فکر و نظر

کیا وزیر اعظم کی سکیورٹی میں ہوئی کوتاہی کو انتخابی ’ایونٹ‘ میں تبدیل کیا جا رہا ہے؟

جس طرح سے وزیر اعظم خود اور ان کی پارٹی سکیورٹی میں کوتاہی کو اسی لمحے سےسنسنی خیز بنا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے صاف ہے کہ وہ اس واقعہ کی سنگینی کے  بارے میں کم اور ممکنہ انتخابی فائدے کے بارے میں زیادہ سنجیدہ ہیں۔

پنجاب کے فیروز پور میں ایک فلائی اوور پر پھنسا وزیر اعظم نریندر مودی کا قافلہ ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

پنجاب کے فیروز پور میں ایک فلائی اوور پر پھنسا وزیر اعظم نریندر مودی کا قافلہ ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

بلاشبہ یہ انتہائی شرمناک واقعہ ہے کہ جب وزیر اعظم پنجاب جیسےسرحدی اور حساس صوبے میں ریلی کرنے جارہے ہوں تو کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے انہیں کوئی محفوظ راستہ نہ مل پائے اور کسی فلائی اوور پر پھنس کر انہیں اپس لوٹنا پڑے۔لیکن اس سے کہیں زیادہ شرمناک یہ ہے کہ وزیراعظم اور ان کی پارٹی  اپنی عادت کے مطابق اس واقعہ سے بھی کوئی درس لینے کو تیار نہیں ہیں۔

جس طرح سے انہوں نے سیاسی فائدہ کے لیےاس معاملے کو سنسنی خیز بنایا، اس سے صاف ہے کہ وہ اس کی سنگینی کے بارے میں کم اور اس سے ممکنہ انتخابی فائد کے بارے میں زیادہ سنجیدہ ہیں۔ وزیر اعظم کا بھٹنڈہ ہوائی اڈے پر پنجاب کے حکام سے اپنے وزیر اعلیٰ کو’ان کےزندہ لوٹ پانے کے لیے شکریہ ادا کرنے کو کہنا’ بھی ان کی اسی طرح کی کوششوں کا حصہ ہے۔

حالاں کہ،کئی  لوگوں کو ان کے سچ مچ ایسا کچھ کہنے کو لے کر بھی شبہ ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ کہیں وزیر اعظم کی پسندیدہ خبر رساں ایجنسی نے خود ہی یہ بیان بناکر کر تو خبر نہیں چلادی؟

اس دور میں اس کونہ تو ناممکن کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی غیر متوقع۔ بالخصوص تب جب نہ وزیر اعظم کی جانب سے ایسا کچھ کہتے ہوئے کوئی بائٹ دستیاب ہے اور نہ ہی ان افسروں کے نام سامنے آئےہیں جن سے انہوں نے مبینہ طور پر یہ بات کہی ہو۔

بہرحال وزارت داخلہ اور بی جے پی جس طرح ‘وزیر اعظم کی سکیورٹی میں کوتاہی’کے  سلسلے میں پنجاب کی چرن جیت سنگھ چنی کی کانگریس حکومت پر حملہ آور ہے اور وزیر اعظم کے سکیورٹی عملے کی کوئی غلطی نہیں مان رہے، بھلے ہی ماہرین کے نزدیک صورتحال اس کے برعکس ہے، اس سے بھی ان کے ارادوں کے بارے میں کچھ کم پتہ  نہیں چلتا۔

اس پر ان کااتاولاپن ایساکہ انہیں اس جانچ کے نتائج کا انتظار بھی گوارانہیں، جو مرکز کی طرف سے رپورٹ طلب کرنے کے بعد چنی حکومت نےبٹھائی  ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر واقعی وزیر اعظم کی سکیورٹی میں کوتاہی ہوئی ہے تو وزیر داخلہ امت شاہ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ چرن جیت چنی دونوں کواس کی ذمہ داری کیوں نہیں لینی چاہیے اور اگر یہ کوتاہی جان بوجھ کر کی گئی ہے تو دونوں کو استعفیٰ کیوں نہیں دینا چاہیے؟یہ کیا کہ ان میں سے ایک کی حکومت کو برخاست کر کے صدر راج کے نفاذ کا مطالبہ کیا جائے اور دوسرے کو بالکل بخش  دیا جائے؟

وزیر اعظم کی سکیورٹی کی ذمہ دار ایس پی جی اتر پردیش میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو سکیورٹی کے معاملے میں وزیر اعظم کے پیچھےدوڑنے پر مجبور کر سکتی ہے، اس کو اتنا بھی پتہ تھا کہ  پنجاب میں وزیر اعظم کے قافلے کو روکنے کی ‘سازش’ ہے تو یہ  کیوں اس  کی ناکامی نہیں ہے، جبکہ اب یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ چند روز قبل خالصتان  حامی تنظیم ‘سکھ فار جسٹس’ نے لوگوں سے وزیراعظم کے دورے کی مخالفت کرنے کو کہا تھا!

قابل ذکر ہے کہ اس سلسلے میں پنجاب حکومت کی ہر صفائی  کو مسترد کرنے کے باوجود بی جے پی اور وزارت داخلہ کسان تنظیموں کی جانب سے وزیر اعظم کا راستہ روکنے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہی ہیں۔

اس نہ کہنے میں بھی ایک داؤ ہے؛ وزیر اعظم کی ریلی نہ ہونے دینے کی دھمکی سنیکت کسان مورچہ نے نہیں دی تھی اور جن نو تنظیموں نےدی تھی، ان میں سے کئی کی بی جے پی کے ساتھ ہمدردی دنیا جانتی ہے۔ بھلے ہی  ان کا لہجہ اس کو لے کر شکایتی ہی تھا کہ زرعی قوانین کی واپسی کے بعد بھی حکومت نے کسانوں کی ایم ایس پی کی ضمانت، کسانوں کے خلاف چل رہےمقدموں کی واپسی یا اجئے مشرا ٹینی کی برخاستگی جیسے مطالبوں کو پورا نہیں کیا ہے۔

ایسے میں اس سوال کا جواب دینا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ کس  نے ریلی روکنے کی دھمکی دے چکے کسانوں کی تنظیموں کو وزیر اعظم کےہوائی جہاز کے بجائے سڑک کے ذریعےآنے کی اطلاع دی اور انہیں ان کا راستہ روکنے پہنچایا۔ بی جے پی کی جانب سے مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے یہ سوال بہت زور سے پوچھا تھا، لیکن اب کئی لوگ اسے بی جے پی اور کچھ کسان تنظیموں کی ملی بھگت کا معاملہ بتا رہے ہیں۔

چنی حکومت کے بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم کو متبادل راستہ فراہم کیا جا رہا تھا، لیکن انہوں نے ریلی رد کرکے واپسی کا راستہ چنا، کیونکہ لوگ انہیں سننے کے لیے ریلی میں نہیں پہنچے تھے۔ ریاست کےسابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے اتحادی کیپٹن امریندرسنگھ بھی ریلی میں لوگوں  کے نہ آنے کی تصدیق کرتےہیں۔

ویسے کون نہیں جانتا کہ جب سے تین متنازعہ قوانین لائے گئے تب سے ہی ریاست کے کسان بی جے پی، اس کی حکومتوں اور وزیر اعظم کی مخالفت کر رہے تھے۔ پڑوسی ریاست ہریانہ میں تو انہوں نے اکثر تمام سرکاری پروگراموں کو روکنے اور بائیکاٹ کرنے کا راستہ چنا تھا۔ ایسے میں جن بھی کسانوں کی تنظیموں نے وزیر اعظم کا راستہ روکا، کسانوں کے مذکورہ احتجاج کاریہرسل محض کیا۔

البتہ یہ ریہرسل یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مذکورہ قوانین کو واپس لینے کے بعد بھی وزیر اعظم کسانوں کا مکمل اعتماد جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور اگر وہ ایسا مانتے تھے تو غلطی فہمی میں تھے۔

دوسرے پہلوؤں کی طرف جائیں تو اور بھی بہت سے سوال جواب طلب کرتے ہیں۔ سب سے بڑا یہ کہ ‘اپنےزندہ لوٹ پانے کے لیے وزیر اعلیٰ کو شکریہ ادا کرنے’سے وزیراعظم کا کیا مطلب ہے؟ کیا ان کا راستہ روکنے والے کسان ہتھیاربند تھے اور ان سے انہیں جان کاخطرہ تھا؟


یہ بھی پڑھیں: رویش کمار کا بلاگ: پی ایم کی سکیورٹی میں چوک کہیں کوریج کی بھوک مٹانے کی منصوبہ بندی تو نہیں


اگر ایسا ہے توچاق وچوبند ایس پی جی سکیورٹی کے باوجود وہ عدم تحفظ کی اس سطح پر کیوں پہنچے؟ اگر نہیں تو انہوں نے راستہ روکنے والے کسانوں کے پاس جانے اور ان سے بات کرنے اور انہیں راضی کرنے کی ہمت کیوں نہیں دکھائی؟ کسان تودہلی کی سرحدوں پر اپنی تحریک کے وقت سے ہی ترس رہے ہیں کہ وزیر اعظم ان سے بات کریں اور ان کے مسائل کا مناسب حل نکالیں۔

انہوں نے کبھی وزیراعظم سے دشمنی کا اظہار نہیں کیا۔ پھر ان کے حامیوں کے اس سوال کا جواب کون دے گا کہ وزیر اعظم کا راستہ روک کر ان کی  پالیسی کے خلاف اعتراض کرنے  کا اپنا جمہوری حق استعمال کر رہے تھے یا کوئی ایسا جرم کر رہے تھے، جس کے لیے وزیر اعظم انہیں ‘معاف’ ہی نہیں کر سکتے؟ کیا وہ ملک کے منتخب وزیراعظم نہ ہوکر بادشاہ ہیں؟

جوپنڈت جواہر لعل نہروانہیں پھوٹی آنکھوں بھی اچھے  نہیں لگتے، وہ  وزیر اعظم تھے تو اپنی راہ  روکنے والوں کو دیکھ کر واپس لوٹ جانے کے بجائے ان سے بات کرتے تھے۔

ایک بار ایسی ہی بات چیت  میں ایک مشتعل خاتون نے ان کا گریبان پکڑ لیا اور پوچھا کہ انہوں نے اس کے جیسے لوگوں کے لیےآج تک کیا بھی کیا ہے؟ تب نہرو نےآپا کھوئے بغیر سکون سے جواب دیاتھا،یہی کہ اب وہ ہندوستان کے وزیر اعظم کا گریبان پکڑ سکتے ہیں۔پی ایم مودی مذکورہ فلائی اوور پار کرکے ایسی کوئی مثال کیوں قائم نہیں کر سکتے تھے۔

ہاں، اب بی جے پی یاد دلارہی ہے کہ وہ صرف بی جے پی کے ہی نہیں پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اس سے پہلے ایک بار لوک سبھا میں حکمراں پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے راہل نے ‘آپ کے وزیر اعظم’ کہہ دیا تو بھی حکمراں پارٹی نے اعتراض کیا تھا کہ ‘آپ کے نہیں، ہمارے وزیر اعظم’کہیں۔

تب راہل نے ان سے یہ سوال پوچھ کر انہیں لاجواب کر دیا تھا کہ ، کیا وہ آپ کے وزیر اعظم نہیں ہیں؟ لیکن آج کی تاریخ میں سچ پوچھیں تو بی جے پی کو یہ بات  کہ وزیر اعظم پورے ملک کے ہیں، سب سے زے زیادہ  وزیر اعظم کو ہی بتانے کی ضرورت ہے۔

ان سے یہ پوچھنے کی بھی کہ وہ انتخابی فائدے کے لیےاپنے سرکاری پروگراموں کو  بی جے پی کے پروگراموں میں تبدیل کرنے اور ان میں اختلاف کرنے والوں اور حزب اختلاف کو ناحق نشانہ بنانے کی روایت بناتے جا رہے ہیں؟ کیااس طرح وہ خود اپنے’پورے ملک کے وزیراعظم’ ہونے والے قدرومرتبہ  سے نہیں کھیل رہے؟

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)