فکر و نظر

سی-پلین کی سواری سے برلن اسٹیشن تک نریندر مودی نے کئی بار حفاظتی پروٹوکول کی خلاف ورزی کی ہے

پنجاب میں مبینہ سکیورٹی کوتاہی  کی ضرور جانچ ہونی چاہیے،لیکن یہ وزیراعظم کے حفاظتی  پروٹوکول کی خلاف ورزی کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ایس پی جی کے سابق عہدیداروں کا کہنا ہےکہ حتمی فیصلہ صرف نریندر مودی ہی لیتے ہیں اور اکثر طے شدہ امورکو انگوٹھا دکھاتےدیتے ہیں۔

2017 میں دھروئی ڈیم سے سی-پلین کے ذریعے سابرمتی ریور فرنٹ لوٹتے وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو: ٹوئٹر/@narendramodi)

2017 میں دھروئی ڈیم سے سی-پلین کے ذریعے سابرمتی ریور فرنٹ لوٹتے وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو: ٹوئٹر/@narendramodi)

پنجاب میں وزیر اعظم نریندر مودی کی سکیورٹی میں مبینہ کوتاہی کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے۔ اس معاملے کو لے کر مرکزی حکومت اور پنجاب کی ریاستی حکومت کے بیچ رسہ کشی جاری ہے۔

دریں اثناحفاظتی اداروں کے کئی لوگ اس بات کو لے کرحیران ہیں کہ وزیر اعظم کے حفاظتی  پروٹوکول میں اس سے پہلے ہوئی دیگر خلاف ورزیوں- جن میں سے اکثر موجودہ وزیر اعظم سے متعلق ہیں- نے سیاست یا میڈیا کی توجہ کیوں حاصل نہیں کی ۔

اسپیشل پروٹیکشن گروپ (ایس پی جی)کے سابق عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حتمی فیصلہ نریندر مودی ہی لیتے ہیں اور وہ اکثر طے شدہ پروگراموں کو انگوٹھا دکھا دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر ایک واقعہ ہے جس کا ذکر سب نے یکساں طور پر کیا ہے کہ، جب انہوں نےایک غیر ملکی پائلٹ کے ایک ساتھ سنگل انجن سی-پلین میں اڑان بھرنے کی ضد کی تھی۔ اس پائلٹ کے پاس لازمی سیفٹی کلیئرنس نہیں تھی۔ ایس پی جی کی بلیو بک کسی بھی طرح اس کی اجازت نہیں دیتی ہے۔

سال 2017 کے گجرات اسمبلی انتخابات کے دوران روڈ شو کی اجازت نہ ملنے پر وزیر اعظم نے سابرمتی ریور فرنٹ سے مہسانہ ضلع میں دھروئی ڈیم تک سی-پلین سےجانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت اور اس کے بعد بھی، ریٹائرڈ اور اِن-سروس افسران کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا کہ کیسے اور کیوں مودی کو ایک سنگل انجن پلین  میں اڑان کی اجازت دی گئی۔

لیکن سی-پلین کے واقعہ کے بعد ذمہ داری طے کرتے ہوئے کسی کی نوکری نہیں گئی۔ ایک سابق داخلہ سکریٹری اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہے کیوں کہ’بلیو بک کی خلاف ورزی عام طور پر وی وی آئی پی کے کہنے پر ہوتی ہے اور یہ ہر مہینے ہوتی ہے’۔ ان خلاف ورزیوں کو ایس پی جی کی جانب سےوزیر اعظم کے دفتر اور وزیر اعظم کے سامنے لایا جاتا ہے اور معاملہ یہیں ختم ہو جاتا ہے۔

ایس پی جی کی سکیورٹی گیتا- جس کا نام اس کی جلد کے کوبالٹ نیلے رنگ کے نام پر رکھا گیا ہے، ایک 200 صفحات پر مشتمل انکلوژر والی کتاب ہے،جو ملک کے وزیر اعظم کی سکیورٹی کی چھوٹی سی چھوٹی تفصیلات کے ساتھ ہدایات کا مجموعہ ہے۔

اٹھارہ  سال پہلےآخری بارنظر ثانی کی گئی اس کتاب کا ایک نیا مسودہ وزارت داخلہ کے پاس منظوری کے لیے پڑا ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ ترمیم شدہ بلیو بک میں 2008 کے ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے بعد وزیر اعظم کی سکیورٹی میں تبدیلیاں بھی شامل ہوں گی۔

ایسے کئی مواقع آئے ہیں جب ایس پی جی کو وزیر اعظم کے اصرار کے سامنے جھکنا پڑا ہے۔ اپنی مدت کے پہلے ہی سال میں ایک غیر ملکی دورے کے دوران – دی وائر ذرائع کو محفوظ رکھنے کے لیےاس ملک کا نام ظاہر نہیں کر رہا ہے- مودی اپنے قافلے کو روک کر جمع بھیڑ سے ملنا چاہتے تھے۔ لیکن انٹلی جنس ایجنسیوں کو اطلاعات ملی تھیں کہ کافی نزدیک سےوزیر اعظم کو قتل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور ان کے مطابق یہ خطرہ بالکل ‘واضح اور موجود’ تھا۔

جب مودی نے باہر نکلنے کی خواہش ظاہر کی تو وزیر اعظم کی کارمیں سفر کررہی ٹیم نے پیچھےکی  کار میں آ رہے ایس پی جی کے سربراہ سے اس بارے میں مشورہ کرنے پر اصرار کیا ۔ ایس پی جی کے سربراہ کی ہدایات واضح تھیں:کسی بھی حالت میں قافلے کو مقررہ مقام کے علاوہ کہیں اور نہیں روکنا ہے۔

اگر اس حکم کی خلاف ورزی کی گئی تو اس افسر کو سرکاری حکم کی خلاف ورزی کرنے پر موقع پر ہی برخاست کر دیا جائے گا۔ قافلہ آگے بڑھ گیا۔ بعد میں ایس پی جی سربراہ کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

صرف ایس پی جی کو ہی مودی کے مطالبات کو ماننے سے انکار کرنے پر مجبور نہیں ہونا پڑاہے۔ 2015 کے جرمنی کے دورے کے دوران مودی نے برلن ریلوے اسٹیشن جانے کی ضد کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک جدید ریل ٹرمینل کے کام کرنے کے طریقے کا مشاہدہ  کرنا چاہتے تھے۔

ریلوے اسٹیشن پر آنے والے لوگوں کی تعداد اور اس کی عوامی نوعیت کو دیکھتے ہوئے جرمنی کی سکیورٹی نے اس درخواست کو قبول کرنے میں اپنی معذوری  کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ایسی جگہ کو سینٹائزکرنا ممکن  نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود وزیر اعظم نے اپنی  چلائی اور وہاں جا کر ہی مانے۔ ایس پی جی کے لیے یہ بہت چیلنجنگ تھا۔

2015 میں برلن اسٹیشن پرنریندر مودی۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

2015 میں برلن اسٹیشن پرنریندر مودی۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

سکیورٹی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم کی سکیورٹی کے پہلے سے طے شدہ پروگرام کو تبدیل کرنے کی عادت کا شکار کئی  بار غیر ملکی سربراہ مملکت بھی ہوئے ہیں۔

سال 2017 میں جاپانی سکیورٹی ایجنسیاں اس وقت حیران رہ گئیں جب انہیں یہ بتایا گیا کہ ان کے وزیر اعظم شنزو آبے کو گجرات میں سابرمتی آشرم کے دورے کے دوران مودی کے ساتھ کھلی جیپ میں سفر کرنا پڑے گا۔

آخرمیں جاپانی فریق کو اس کی منظوری دینی پڑی اور آبے نے مودی کے ساتھ گیندےکے ہاروں سے مزین ایک کھلی جیپ میں سفر کیا۔ ہندوستانی  ملبوسات میں تصویریں بنوا کر جاپانی وزیر اعظم نے اس پروگرام کو مطلوبہ انجام بھی دے دیا۔

2017 میں جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے اور ان کی اہلیہ کے ساتھ احمد آباد میں روڈ شو کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

2017 میں جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے اور ان کی اہلیہ کے ساتھ احمد آباد میں روڈ شو کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

لیکن مودی کے پیش رووں کے دور میں بھی ایسےکئی مواقع آئے جب ان کے حفاظتی انتظامات میں کوتاہی نظر آئی ۔

سال 2012 میں وزیر اعظم منموہن سنگھ کا ایڈوانسڈ سکیورٹی لنک تھائی لینڈ کے دورے سے پہلےلیک ہو گیا تھا، کیونکہ یہ پیغام ایک غیر محفوظ لائن سے بھیجا گیا تھا۔

اس سکیورٹی کوتاہی کو ایس پی جی کے سائبر آڈٹ کے دوران این ٹی آر او  کی طرف سے سامنے لایا گیا۔ این ٹی آر او کی طرف سے ایس پی جی کو لکھی یہ چٹھی اس رپورٹر نے دیکھی  ہے۔

پنجاب کی جانچ میں بلیو بک کی ان دیکھی آئے گی سامنے

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ وزیر اعظم کے موٹر قافلے کو ماضی میں بھی روکا گیا ہے،نوئیڈا اور دہلی میں، اور اس وقت ان کی جان کوخطرے کو لے کر اتناہنگامہ نہیں ہوا تھا، پھر بھی پنجاب میں پیش آنے والے واقعہ کی مناسب جانچ ادارہ جاتی خامیوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے، تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اس طرح کا واقعہ ملک  کہیں بھی دہرایا  نہ جائے۔

سابق سی آئی سی ڈی پی سنہا، جو گزشتہ تین دہائیوں سے انٹلی جنس بیورو کے افسر کے طورپر ایڈوانسڈ سکیورٹی لنک کی میٹنگوں میں شامل رہے ہیں، کہتے ہیں،سب کچھ بلیو بک میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔ اور اگر ان کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو بھی بلیو بک کے مطابق جوابدہی طے کیے جانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جب بات وزیر اعظم کی ہو تو کچھ بھی قسمت کے بھروسے نہیں چھوڑا جا سکتا۔

لیکن بلیو بک میں اور بھی بہت کچھ ہے، جس کا جواب مرکزی اور ریاستی حکومتوں کودینے کی ضرورت ہے۔

مثال کے طور پر، ایڈوانس سیکورٹی لیزن (اے ایس ایل) کے مطابق، کیا بارش کے امکان کو لے کر محکمہ موسمیات سے ان پٹ نہیں لیا گیا تھا؟ اگر موسم اتنا خراب ہو گیا کہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے پنڈال تک جانا ممکن نہیں تھا تو کیا ہنگامی راستے کا فیصلہ اے ایس ایل کے مطابق نہیں کیا گیا تھا؟ کیا یہی وہ ہنگامی راستہ تھا جس کا استعمال وزیراعظم نے کیا؟

کیاایس پی جی نے حقیقت میں وزیر اعظم کو ایک سینٹائزنہ کیے گئے راستے پر سکیورٹی کلیئرنس کے بغیردو گھنٹے کےسفر کی اجازت دے دی؟ بلیو بک کے مطابق ایس پی جی اس وقت تک آگے نہیں بڑھتی جب تک کہ متعلقہ ریاستی پولیس پورے راستے کوسینٹائزکردیے جانے کی  گرین سگنل نہیں دیتی۔

سپریم کورٹ میں سالسٹر جرنل تشار مہتہ نےریاستی حکومت کوسکیورٹی میں لاپرواہی کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی۔مہتہ نے کہا،جب بھی وزیر اعظم کا قافلہ سڑک پر چلتا ہے، ریاست کے ڈی جی سے مشورہ کیا جاتا ہے اور ان کی اجازت سے ہی قافلہ آگے بڑھتا ہے۔

انہوں نے کہا، ڈی جی نے جھنڈی دکھا ئی اور کہیں سڑک بند ہونے کے بارے میں نہیں بتایا۔ اگر ایسا ہےتو ڈی جی کو جواب دینا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان  کے ماتحت افسران کو بھی جو روٹ کے مختلف حصوں کے لیے ذمہ دار ہوں گے۔

لیکن وزیر اعظم کے قافلے میں وارننگ کار اور پائلٹ کار بھی ہوتی  ہے۔ کیا پہلی کار نے بھیڑ کو نہیں دیکھا اور یہ پیغام فوراً متعلقہ شخص تک نہیں پہنچایا؟ پھر کیوں قافلہ سڑک  بند کیے جانے کی جگہ کے اتنےقریب پہنچاجہاں سے مظاہرین کا ٹریفک جام صاف نظر آرہا تھا۔

اگر ایس پی جی کو وہاں خطرہ دکھائی دیا  تو وہاں 20 منٹ انتظار کرنے کے بجائے ایس پی جی نے فوراً پر یو ٹرن کیوں نہیں لیا تاکہ آگے ٹریفک جام اور قافلے کے بیچ  کچھ فاصلہ پیدا ہو سکے۔

مہتہ نے عدالت میں اعتراف کیا کہ وارننگ کار قافلے سے 500-700 میٹر آگے تھی، لیکن انہوں نے عدالت کو یہ نہیں بتایا کہ کیا قافلے کو پائلٹ نے الرٹ کیا تھا۔

اس کے بجائے انہوں نے کہا کہ ‘موٹر قافلے کواس بارے میں  فلائی اوور پر آجانے کے بعد ہی پتہ چلا۔ اس کے بعد انہوں نے وہاں انتظار کررہے پولیس اہلکاروں پر الزام لگایا، جو ان  کے مطابق چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے:’انہوں نے وارننگ کار کو سڑک بند ہونے کے بارے میں آگاہ نہیں کیا!’

یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کیوں اتنی بڑی تعداد میں عام شہری قافلے کے لیے مختص سڑک کے دوسری طرف جمع تھے۔ ڈیوائیڈروالی چار لین والی شاہراہ پر صرف ڈیوائیڈر کے ایک طرف کی سڑک ٹریفک کے لیے بند کی گئی تھی، جبکہ دوسری طرف موٹر ڈرائیور اور بی جے پی کاجھنڈا اٹھاکر نعرہ لگا نے والے تھے۔

ایک سابق انٹلی جنس افسر کا کہنا ہے کہ خطرے کے اندازے، سرحد سےنزدیکی اور ٹریفک کی کثافت کے مدنظر دوسری طرف ٹریفک کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں کیا فیصلہ لیا گیاتھا، یہ تو اے ایس ایل سے ہی پتہ چلے گا، لیکن عام طور پر سرحدی ریاست میں دونوں طرف کی سڑکوں کو بند کر دینا چاہیے۔ یہاں ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف کا راستہ وزیر اعظم کی طے شدہ ریلی میں پہنچنے کے لیے کھول کر رکھا گیا تھا۔

لیکن جب وزیر اعظم کے قافلے نے یو ٹرن لیا اور سڑک کی غلط سمت میں چلنا شروع کردیا تو اس راستے پر ٹریفک کو فوراً روک دیناچاہیے تھا، جب تک کہ قافلہ صحیح راستے پر نہ پہنچ جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ‘یہ پورا معاملہ ہی بے مثال ہے۔’

(میتو جین سینئر صحافی ہیں۔)

(اس  رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)