن، ویتنام جیسی ایشیا کی دیگر مسابقتی معیشتوں میں فعال طور پر ملازمتوں کی تلاش  کرنے والے روزگار کے اہل افراد کی تعداد 60 فیصدی سے زیادہ ہے۔

ہندوستان میں تقریباً ایک ارب لوگ روزگار کے اہل ہیں،لیکن صرف 400 ملین یااس روزگار کے لیے اہل آبادی کا40 فیصد ہی دراصل نوکری کی تلاش میں ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی فعال طور پرروزگار کی تلاش میں اہل  افراد کا تناسب 47 فیصد سے زیادہ ہے۔

پھر سوال یہ ہے کہ آخر ہندوستانی پالیسی سازوں اور ماہرین اقتصادیات اس پہلو پر غور کرنے سے کیوں انکار کررہے ہیں؟ میں نے حالیہ برسوں میں کوئی اقتصادی سروے نہیں دیکھا، جس کے پہلے باب میں اس پہلو کو نمایاں طور پراجاگر کیا گیا ہو اور معیشت کےپورے منظر نامہ کوبیان کیا گیا ہو۔

(بہ شکریہ: آئی ایل او)

(بہ شکریہ: آئی ایل او)

سچائی یہ ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں نے شتر مرغ والا رویہ اختیار کر تے ہوئے اور لیبر فورس کی شرکت کے تناسب پر گہرائی سےنظر ڈالنے سے انکار کر دیا ہے۔ لیبر فورس میں شرکت کے کم تناسب کی ایک وجہ ہندوستان میں خواتین کی مایوس کن حد تک کم روزگار کی شرح بتائی جاتی ہے۔

خاص طور پر ہندی بیلٹ والی ریاستوں جیسےاتر پردیش اور بہار میں۔خواتین کے بیچ لیبر کی شرکت کا تناسب اکائی کے ہندسوں میں ہے۔جس کا مطلب ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ خواتین لیبر مارکیٹ سے مکمل طور پر باہر ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ جس ملک میں 90 فیصد خواتین لیبر مارکیٹ سے باہر ہوں، اس ملک کی معیشت کیسے ترقی کر سکتی ہے۔

سال 2002-2010 کے اقتصادی چھلانگ والےسالوں میں کئی ماہرین اقتصادیات نے قیاس کیا تھاکہ لیبر فورس  میں خواتین کی کم شرکت کی وجہ شاید نئی نئی آئی  خوشحالی ہے(2004 اور 2012 کے درمیان 14 ملین افراد کو غربت کی لکیر سے باہر نکالا گیا تھا)۔ نتیجے کے طور پر، نوجوان خواتین تعلیم حاصل کرنے یا اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے لیبر فورس سے نکل  رہی ہیں۔

سی ایم آئی ای کےمہیش ویاس ایک ضروری سوال پوچھتے ہیں؛اگر خواتین تعلیم حاصل کرنے اور اپنی مہارت کی سطح کو بہتر بنانے کے لیے لیبر فورس سےباہر نکلی تھیں تو دس سال بعد بھی وہ لیبر مارکیٹ میں واپس کیوں نہیں لوٹی ہیں؟یہ وہ معمہ ہے جسے پالیسی ساز آج تک حل نہیں کر سکے ہیں۔

جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے، روزگار کی شرح میں کمی کا زیادہ تر حصہ وبائی مرض سے پہلے کا ہے۔ وبائی مرض کی وجہ سےپہلے سے خراب صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے، کیونکہ ان آرگنائزڈ سیکٹر کی  تباہی جاری ہے۔

اس سیکٹر کی حالت کتنی خراب ہے، اس کا اندازہ صرف ایک اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ روزگار کی شرح کا صرف ایک پہلو ہے کہ لیبر فورس سے زیادہ کارکن باہر ہوئےہیں۔

دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے- لیبر فورس میں سرگرم افراد کے ایک بڑےحصہ کےلیے روزگار کا معیار گر گیا ہے۔

مثال کے طور پر،لیبر فورس میں سیلف ایمپلائڈ آبادی اب 53 فیصدی  ہے۔ سیلف ایمپلائڈ بنیادی طور پر ان آرگنائزڈ سیکٹر میں ہیں،اور سب سے بری بات یہ ہے کہ سیلف ایمپلائڈ آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ اپنے گھریلو کاموں میں مدد کر نے والےبلا معاوضہ ملازم ہیں۔ یہ انڈر امپلائمنٹ ہے، جس کو اصل میں  روزگار کے طور پرشمار کیا جا رہا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ پالیسی ساز نہ صرف ہندوستان میں لیبر فورس کی شراکت کی انتہائی کم سطح کا ایماندارانہ تجزیہ کریں، بلکہ ملازمت کرنے والوں کے روزگار اور آمدنی کے معیار کا بھی تجزیہ کریں ۔

وزیر اعظم نریندر مودی کو وقت ضائع کیے بغیر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک اسپیشل ٹاسک فورس بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ 2021-22 کے اقتصادی سروے کو اس سوال سے براہ راست نمٹنا چاہیے۔

تلخ سچائیوں سےنظریں بچانےسےحکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جس کی عادت بری خبروں(اور اعدادوشمار)کو دبانے کی ہے۔ پہلے ہی مودی کے نام 1991 کی اقتصادی اصلاحات کے بعد سب سے کم روزگار کی شرح کا ریکارڈ بننے والا ہے۔ حیرت کی بات نہیں ہے کہ  اس کے ساتھ ہم کسی بھی دس سالوں کے دوران  نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں سب سے کم ترقی کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم اس وقت اتر پردیش کے انتہائی اہم انتخابات سے قبل کاشی وشوناتھ راہداری کے ساتھ ساتھ بڑے ترقیاتی منصوبوں کے دعوے اور وعدے کر رہے ہیں۔ ہندوتوا معاشی ترقی کے ساتھ دوسرے پہیے کے طور پر کام توکر سکتا ہے، لیکن یہ پوری طرح سے اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔

ایک اور پریشان کن سچائی — جس کی تصدیق اعدادوشمار بھی کرتے ہیں—ماہر اقتصادیات سنتوش مہروترا نے پیش کیا ہے، جس کے مطابق 2013 اور 2019 کے درمیان اتر پردیش میں بے روزگاری 4 فیصد سے بڑھ کر 19 فیصد تک تقریباً پانچ گنا بڑھ گئی ہے۔ اتر پردیش کے آئندہ اسمبلی انتخابات اس بارے میں صحیح جانکاری دے سکتے ہیں۔

(اس  رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)