خبریں

ہندوتوا تنظیموں نے وارانسی کے گھاٹوں پر پوسٹر لگا کر غیر ہندوؤں کو یہاں نہ آنے کی وارننگ دی

اتر پردیش میں وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیامانی حلقہ وارانسی کے مختلف گھاٹوں پران پوسٹروں کو دیکھا جا سکتا ہے،جن میں  پنچ گنگا گھاٹ، رام گھاٹ، دشاسوامیدھ گھاٹ، اسی گھاٹ اور منی کرنیکا گھاٹ شامل ہیں۔پوسٹروں میں لکھا ہے کہ ‘یہ درخواست نہیں، وارننگ ہے’۔

وارانسی کے گھاٹوں پر لگےمبینہ پوسٹر۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/ وارانسی کانگریس)

وارانسی کے گھاٹوں پر لگےمبینہ پوسٹر۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/ وارانسی کانگریس)

دائیں بازو کی دو ہندو تنظیموں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل کے مبینہ لوگ  اتر پردیش میں وارانسی کے گنگا گھاٹوں کےچاروں طرف  ایک خاص طرح کا پوسٹر لگا رہے ہیں، جن میں غیر ہندوؤں کو ان گھاٹوں پر نہ جانے  کی وارننگ دی گئی ہے۔

ان پوسٹروں پر بڑے حروف میں لکھا ہوا ہے، ‘پرویش پرتبندھت -غیر ہندو’۔

اس کے علاوہ لکھا گیا ہے کہ ‘ماں گنگا، کاشی کے گھاٹ اور مندر سناتن دھرم، ہندوستانی ثقافت، عقیدت اور عقیدے کی علامت ہیں،جن کا عقیدہ سناتن دھرم میں ہو، ان  کا خیر مقدم ہے، ورنہ یہ علاقہ پکنک اسپاٹ نہیں ہے۔ ‘

ان تنظیموں کے لیڈروں نے سوشل میڈیا پر اس طرح کے پوسٹر لگاتے ہوئے اپنی تصویریں بھی شیئر کی ہیں۔

پوسٹروں  میں یہ بھی لکھا ہے کہ ‘یہ کوئی درخواست نہیں، وارننگ ہے’۔ پوسٹروں پر اس لائن کے نیچے ‘وشو ہندو پریشد بجرنگ دل کاشی’ بھی لکھا ہوا ہے۔

وارانسی وزیر اعظم نریندر مودی کا پارلیامانی حلقہ ہے۔

ان پوسٹروں کو شہر بھر کے مختلف گھاٹوں پر دیکھا جا سکتا ہے، جن میں پنچ گنگا گھاٹ، رام گھاٹ، دشاسوامیدھ گھاٹ، اسی گھاٹ اور منی کرنیکا گھاٹ وغیرہ شامل ہیں۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جیسے جیسے اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات قریب آ رہے ہیں، ویسے ویسے دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کی اقلیت مخالف مہم تیزتر ہوتی جا رہی ہے۔ چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں پر اس طرح کی باتوں سے آنکھیں چرانے، بلکہ اس کی سرگرم حمایت کےبھی الزام لگائے گئے ہیں۔

وارانسی میں یہ پوسٹرپچھلے کچھ مہینوں سے ملک کے مختلف حصوں میں جاری اقلیت مخالف مہم کا حصہ معلوم ہوتے  ہیں۔ کئی  لوگوں کا خیال ہے کہ اتر پردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے تناظر میں لگائے جا رہے ان  پوسٹروں کی  سیاسی اہمیت ہے۔

گھاٹوں پر پوسٹر لگانے کے بعد یہ لوگ انہیں وارانسی کے مندروں میں بھی لگانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جہاں گزشتہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے کاشی وشوناتھ کوریڈور کا افتتاح کیا تھا۔

اس سلسلے میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے وارانسی یونٹ کے سکریٹری راجن گپتا نے کہا ہے کہ، یہ پوسٹر اپیل نہیں،بلکہ ان لوگوں کے لیےایک وارننگ ہے جو سناتن دھرم کے پیروکار نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، دریائے گنگا کے گھاٹ اور کاشی کے مندر ہندو مذہب اور ثقافت کی علامت ہیں اور دوسروں کو ان سے دور رہنا چاہیے۔

گپتا نے یہ بھی کہا کہ اگر ان مقامات پر آنے والے لوگ ہندو مذہب میں یقین رکھتے ہیں تو ان کا خیرمقدم ہے اور اگر نہیں تو ہم انہیں اپنےمقدس مقامات سے دور بھیج دیں گے۔

بجرنگ دل کے وارانسی کنوینر نکھل ترپاٹھی’رودر’نے بھی اسی طرح کے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ، گنگا ندی ہماری ماں ہے، یہ پکنک اسپاٹ نہیں ہے۔ جو لوگ گنگا کو پکنک کی جگہ سمجھتے ہیں، انہیں اس سے دور رہنا چاہیے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو بجرنگ دل یقینی بنائے گا کہ وہ ایسا کریں۔

کانگریس اس پیش رفت کو بی جے پی کی طرف سے اسمبلی انتخابات سے قبل سماج میں پولرائزیشن کی ایک سوچی سمجھی سازش کے طور پر دیکھ رہی ہے۔

مقامی کانگریس لیڈر راگھویندر چوبے نے دی وائر کو بتایا کہ ان کی پارٹی نے پولیس کو دائیں بازو کے  ان کارناموں کے بارے میں مطلع کیا ہے۔

چوبے نے کہا، میں نے ورونہ زون کے ڈی سی پی کو فون کیا ہے اور انہیں بھگوا دھاری نوجوانوں کے ذریعے شہر میں شروع کی گئی اس نفرت انگیز مہم کے بارے میں مطلع کیا ہے۔ ہمارا ایک وفد ضلعی انتظامیہ کے افسران سے ملاقات کرے گا کیونکہ اس طرح کی کارروائیوں سے امن وامان خراب ہو سکتا ہے اور انتخابی ماحول بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

ایک مقامی سیاسی تجزیہ کار نے کہا کہ یہ نفرت انگیز پوسٹر وارانسی کی مشترکہ تہذیب پر حملہ ہے ۔ سینئر صحافی وجئے ونیت نے فون پر بتایا،کوئی مذہب کے نام پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے وارانسی کو کیسےبانٹ سکتا ہے؟

پوسٹروں کے ساتھ وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے مبینہ ارکان ۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

پوسٹروں کے ساتھ وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے مبینہ ارکان ۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

ونیت نے مزید کہا کہ گنگا اور اس کے گھاٹ کبھی بھی کسی ایک مذہب کے نہیں رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح بھارت رتن استاد بسم اللہ خان گنگا میں اشنان کے بعد نماز ادا کرتے تھے۔

وارانسی پر کئی کتابیں لکھ چکےونیت کے مطابق، ‘اصل سازش کرنے والی بی جے پی ہے۔وہ سماج کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنا چاہتی ہے، کیونکہ اس بار انتخابی لحاظ سے اہم مشرقی یوپی خطہ میں بھگوا پارٹی کے امکانات بے حدمبہم نظر آرہے ہیں۔

دریں اثنا بی جے پی نے دعوی کیا ہے کہ دائیں بازو کی تنظیموں کو اس واقعے کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

پارٹی کے ترجمان راکیش ترپاٹھی نے متنازعہ پوسٹر لگانے پر وی ایچ پی اور بجرنگ دل کوایک طرح سے کلین چٹ دے دی ہے۔انہوں نےمیڈیا سے بات چیت میں کہا کہ یہ کچھ ‘شرپسند عناصر’نے کیا ہے۔

حالاں کہ، پوسٹروں  پر دونوں تنظیموں کے نام درج ہیں۔

ترپاٹھی نے پوسٹرکے پیغام کی جزوی طور پر تائید کرتے ہوئے کہا کہ گنگا اور وارانسی کے مندر مقدس مقامات ہیں اور انہیں پکنک اسپاٹ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔حالاں کہ، انہوں نے یہ ضرور کہا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو ان مقامات پر جانے سے روکے۔

بہرحال پولیس نے ان پوسٹروں کو لگانے والوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے،  جبکہ ان لوگوں کی تصویریں پوسٹر لگاتے ہوئے سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔

وارانسی کے ڈی آئی جی آفس کے ایک عملے نے بتایا کہ متنازعہ پوسٹروں کی اطلاع اعلیٰ حکام کو دے دی گئی ہے۔پولیس نے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔جانچ کے بعد ضرورت پڑنے پر کارروائی کی جائے گی۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)