خبریں

بُلی بائی ایپ معاملہ: ممبئی پولیس نے کہا-گمراہ کرنے کے لیے سکھ ناموں کا استعمال کیا گیا

ممبئی پولیس نے کہا کہ سکھ برادری سےمتعلق ناموں کا استعمال یہ ظاہر کرنے کے لیے کیا گیا کہ یہ ٹوئٹر ہینڈل اسی کمیونٹی کے لوگوں نے بنایاہے۔ ‘بُلی بائی’ایپ کے ذریعے جن خواتین کو نشانہ بنایا گیا وہ مسلمان ہیں، اس لیے اس بات کا بہت امکان تھا کہ اس کی وجہ سے دونوں برادریوں کے بیچ دشمنی پیدا ہو سکتی تھی اور عوامی امن وامان میں خلل پڑ سکتا تھا۔

ممبئی کے پولیس کمشنر ہیمنت ناگرالے نے 'بُلی بائی'ایپ کے حوالے سے میڈیا سے خطاب کیا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

ممبئی کے پولیس کمشنر ہیمنت ناگرالے نے ‘بُلی بائی’ایپ کے حوالے سے میڈیا سے خطاب کیا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ممبئی پولیس نے بدھ کے روز کہا کہ ‘بُلی بائی’ایپ کے سلسلے میں اب تک تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ،جس میں مسلم خواتین کی تصویریں آن لائن پوسٹ کرکے انہیں بدنام کیا جا رہا تھا۔

پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ ملزمین نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل میں سکھ برادری سے متعلق ناموں کا استعمال لوگوں کو گمراہ کرنے اور اور اس مقصد سے کیا کہ ان  کی پہچان نہ ہو سکے۔

اس سلسلےمیں ایک سینئر پولیس افسر نے ممبئی میں بتایا کہ سٹی پولیس کی سائبر یونٹ کے ذریعے اتراکھنڈ سے گرفتار 18 سالہ شویتا سنگھ کلیدی ملزم ہے، جس نے ایپ کا ٹوئٹر ہینڈل بنایا تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سنگھ نے 12ویں جماعت کا امتحان پاس کیا ہے اور وہ انجینئرنگ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

اس سے پہلے دن میں،ممبئی پولیس کمشنر ہیمنت ناگرالے نے صحافیوں کو بتایا کہ اس معاملے میں کچھ اور لوگوں کے ملوث ہونے کا امکان ہے۔

اس معاملے میں بدھ کی صبح اتراکھنڈ سےمینک راول (21 سال)کو گرفتار کیا گیا تھا۔ شویتا سنگھ کو 4 جنوری کو اتراکھنڈ کے رودر پور سےگرفتار کیا گیا تھا، جبکہ انجینئرنگ کے طالبعلم وشال کمار جھا (21 سال)کو 3 جنوری کو بنگلورو سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ناگرالے نے کہا کہ ممبئی پولیس نےایپ کے بارے میں شکایت موصول ہونے کے بعد 2 جنوری کو ایف آئی آر درج کی،جس کے بعد تفتیش کاروں نے ایپ اور اس سے منسلک ٹوئٹر ہینڈل کا تکنیکی تجزیہ شروع کیا۔

انہوں نے کہا،تکنیکی تجزیہ کے دوران، ہم نے ایپ کے پیروکاروں (فالوور) کے بارے میں معلومات جمع کیں اور ملزمین کی تلاش شروع کی۔

ناگرالے نے دعویٰ کیا کہ وشال کمار جھا، سول انجینئرنگ کے دوسرے سال کا طالبعلم ہے، جو ہینڈل کے پانچ فالوور میں سے ایک تھا۔

ناگرالے نے اس معاملے کے بارے میں مہاراشٹر سے باہر کچھ ‘مقامی عہدیداروں’کےتبصروں پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نامناسب ہے کیونکہ ان کے پاس مکمل جانکاری نہیں ہے۔

ممبئی پولیس کمشنر سےجب یہ  پوچھا گیا کہ کیا اس کیس کے ملزمین ‘سلی ڈیل’کیس میں بھی ملوث تھے (جہاں مسلم خواتین کو نشانہ بنانے والی ایک ایسی ہی ویب سائٹ بنائی گئی تھی) تو انہوں نے نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے معاملے کی جانچ دہلی پولیس کر رہی ہے۔

ایپ کو اوپن سورس سافٹ ویئر پلیٹ فارم گٹ ہب پر ہوسٹ کیا گیا تھا۔ بعد میں اسے پلیٹ فارم سے بلاک کر دیا گیا۔ اصل میں میں ایسی کوئی ‘نیلامی’ یا ‘فروخت’ نہیں ہوئی تھی بلکہ اس ایپ کا مقصد نشانہ بنائی گئی  خواتین کی توہین کرنا اور انہیں دھمکانا تھا۔ ان میں سے بہت سی خواتین سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہی ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق، مبینہ طور پر 18 سالہ کلیدی ملزم شویتا سنگھ کے والد کی کوووڈ 19 سے اور والدہ کی موت کینسر سے ہوگئی تھی۔

ممبئی پولیس نے بدھ کی شام ایک ریلیز میں کہا کہ مسلم خواتین کو نشانہ بنانے والے’بُلی بائی’ ایپ کی تشہیر میں شامل افراد نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ٹوئٹر ہینڈل پر سکھ برادری سے متعلق ناموں کا استعمال کیا۔

پولیس نے کہا کہ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو سکتی تھی، لیکن ان ملزمین کی فوری گرفتاری سے یہ  ٹل گیا۔

ریلیز میں کہا گیا،سکھ برادری سے متعلق ناموں کا استعمال یہ ظاہر کرنے کے لیے کیا گیا کہ یہ ٹوئٹر ہینڈل اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بنائے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ چونکہ نشانہ بننے والی خواتین مسلمان تھیں، اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ اس سے ‘دو برادریوں کے درمیان دشمنی’ پیدا ہو سکتی تھی اور ‘عوامی امن وامان میں خلل’ پڑ سکتا تھا۔

پولیس نے کہا،چونکہ ملزمین کو وقت پرگرفتار کر لیا گیا، اس لیے برادریوں کے درمیان دشمنی پیدا ہونےکی صورتحال  ٹل گئی۔

ریلیز میں کہا گیا کہ ایپ کے ٹوئٹر ہینڈل پر دی گئی معلومات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کو بنانے والا’کے ایس ایف خالصہ سکھ فورس’ہے، جبکہ ایک اور ٹوئٹر ہینڈل’خالصہ سپریمیسسٹ’اس کا فالوور تھا۔

اس میں کہا گیا کہ تکنیکی تجزیہ کے دوران، پولیس نے دیانند ساگر کالج آف انجینئرنگ، بنگلورو کے سول انجینئرنگ سیکنڈ ایئر کے طالبعلم وشال کمار جھا (21 سال)کواس میں شامل پایا۔

ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جھا کی طرف سے مبینہ طور پر استعمال کیے جانے والےخالصہ سپریمیسسٹ  ہینڈل میں  صارف کا لوکیشن کینیڈا بتایا گیا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ وہ ‘توسیا وتس’ نام کا یوٹیوب چینل بھی چلاتا تھا۔

پولیس نے اس کے پاس سے ایک موبائل فون، دو سم کارڈ اور ایک لیپ ٹاپ برآمد کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ ملزم مینک راول بھی انجینئرنگ کا طالبعلم ہے۔

غور طلب ہے کہ سینکڑوں مسلم خواتین کی اجازت کے بغیر ان کی تصویروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور انہیں ‘بُلی بائی’ایپ پر ‘نیلامی’کے لیے اپ لوڈ کر دیا گیا تھا۔

ایپ کے ذریعے نشانہ بننے والی خواتین میں سے ایک کی درج کرائی گئی شکایت کی پر ممبئی پولیس کرائم برانچ کے سائبر پولیس اسٹیشن(ویسٹ)نے یکم جنوری کو نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی،جنہوں نے اس ایپ کوتیار کیا تھا اور کچھ ٹوئٹر ہینڈلز نے اس مواد  کی تشہیر کی تھی۔

اس ایپ کو31 دسمبر 2021 کو امریکہ کے گٹ ہب نے ہوسٹ کیا تھا۔جس میں کم از کم 100 مسلم خواتین کی ڈاکٹرڈ تصویریں فحش تبصروں کے ساتھ آن لائن پوسٹ کی گئی تھیں۔

قابل ذکر ہے کہ ۔ ایک سال سے بھی کم کےعرصے میں ایسا دوسری بار ہوا ہے۔ یہ ایپ ‘سلی ڈیلز’ کی طرح ہے، جس کی وجہ سے پچھلے سال بھی ایسا ہی تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔

گزشتہ سال جولائی میں کچھ نامعلوم افراد نے سلی ڈیلز نامی ایپ پر سینکڑوں مسلم خواتین کی تصویریں اپ لوڈ کی تھیں۔

این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، سلی ڈیلز ایپ کے معاملے میں دہلی اور اتر پردیش پولیس کی طرف سے دو ایف آئی آر درج کی گئی تھی، حالانکہ اب تک ذمہ دار لوگوں کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

  ٹھیک اسی طرز پر اس باربُلی بائی  نام کے ایک آن لائن پورٹل نےان خواتین کی تضحیک کے ارادے سے ان کی رضامندی کے بغیر ان مسلم خواتین کی چھیڑ چھاڑ کی گئی  تصویروں  کا استعمال کرتے ہوئے ایک’نیلامی'(تضحیک آمیز لفظ ‘بُلی’ کا استعمال کرتے ہوئے)کا اہتمام کیا ہے۔

کئی خواتین نے بتایا ہے کہ ان کی تصویروں  کا اس پلیٹ فارم پراستعمال کیا جا رہا ہے۔ ان میں دی وائر کی صحافی عصمت آرا بھی شامل ہیں، جنہوں نے ٹوئٹر پر اس ویب سائٹ کا اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا، جس میں انہیں ‘بُلی بائی دی ڈے’بتایا گیا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)