فکر و نظر

دھرم سنسد کے منتظمین کے خلاف کوئی بھی کارروائی کی جائے، انتخابی فائدہ صرف بی جے پی کو ملے گا

یتی نرسنہانند نے بتایا ہےکہ نام نہاد دھرم سنسد ہر چھ ماہ پر ہوتے رہے ہیں ۔تو پھر آئندہ  ایک مہینے میں تین ‘دھرم سنسدوں’کے انعقاد کے پیچھے کیا راز ہے، وہ بھی دو بار اتر پردیش میں، جہاں اسمبلی انتخابات قریب ہیں؟

یتی نرسنہانند اور یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فوٹو: ٹوئٹر/پی ٹی آئی)

یتی نرسنہانند اور یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فوٹو: ٹوئٹر/پی ٹی آئی)

گزشتہ 17-19 دسمبر کے دوران ہری دوار میں ہوئے نام نہاد دھرم سنسد میں جو بیان بازی کی گئی وہ  بذات خود سیڈیشن جیسےسنگین جرم کے دائرے میں آتی ہیں۔ لیکن پولیس نے صرف دفعہ 153اےکے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ اصل وجہ تو آپ سمجھ ہی  سکتے ہیں۔

لیکن معلوم ہوا ہے کہ ان کی گرفتاری نہ کرنے کے پیچھے پولیس کا موقف ہے کہ اس دفعہ کے تحت سزا سات سال سے کم ہے اور ضابطہ فوجداری  کے سیکشن41 میں 2009 میں کیے گئے ترمیم کے مطابق ایسے الزامات میں گرفتاری لازمی نہیں ہے۔

یہ دلیل صرف اسی صورت میں قبول کی جا سکتی ہے جب اتراکھنڈ پولیس یہ ثابت کر دے کہ اس نے کبھی بھی کسی ایسے مجرم کو گرفتار نہیں کیا جس پر سات سال سے کم سزا کے جرم کا الزام لگایا گیا ہو۔

میڈیا میں رپورٹ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں دھرم سنسد کے تین ملزمین اور دیگر مذہبی رہنما اتراکھنڈ پولیس کے ایک انسپکٹر کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے نظر آ رہے ہیں۔

ویڈیو میں ملزم اناپورنا پولیس افسر کو کہتے ہوئے نظر آرہی ہےکہ پولیس کو تفتیش میں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔اس پر پاس کھڑے نرسنہانند نے کہا،’لڑکا ہماری طرف ہو گا‘اوراس پر  کمرے میں موجود سبھی اس لوگ ہنس پڑے اور انسپکٹر بھی مسکرانے لگا۔

گزشتہ 26 دسمبر کو صحافی عالیشان جعفری نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا کہ مزید دھرم سنسد منعقد کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔اسی دن یوٹیوب پر’سوامی امرتانند’نام کے ایک چینل نے ‘ایک ویڈیو بھی اپ لوڈ کیاجس کا عنوان ہے’کیوں ضروری ہے دھرم سنسد‘۔

تقریباً آٹھ منٹ کے اس ویڈیو میں نرسنہانند کا ایک شخص انٹرویو لےرہا ہے،جس کے مائیک پر’جی این ٹی-آج تک’ کا لوگو ہے۔

اس ویڈیو کی ریکارڈنگ ہری دوار کے دھرم سنسد کے بعد ہوئی ہے۔ اس میں نرسنہانند نے بتایا کہ اگلا دھرم سنسد 1-2 جنوری کو ڈاسنہ دیوی مندر، غازی آباد میں کرنے کا منصوبہ ہے اور اس کے بعد 23 جنوری کو علی گڑھ میں۔ اس کے بعد ہماچل پردیش اور کروشیتر میں کیا جانا ہے لیکن ان کی تاریخیں نہیں دی گئیں۔

نرسنہانند نے یہ بھی بتایا کہ ملک کا پہلادھرم سنسد6-7 ستمبر 2012 کو دیوبند میں ہوا تھا جس میں تقریباً تیس ہزار لوگوں نے شرکت کی تھی۔ لیکن اکھلیش حکومت نے انہیں گرفتار کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے ہر چھ ماہ بعد دھرم سنسد کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

نرسنہانند کے لفظوں میں دھرم سنسد کا مقصد

ویڈیو میں نرسنہانند نے بڑی بے باکی سے بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھرم سنسد کے بنیادی مقصد ہندو مذہب کی حفاظت کرنا ہے۔ ہندوؤں کو اسلامی جہاد کی حقیقت بتانا ہے۔ اور انہیں اپنے دفاع اور جہاد کےخلاف لڑنے کے لیے تیار کرنا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلامی جہاد نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے اور حکومت ہندوؤں کو بچا نہیں  سکے گی۔

جب انٹرویو لینے والے نے ان سے ‘ہندو خطرے میں ہے’اس الزام کی وضاحت کرنے کو کہا تو وہ بتانے لگے کہ اس پر کئی جان لیوا حملے ہوئے ہیں؛ابھی حال ہی میں دہرادون کے قریب ایک شخص کو سنگسار کر دیا گیا۔ ایک ڈاکٹر بی ایس تومرکو قتل کر دیا گیا؛ مجموعی طور پر تین سالوں میں چھ ہندو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں اور ان کی بیٹیوں کی زندگیاں برباد ہو رہی ہیں۔

جب کہا گیا کہ یہ چند واقعات محض ہیں تو انہوں نے کہا کہ ان کا عقیدہ 1400 سال کی تاریخ پر مبنی ہے۔

پھر انہوں نے کہا کہ اسلامی جہاد ایک منظم جرم ہے اور اسلام منظم مجرموں کا گروہ ہے ، ان کی  کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے؛ان کے مطابق ،اس میں شامل ہے دھوکے سے ہندوؤں کو قتل کرنا، ان کی عورتوں کو چھین لینا اور ان کے بچوں کو اٹھا لینا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس ایسے معاملات میں کچھ نہیں کرتی اور اگر کرنا بھی چاہے تو مسلمان ہندو گواہوں کو گواہی نہیں دینےدیتے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ میڈیا بھلے ہی ان باتوں پر توجہ نہ دے، وہ ایسا نہیں کریں گے۔ اس کے بعد انہوں  نے اعلان کیا کہ اب ہندو بدلہ لیں گے، لڑیں گے اور اپنا دفاع کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایک سادھو کا فرض ہے کہ وہ مذہب کے تحفظ کے لیے لڑے اور ضرورت پڑنے پر اپنی جان بھی دے دے۔اپنے سادھو  ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب کوئی جہادی ان کا قتل کردے۔ ہندو مذہب قربانی مانگ رہا ہے۔ ابھی وہ ایک شخص ہیں، مرکر وہ ایک ‘نظریہ ‘ بن جائیں گے۔

اچانک اس قدر تیز رفتاری سےدھرم سنسد کے انعقاد کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟

ایک طرف وہ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ دھرم سنسد ہر چھ ماہ بعد ہوتا رہا ہے۔ پھر اگلے تقریباً ایک ماہ میں تین دھرم سنسد کے انعقاد کے پیچھے کیا راز ہے؟

ان میں سے دو یوپی میں کرنے کا منصوبہ ہے جہاں جلد ہی انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ مقصد صرف مذہب کی حفاظت نہیں ہے۔

آپ نے خود ہی فرمایا کہ اسلام کے ڈیزائن میں ہی ہندو دھرم کی مخالفت مضمر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ پروگرام چودہ سو سال سے جاری ہے۔

اب ماضی قریب میں ملک میں ایسا کچھ نہیں ہوا جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکے کہ ہندودھرم  پر اچانک کوئی نام نہاد خطرہ بڑھ گیا ہو یا کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی ہو۔

اگر بحث کے لیےیہ مان بھی لیا جائے کہ یہ لوگ ہندو مذہب کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو پھر چودہ سو سال پرانے پروگرام کا مقابلہ کرنے کے لیے جو کچھ کرنا ہے اس میں بھی کافی وقت لگے گا۔ یہ اچانک کیا ہوا کہ آپ کو عجلت میں دھرم سنسد کو منظم کرنے کی ضرورت آن پڑی ؟

ان تمام کوششوں کا مقصد بی جے پی کو انتخابی فائدہ پہنچانا ہو سکتا ہے۔

کاغذ پر اگرچہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ان کی سرگرمیوں کا فائدہ بی جے پی کے علاوہ کسی کو نہیں مل سکتا۔

بی جے پی سرکاری طور پر جو بھی کہے، سب جانتے ہیں کہ پارٹی کی سب سے بڑی طاقت اس کا ہندو کارڈ ہے۔

اب انتخابات کےتناظر میں یہ بھی سچ ہے کہ ہندو ووٹ اکثر ذات پات کی بنیاد پر مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ بی جے پی کے لیے ہمیشہ سے ہی ہندو ووٹوں کا اس طرح ذات پات کی بنیاد پرتقسیم ہوناتشویش کا باعث رہا ہے کیونکہ ان کے حریفوں ایس پی اور بی ایس پی کی حمایت بنیادی طور پر ذات پات کی مساوات پر ہی ٹکی  ہے۔

اس کو کون روک سکتا ہے؟ جواب ہے:مذہب! جب مذہب کے تحفظ کی بات آتی ہے تو مذہب ہی واحد چیز ہے جو ذات پات پر بھاری پڑسکتی ہے۔ لہٰذا، یہ کہہ کر کہ ‘ہندو دھرم خطرے میں ہے’ اور یہ دھرم سنسدہندودھرم  کی حفاظت کرنا چاہتی ہیں ایسا کہہ کر ہندو ووٹوں کو ذات پات سے اٹھاکر کر مذہب کی حفاظت کے نام پر بی جے پی کے حق میں منظم کیا جا سکتا ہے۔

اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ دھرم سنسد  کتنا شاطرانہ پلان ہیں۔ اس مشق کے ذریعے ایک تیر سے دو نہیں کئی نشانے سادھے  گئے ہیں۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ہری دوار دھرم سنسد میں بار بار گول مول  لفظوں میں یا تھوڑا گھما پھرا کر ہی صحیح پر باربار اشارہ کیا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے قتل عام کی  نیت رکھتے ہیں۔

اب اتنا تو وہ بھی جانتے ہیں کہ تقریباً 200 ملین لوگوں کا قتل ممکن نہیں ہے۔ نہ توتاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔اس لیے ایک مقرر جو سو ‘فوجیوں’کے ہاتھوں 20 لاکھ مارنے کی بات کر رہا ہے اس کو بکواس سمجھنا چاہیے۔

ایسی بیہودہ باتوں کے پیچھے ایک راز پوشیدہ ہے۔ راز ہےاس سے مسلمانوں کو اکسانا۔ کیسے؟

اتنا بڑا ملک ہے، کہیں نہ کہیں کوئی مسلمان بھڑک کر بدلہ لینے سے متعلق ایسا بیان دے ہی دےگا، جس کا استعمال یہ لوگ ہندوؤں کو دوبارہ اشتعال دلانے اور ذات پات سے ہٹ کرمنظم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

کہا جائے گا کہ دیکھو مسلمانوں کی اصلیت  سامنے آگئی۔ اب تک ہم آپ کو یہی توسمجھا رہے تھے۔

دوسری بات یہ کہ وہ جان بوجھ کر اس حد تک اشتعال انگیز بیانات دینا چاہتے ہیں کہ پولیس کی ان کے ساتھ نرمی کے باوجود شاید عدالت کے حکم پر ہی صحیح ، لیکن ان کی  گرفتاری کی نوبت آ جائے۔ وہ اسی کا انتظار کر رہے ہیں۔

گرفتاری ان کے لیےآب حیات ثابت ہوگی۔ چونکہ بہت سے ٹی وی چینلز ان کے حامی ہیں، اس لیے ان کی گرفتاری کو اپنے آپ میں ایک تقریب بنا دیا جائے گا، جس کی فوٹیج مسلسل ٹی وی پر نشر کی جائیں گی۔

ممکن ہےکہ پولیس بس میں بٹھانے سے پہلےان سے چھوٹا موٹا بیان بھی لے لیا جائے۔ ان بیانات کا وہی اثر ہوگا جو  حقیقی دھرم سنسد کا پڑتا۔

آپ دیکھیں کہ انہوں نے کتنی چالاکی سے اپوزیشن کو یا یوں کہہ لیں کہ پورے ملک کو دونوں صورتوں میں نقصان پہنچانے کی حالت میں لا کھڑا کیا ہے۔ اگر انہیں گرفتار نہیں کیا گیا تو اس چیلنج کو حکومت اور سماج دونوں کی جانب سے ٹھوس منظوری دینے جیسی بات ہو گی۔ پھربہت سے ہندو ووٹر یہی سمجھیں گے کہ ان کی باتوں میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہوگا، تب ہی توحکومت خاموش ہے۔

وقت نکل جانے پر دیر سے گرفتاری انہیں بے وجہ ہیرو بنا دے گا۔ یہ لوگ پرچار کریں گے کہ دیکھو ہم نے ہندودھرم کی حفاظت  میں اپنی آزادی کوقربان کر دیا۔

دونوں ہی صورتوں میں، ذات پات کی تقسیم سے باہر جاکر ہندو ووٹوں کے پولرائزیشن سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔

نرسنہانند ایک ہوشیار شخص ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں شبہ ہے کہ حکومت 1-2 جنوری کو غازی آباد میں دھرم سنسدمنعقد کرنے کی اجازت نہ دے۔

یہ اس لیے بھی ممکن ہے کہ انتخابات سے قبل حکومت کسی بھی طرح امن و امان کو متاثر نہیں کرنا چاہتی۔ یوگی حکومت کے بڑے انتخابی مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے ریاست میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر کردیا ہے۔

اسی تناظر میں، 6 دسمبر کو حکومت نے متھرا میں شری کرشن جنم بھومی مندر سے متعلق عوامی جلسے اور سنکلپ یاترا کی اجازت نہیں دی تھی۔

یہ بھی ایک شاطرانہ منصوبہ تھا۔ خود منتظمین بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ غیر ضروری طور پر پولیس کے ساتھ الجھ جائیں اور امن و امان کی صورتحال خراب ہو۔

چالاکی  اس میں یہ تھی کہ عوامی جلسہ اور سنکلپ یاترا کرکے شری کرشنا مندر کے مسئلہ کو نہ صرف عوام کے ذہنوں میں اچھی طرح سے اٹھایا گیا بلکہ بھربھی دیا گیا۔  مقصد اسی سےپورا ہو گیا۔

ہندو ووٹر سمجھ گیا کہ یہ لوگ شری کرشن مندر کے لیےکتنے پرعزم تھے۔ مناسب وقت آنے پر مندر بھی بنایا جائے گا۔

دسمبر29 کو امروہہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے یوگی جی نے اشارہ کر ہی دیا تھا کہ اگر ایودھیا-کاشی میں کام ہو رہا ہے تو متھرا-ورنداون کیسے پیچھے چھوٹ  سکتا ہے۔

یہ لوگ غازی آباد اور علی گڑھ میں دھرم سنسد منعقد کرکے اسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔حکومت سے اجازت مل گئی  تو کیا کہنے۔ اگر نہیں ملی تو سوشل میڈیا اور ٹی وی پروپیگنڈے کے ذریعے ہندو ووٹروں کو بتایا جائے گا کہ دیکھو ہم آپ اور آپ کے مذہب کی حفاظت کے لیے کتنے فکر مند اور پرعزم ہیں۔

کوشش کی جائے گی کہ اجازت نہ ملنے کا الزام بھی لبرلز، مسلمانوں اور بائیں بازو کے نام نہاد ہندو مخالف بین الاقوامی سازش کرنے والوں  وغیرہ پر ڈال دیا جائے ۔ کہا جائے گا کہ دیکھو ان کی مخالفت کی وجہ سے اجازت نہیں ملی۔

یاد رہے کہ انگلینڈ میں’لندن اسٹوری‘ بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کی ایک تنظیم نرسنہانند کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہی ہے۔ مجموعی طور پر اس وقت اس کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہے۔

(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ )