فکر و نظر

 بُلی بائی جیسے ایپ کو محض جرم سمجھنا اس میں پوشیدہ بدنیتی اور گہری سازش سے منھ موڑنا ہے

مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کے پس پردہ ، اس سازش کا مقصد یہ ہے کہ اس قوم کو اس قدر ذلت دی جائے، ان کےعزت نفس کو اتنی ٹھیس پہنچائی  جائے کہ تھک ہارکر وہ ایک ایسی’شکست خوردہ  قوم’کے طور پر اپنے وجود کو قبول کر لیں، جوصرف اکثریت کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے کو مجبور ہے۔

بُلی بائی  ایپ پلیٹ فارم کا اسکرین شاٹ۔ (بہ شکریہ: ٹوئٹر)

بُلی بائی  ایپ پلیٹ فارم کا اسکرین شاٹ۔ (بہ شکریہ: ٹوئٹر)

مسلم خواتین کی عزت کو ایک بار پھر نشانہ بنا کر مجروح کیا گیا ہے۔ ‘گٹ-ہب’نامی آن لائن پلیٹ فارم پر ‘بُلی بائی’ نام کے ایک ایپ نے کئی معروف اور ممتازمسلم خواتین کو ‘مجازی نیلامی’پر چڑھادیا۔

دی وائر کی ایک خاتون صحافی کی شکایت پر دہلی پولیس نےایف آئی آر درج کی۔ دوسری جانب ممبئی پولیس نے وہاں درج ایف آئی آر کی بنیاد پر بنگلورو سے انجینئرنگ کے 21 سالہ طالبعلم وشال جھا اور اتراکھنڈ سے انجینئرنگ میں داخلہ لینے کی خواہش مند 18 سالہ شویتا سنگھ کو گرفتار کیا۔ دو مزید گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔

گزشتہ سال بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔تب  اسی’گٹ-ہب’پلیٹ فارم پر ‘سلی ڈیلز’نامی ایپ پر مسلم خواتین کو نیلامی کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ انہیں’بائی’کے طور پر لینے کی بات ہوئی تھی، پہلے انہیں’ڈیل آف دی ڈے’کہاگیا تھا۔

اس وقت دہلی میں دو کیس درج ہوئے تھے۔ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن نے 30 اکتوبر 2021 کو رپورٹ کیا تھا  کہ 118 دن گزر جانے کے بعد بھی کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

میڈیا رپورٹ ہے کہ دہلی پولیس نے مدھیہ پردیش کے اندور سے مبینہ طور پر ‘سلی ڈیلز’ایپ بنانے والے 26 سالہ اومکاریشور ٹھاکر کو گرفتار کیاہے۔

‘بُلی’ اور ‘سلی’ لفظ ‘مُلی’کو جان بوجھ کر توڑ مروڑ کر تخلیق کیا گیا ہے، لیکن ان کا اشارہ واضح ہے۔ ‘مُلی’مسلم خواتین کے لیے توہین آمیز خطاب کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ایپ بنانے والوں نے ایسا اس لیے کیا ہو گا کہ ‘گٹ ہب’کہیں’مُلی’کے معنی اربن ڈکشنری میں  دیکھ کر ایپ کو اپ لوڈ کرنے سے منع  نہ کردے۔

چونکہ ان دونوں فعل پر معاشرے اور میڈیا میں شدید ردعمل سامنے آیا، اس لیے انتخابات کے پیش نظر حکومت اور پولیس دونوں ہی انہیں ایک جرم بنا کر پیش کر رہے ہیں، جس پر پولیس کارروائی سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ہم کہتے ہیں کہ انہیں محض سائبر کرائم سمجھنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ یہ ماننا بھی غلط ہو گا کہ چند پراگندہ ذہن کے لوگوں نے اس فعل کو انجام دیا ہے۔

انٹرنیٹ پر معروف خواتین کے بارے میں فحش باتیں کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تمام فلمی ایکٹریس، ماڈلز، نیوز اینکرز، اسپورٹس پرسنز اور یہاں تک کہ خواتین عہدیداروں کو بھی انٹرنیٹ پورن فورمز میں باقاعدہ پول کرکے ‘ریٹنگ’ دی جاتی رہی  ہے اور ان کے بارے میں جنسی تشددتک کی  باتیں کی جاتی رہی ہیں۔

دہلی کے ایک اسکول میں لڑکوں نے انٹرنیٹ پر ‘بوئس لاکر روم’ بنا کر اپنے ساتھ پڑھنے والی نابالغ لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی کیاتھا۔

لیکن اگر خواتین کی ‘ورچوئل نیلامی’ کے پیچھے اگر ان کا مقصد صرف اس سے ایک پراگندہ جنسی لذت حاصل کرنا ہوتا تو وہ معاشرے کے ہر طبقے سے خواتین کولیتے جیسا کہ وہ مذکوربالا پورن فورمز میں کرتے آئے ہیں۔ ان ایپس میں انہوں نے،خاص طور پر ممتاز مسلم خواتین کو ہی کیوں منتخب کیا؟

ظاہر ہے کہ ان کا مقصد مسلم خواتین کو ذلیل کرنا تھا۔ مسلم خواتین کی نیلامی بھلے ہی مجازی رہی ہو لیکن ان کی تذلیل حقیقی تھی۔

مسلمانوں کو نیچا دکھانے کا اصل مقصد ان کی’سماجی شکست’ کی سازش ہے

ملک میں گزشتہ چند سالوں سے بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ منافرت اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ پچھلے دنوں ہری دوار میں ہوئے دھرم سنسد میں بارباریہ اشارہ کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کے قتل عام کی خواہش رکھتے ہیں۔

حالاں کہ ان پر بہت سی سنگین دفعات لگائی جانی چاہیےتھیں، لیکن ان سطور کے لکھےجانے تک  ان کی گرفتاری بھی نہ کیے جانے سےمسلمانوں کو براہ راست  یہ پیغام جاتا ہے کہ یہ لوگ ان کے خلاف کچھ بھی زہر فشانی کر سکتے ہیں، کچھ بھی غلط باتیں کر سکتے ہیں،لیکن ان  کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔

راست لفظوں میں کہیں تو پیغام یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو ‘دباتے رہیں گے’ یا ‘دبا’  کر رکھیں گے  اور ان کے دبدبے کو کسی  قانونی چیلنج کا سامنانہیں ہوگا۔

اب نفرت کے یہ سوداگر اتنا تو سمجھتے ہی ہیں کہ ان کی شدید خواہش کے باوجود ملک سے تقریباً 20 کروڑ عوام کے نام ونشان کومٹا دینا ممکن نہیں ہے۔ تاریخ کی بدترین دوسری جنگِ عظیم میں بھی صرف چھ سالوں میں ساڑھے آٹھ کروڑ سے کچھ کم لوگ ہی مارے گئے تھے۔

تو وہ کیا کریں؟ لیکن ان کے پاس طریقہ ہے۔

وہ جانتے ہیں کہ پولیس یا اقتدار کے جانبدارانہ رویے کا فائدہ اٹھا کر وہ 20 کروڑ عوام کو کئی طریقوں سے ذلیل ضرور کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ گڑگاؤں میں نماز پر اعتراض کرنے والوں نے قانون کا سہارا لینے کے بجائے ان کے ساتھ کھلم کھلا غنڈہ گردی کی۔اس کے پہلےگائے کے گوشت کی فروخت کے الزام یا نام نہاد ‘لو جہاد’کے نام پر غنڈہ گردی اور قابل اعتراض بیان بازی کی گئی۔

مسلم میوہ فروشوں یا ریہڑی والوں کو کالونیوں میں داخل نہ ہونے کی دھمکی دی جارہی ہے۔ ایک روٹی بنانے والے کے خلاف ‘تھوک جہاد’ کا الزام لگا کر مقدمہ درج کردیا گیا۔ متھرا میں ایک ڈوسا بیچنے والے کے یہاں اس لیے  توڑ پھوڑ کی گئی کیونکہ اس کی دکان کا نام مسلمان نہیں تھا۔

ان تمام حرکات کے پس پردہ ، یہی ذہنیت کارفرما ہے کہ بعض اوقات شکست خوردہ کو مارنے سے زیادہ ذلیل کرنےمیں مزہ آتا ہے اور شکست خوردہ کےلیےکتنی ہی بارذلت موت سے زیادہ گراں  ہوتی ہے۔

میں نے اس موضوع پر پہلے بھی لکھا تھا کہ ایک پوری کمیونٹی کو مختلف طریقوں سے بدنام کرنے کے پس پردہ  ایک گہری سازش  کارفرماہے۔

سازش کا مقصد انہیں اتنا ذلیل کرنا ہے، ان کی عزت نفس کو اس قدر مجروح کرنا ہے کہ وہ تھک ہار کر اپنے وجود کو ایک ایسی’شکست خوردہ قوم‘ کے طور پر قبول کر لیں جو صرف اکثریت کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے،حالاں کہ ان کا اس ملک میں رہنے کا کوئی’تاریخی حق’ نہیں۔

نفرت اور توہین کے ان تمام اقدامات کا طویل مدتی مقصد یہ ہے کہ مسلمان آخرکار اپنی ‘معاشرتی شکست’کو تسلیم کر لیں اور عملی طور پر یہ مان لیں کہ وہ اکثریتی طبقےکےسامنے دوسرے درجے کے شہری ہیں، بھلے ہی قانونی طور پریاآئین کے مطابق ان کا درجہ کچھ بھی ہو ۔

خواتین کو ذریعہ بنا کر پوری مسلم کمیونٹی پر نشانہ

مہابھارت میں دروپدی کو قماربازی میں جیتنے کے پیچھے کورووں کا مقصد ان کوجنسی طور پر استعمال کرنا نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ انہیں اپنے محلوں میں لے جاتے اور اپنے مقصد کی تکمیل کرتے۔ انہیں بھرے مجمع میں گھسیٹنے کا مقصد دراصل پانڈووں کی مردانگی اور مردانہ وقار کو کمتردکھانا تھا۔

جب دروپدی نے دوشاسن سے کہا کہ کورو خاندان کی دلہن کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جا سکتا تو اس نے جواب دیا کہ اب وہ لونڈی ہے اور لونڈی کی عزت کیسی؟ (سبھاپرو، مہابھارت)

یعنی نوکرانی بنا کر انہوں نے پہلے ہی دروپدی کی عزت چھین لی- اس کے بعد اس کو بے لباس کرنا تومحض ایک رسم تھی۔

آج کے یہ نفرت کے سوداگر مسلم خواتین کے ساتھ بالکل یہی کر رہے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ اکثر تعلیم یافتہ اور نامور خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کا مقصد مسلم کمیونٹی کو یہ پیغام دینا ہے کہ جب ان خواتین کو اتنی آسانی سے ذلیل کیا جا سکتا ہے تو پھر عام مسلم خواتین کی کیا بساط ؟

اصل بات ان خواتین کا محترم ہونا ہے؛ان کا صحافی ہونا،بےباک  ہونایا کارکن ہونا نہیں۔ ‘سلی ڈیل’میں ایک خاتون پائلٹ کو بھی نشانہ بنایا گیاتھاجنہوں نے خود کہا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی سیاست یا بحث سے دور رہتی ہیں۔

دہشت گردوں کی طرح وہ ذہنوں کو نشانہ بنا رہے ہیں

دہشت گرد جانتے ہیں کہ بھلے ہی وہ سینکڑوں بم دھماکے کر لیں تو بھی وہ کسی قوم کو اس قدر گھٹنےپرنہیں لاسکتے۔ دہشت گردی کی اصل طاقت اس نفسیاتی اثر میں پوشیدہ ہے جو ان کے عمل سے عوام کے ذہنوں پر مرتب ہوتا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ کس طرح ہر حملے کے بعد میڈیا میں’بم دھماکے سے دیش دہلا’ کا راگ الاپنا شروع ہو جاتا ہے۔ ٹی وی پر موقع واردات کا منظر؛ زخمیوں، موقع پر موجود لوگوں، پولیس اہلکاروں، دہشت گردی اور دھماکہ خیز مواد کے خود ساختہ ماہرین کے انٹرویوز؛حملے کے ذمہ دار گروپ اور آئی ایس آئی نے انہیں بم دیا ہوگا کاتصور :اور ملک کس طرح دہشت گردوں کے سامنے بے بس، بے سہارا پڑا ہے،کی  مسلسل نشریات شروع کر دیتے ہیں۔

غرض یہ کہ عوام کے ذہنوں میں دہشت گردوں کی حقیقت سے کہیں بڑی  امیج پیدا ہوجاتی ہے اور دہشت گردوں کا مقصد صرف اسی سے پورا ہوجا تا  ہے۔ یہی تکنیک نفرت کے سوداگروں کی بھی  ہے۔ یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلم کمیونٹی کچھ اس طرح کا ردعمل ظاہر کرے جو ان کے خلاف کام میں لائی  جاسکے۔

مثال کے طور پر، اگر ‘بُلی بائی ‘ اور ‘سلی ڈیل’ جیسی چیزوں سے تنگ آکر مسلمان خواتین مایوس ہو جائیں یا ڈپریشن میں چلی جائیں یا اپنے کام سے لاتعلق ہو جائیں تو ان لوگوں کا فوری مقصد پورا ہو جائے گا۔

ہری دوار دھرم سنسد کے پیچھے منشا یہ بھی تھی کہ اگر کوئی مسلمان بھڑک کر بدلہ لینے جیسا بیان دے  دے تو اس کا استعمال ان کے خلاف ہندوؤں کوبھڑکانے میں کیا جا سکے۔

انہیں نفسیاتی فائدہ حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلم خواتین مضبوط رہیں اور ان سے پریشان ہوئے بغیر اپنا کام جاری رکھیں۔

یہ جرم نہیں بلکہ گناہ ہے

ان حرکتوں کو محض جرم سمجھنا ان میں پوشیدہ بد نیتی اور گہری سازش کی طرف سے آنکھیں بند لینا ہو گا۔

اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک 18 سالہ لڑکی اور ایک 21 سالہ لڑکا اس پورے واقعہ کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ چاہے اس کے پیچھےکا اصل ‘ماسٹر مائنڈ’سامنے آئے  نہ آئے، سچ یہی ہے کہ وہ اکیلےنہیں ہو سکتے۔

ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ ملک بھر میں مسلم کمیونٹی کو کئی طریقوں سے ذلیل کیا جا رہا ہے۔ دو چار لوگوں کو سزا ہو بھی جائے تو بھی اس وقت پیدا ہونے والا غصہ تو کم ہو جائے گا لیکن اس طویل مدتی سازش پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

اگر بات صرف آن لائن جنسی ہراسانی کی ہے تو جیسا کہ ہم نے ایکٹریس وغیرہ کے معاملے میں دیکھا ہے، اسے پچاس دیگر طریقوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اس گہری سازش کا صرف ایک حصہ ہے۔

جو لیڈر ہر پلیٹ فارم سے قدیم ہندوستانی ثقافت اور اقدار کی دہائی دیتے نہیں تھکتے انہیں یاد دلانا چاہیے کہ شری کرشن نے 49 لاکھ لوگوں (18 اکشوہنی فوجوں)کو صرف ایک دروپدی کی توہین کے بدلہ کے لیے مارے جانے دیا تھا۔

اگر وہ چاہتے تو صرف درویودھن وغیرہ کو سزا دے سکتے تھے۔ لیکن اسے یہ ابدی سماجی پیغام دینا تھا کہ عورت کی عزت پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ عورت کی توہین کرنا صرف جرم نہیں بلکہ گناہ ہے۔ یہی اصل ہندوستانی ثقافت ہے۔

سینئر صحافی عارفہ خانم شیروانی نےبڑی تکلیف  کے ساتھ لکھا، عورتوں کو دیوی بناکر پوجنے والے اس ملک میں خواتین کا بازار لگایا گیا ہے، بولیاں لگائی جارہی ہیں۔ آپ خاموش ہیں، کیوں کہ وہ آپ کے خاندان کی عورتیں نہیں ہیں؟ یہی ہے آپ کی تہذیب ، یہی ہے آپ کی اخلاقیات؟ یہی ہے آپ کی ہندوستانیت؟ تاریخ آپ کی اس مجرمانہ بزدلی کو معاف نہیں کرے گی۔

سچ ہے،یہ ہمارے لیے قومی شرم کی بات ہے کہ ‘ہماری’ مسلم خواتین کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے، دروپدی کا ایک بار پھر چیر ہرن  ہورہا ہے، دوسرے یُگ میں، دوسرے طریقے سے، لیکن گناہ وہی ہے اور اتنا ہی مکروہ ہے۔

ان خواتین کے ساتھ کھڑے ہوں اور انہیں مضبوط رہنے میں مدد کریں! آپ کی خاموشی اس گناہ کو منظوری دینا ہے  اور یہ بذات خود گناہ  ہے۔

(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ )