خبریں

ملازمین کا دعویٰ؛ اُردو نیوز بلیٹن کی تعداد کم کرنے کے معاملے میں پرسار بھارتی کی ’تردید‘ گمراہ کن  

دی وائر  نے  مرکزی ڈی ڈی اُردو چینل پر بلیٹن کے گھٹائے جانے  کے بارے میں ویڈیو اسٹوری کی تھی، اس پر  جواب دیتے ہوئے  پرسار بھارتی نے اُردو بلیٹن سے متعلق ایک ایسی فہرست پیش کی ہے جو نیٹ ورک کے دوسرے چینلوں پر نشر ہو رہے ہیں۔

ڈی ڈی اردو السٹریشن: دی وائر

ڈی ڈی اردو السٹریشن: دی وائر

گزشتہ 15 جنوری کو پرسار بھارتی نے دی وائر کی ایک ویڈیو اسٹوری کا جواب دیتے ہوئے  ٹوئٹ کیا تھا؛

فرضی خبروں کے پیروکار، دوردرشن نیٹ ورک پر اردو خبروں کی کوریج کی تفصیل کے لیے  اس تھریڈ پر توجہ مبذول کر سکتے ہیں۔

دراصل دی وائر کی یہ خبر ڈی ڈی اردو پر اُردو میں نشر ہونے والے روزانہ نیوز بلیٹن کی تعداد کو 10 سے کم کر کے2 کرنے کے سلسلے میں کی گئی تھی۔

 متعدد کانٹریکٹ اور کیزول اسٹاف نے دی وائر کو بتایا تھاکہ، دوسرے ڈویژن میں باقاعدہ پروگرام شروع کردیے گئے ہیں،جبکہ  اردو ڈویژن میں اب تک ایسا نہیں کیا گیا۔

 ان دستیاب معلومات کی بنیاد پر دی وائر نے سوال کیا تھاکہ ،  کیا پرسار بھارتی اردو زبان کو نظر انداز کر رہی ہے؟

حالاں کہ، رپورٹ میں کیے گئے دعوؤں کی تردیدکرنے یا مناسب جواب دینے کے بجائے پرسار بھارتی نےٹوئٹ میں ڈی ڈی کاشر، ڈی ڈی بہار، ڈی ڈی اُردو، ڈی ڈی یڈگیری، ڈی ڈی بنگلہ، ڈی ڈی اتر پردیش اور ڈی ڈی مدھیہ پردیش جیسے اپنے نیٹ ورک میں چینلوں پر نشر ہورہے اردو بلیٹن کی فہرست پیش کردی اور دی وائر کی جانب سے اٹھائے گئے ڈی ڈی اردو کے نیوز بلیٹن کی تعداد میں کمی پر کسی طرح کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔

البتہ، انہوں نے اپنےٹوئٹ میں دی وائر کے اس دعوے کی تصدیق کردی کہ ڈی ڈی اردو پر اب محض  دو بلیٹن نشر کیے جارہے ہیں ۔ ایک صبح 9 بجے اور دوسرا شام 5:30 بجے۔یہ جانکاری پرسار بھارتی نے اپنے ٹوئٹر تھریڈ میں دی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ دی وائر کی رپورٹ میں کہیں بھی یہ دلیل نہیں دی گئی تھی کہ ڈی ڈی نیٹ ورک کے دیگر چینلوں پر اردو بلیٹن نشر نہیں کیے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ڈی ڈی اردو پر نشر ہونے والے 8 بلیٹن بند کر دیے گئے ہیں۔

ڈی ڈی نیوز (اردو ڈیسک) کے ساتھ اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر کیزو ل کے طور پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک چینل کے لیے کام کر چکے اشرف علی بستوی کا کہنا ہے کہ،  بات یہ نہیں ہے کہ  نیٹ ورک کے دوسرے چینلوں پر کتنے بلیٹن نشر ہو رہے ہیں بلکہ مین اُردو چینل پر بلیٹن کی تعداد کم ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ،پرسار بھارتی کا دعویٰ گمراہ کن ہے، کیونکہ اس میں بلیٹن کے  بندکیے جانے کے بارے میں حقائق کو چھپایا گیا ہے۔ جس نے مجھ جیسے اردو صحافیوں کو متاثر کیا ہے۔

کئی دوسرے کانٹریکٹ اسٹاف،کیزول اسٹاف اور اردو صحافیوں سے بھی دی وائر نے بات کی۔انہوں نے اشرف علی بستوی کی بات کو درست قرار دیا۔

 ڈی ڈی اردو کے ایک موجودہ ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ،  وبا سے پہلے چینل روزانہ 10 بلیٹن نشر کرتا تھا، اب اسے کم کر کے صرف دو کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ عملہ نہیں ہے، لیکن ہندی اور انگریزی بلیٹن کی طرح اُردو بلیٹن کودوبارہ شروع نہیں کیا گیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اردو سے متعلق کام تفویض کرنے کے بجائے اردو کے کچھ عملے کو دوسرے ڈویژن میں زبردستی کام کرنے کو مجبور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اردو میں اب خاطر خواہ کام ہی نہیں ہے۔

ڈی ڈی اردو کے ایک اور اسٹاف نے کہا، اگر اردو زبان کے کسی ملازم کا کسی دوسرے ڈویژن میں تبادلہ کیا جاتا ہے تو مان لیجیے کہ وہ غلطی کا مرتکب ہوا ہے، ایسی صورت حال میں اردو زبان کے ملازم کو یہ کہہ کرمعطل کیا جا سکتا ہے کہ وہ لائق  نہیں ہیں کیونکہ وہ مذکورہ  زبانوں میں ان زبانوں میں کام کرنے والوں کی طرح ماہر نہیں ہو سکتے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ،  سوال یہ نہیں ہے کہ ڈی ڈی کے نیٹ ورک کا حصہ رہے مختلف چینلوں پر کتنے بلیٹن نشر کیے جا رہے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ ڈی ڈی اردو پر کتنے بلیٹن نشر کیے جا رہے ہیں؟

 انہوں نے پوچھا،فرض کیجے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا’من کی بات’ 50 چینلوں پر ٹیلی کاسٹ ہو رہا ہے، تو کیا  ہم یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ 50 ‘من کی بات’ پروگرام ٹیلی کاسٹ ہو رہے ہیں؟

ایک دہائی سے زائد عرصے تک ڈی ڈی اردو کے ساتھ کام کر چکے ایک سینئر اینکر نے کہا، ہم نے سی ای او کے ساتھ ساتھ ڈی جی کو درجنوں ای میل اور خطوط لکھے ہوں گے، لیکن ان  کی طرف سے شاید ہی کوئی جواب آیا ہو۔

حالاں کہ دوسری زبانوں میں کیزول ملازمین نے مختلف شفٹوں میں دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا ہے، مگرہمیں ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے کہا، امید ہے کہ ان کی درخواست جلد ہی سنی  جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹوئٹر پر پرسار بھارتی کی طرف سے درج بہت سے بلیٹن علاقائی اسٹیشنوں کے ذریعے تیار کیے گئے ہیں اور ان کا ڈی ڈی اردو نیشنل ڈیسک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

واضح ہوکہ یہ صحافی ایک سال سے زائد عرصے سے بلیٹن کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پچھلے سال فروری میں ان کے مطالبے کی بنیاد پرمؤقر اُردو روزنامہ انقلاب نے رپورٹ کیا تھا کہ اردو نیوز بلیٹن کو مکمل طور پر بند کرنے کے پیچھے ایک’منصوبہ بند سازش’  نظر آتی ہے۔

اس رپورٹ کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے قومی اقلیتی کمیشن (این سی ایم) کے اس وقت کے وائس چیئرمین عاطف رشید نے دوردرشن کے ڈائریکٹر جنرل کو نوٹس جاری کیا تھا۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے رشید نے کہا کہ مجھے اس معاملے کی موجودہ صورتحال کا علم نہیں ہے ،کیونکہ میری مدت ختم ہو چکی ہے اور میں اب کمیشن کا حصہ نہیں ہوں۔

حالاں کہ، انہوں نے کہا کہ ڈی جی نے جواب دیا تھا کہ جیسے ہی صورتحال ‘بہتر’ ہوگی بلیٹن دوبارہ شروع کر دیے جائیں گے۔

 دی وائر نے قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اقبال سنگھ لال پورہ سے بھی رابطہ کیا،  لیکن ان کے پرسنل سکریٹری بھوپیندر سنگھ نے کہا کہ چیئرمین سرکاری دورے پر ہیں اور کچھ دنوں بعد واپس آئیں گے۔ ان کا جواب موصول ہوتے ہی اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کر دیا جائے گا۔

ابھی تک اس معاملے میں کوئی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سےکئی  اردو صحافیوں نے پرسار بھارتی کے سی ای او کو خط لکھنے کی مہم بھی شروع کی ہے، جس میں آل انڈیا ریڈیو اور ڈی ڈی نیوز اردو ڈیسک کی طرف سے اردو سروسز کو پہلے کی طرح دوبارہ شروع کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

خطوط

خطوط

دریں اثنا، اردو کے فروغ اور ترقی کے لیے کام کرنے والے کئی اداروں مثلاً؛  غالب انسٹی ٹیوٹ اور دہلی اردو اکادمی کے عہدیداروں نے پرسار بھارتی کے سی ای او ششی شیکھر ویمپتی کو خط لکھ کر صحافیوں کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ حالاں کہ  ابھی تک انہیں اس حوالے سے کوئی جواب یا یقین دہانی نہیں کرائی گئی  ہے۔

دی وائر نے جواب کے لیے پرسار بھارتی کے سی ای او اور ڈی ڈی نیوز کے ڈائریکٹر جنرل سے رابطہ کرنے کی کئی بار کوشش کی، لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ جواب موصول ہونے پر رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)