خبریں

مدھیہ پردیش: متاثرین کا الزام-پولیس آگ زنی اور مسلمانوں پر حملے کے ملزمین کو بچا رہی ہے

مدھیہ پردیش کے کھنڈوا میں کوڑیا ہنومان مندر کےعلاقے کا معاملہ۔ بنٹی اپادھیائے نام کے ایک شخص پر دو مسلم خاندانوں نے الزام لگایا ہے کہ اس نےان کی املاک کو آگ لگانے، ان  کے خاندان کے افراد پر حملہ کرنے اور علاقہ چھوڑنے کی دھمکی دی۔ متاثرین نے الزام لگایا کہ انہیں ان کی مذہبی شناخت کی وجہ سےنشانہ بنایا گیا، لیکن پولیس نے متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج نہیں کیا۔

سلیم بیگ کا آٹورکشہ مبینہ طور پر جلایا گیا۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

سلیم بیگ کا آٹورکشہ مبینہ طور پر جلایا گیا۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کی کھنڈوا پولیس پر الزام لگاہے کہ اس نے مسلمانوں کی املاک کو آگ کے حوالے کرنے، ان پر حملہ کرنے اور انہیں علاقہ چھوڑ کر چلے جانے کی دھمکی دینے والے کے خلاف ہلکی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔

الزام ہے کہ بنٹی اپادھیائے نام کےشخص نے کھنڈوا کے کوڑیا ہنومان مندر علاقے میں رہنے والے سلیم بیگ کو دھمکی دیتے ہوئے کہا  تھا کہ یہ ہندو کالونی ہے۔ ہمیں یہاں مسلمانوں کی ضرورت نہیں ہے۔

اس کے بعد 20 جنوری کی شب کو  بیگ کے آٹورکشہ نیز  ایک اور مسلمان شخص شوکت علی کے گھر کو مبینہ طور پر نذر آتش کر دیا تھا۔

کوتوالی تھانے کے تحت آنے والےکوڑیا ہنومان مندر کا علاقہ ایک ہندو اکثریتی علاقہ ہے، جہاں زیادہ تر غریب لوگ رہتے ہیں۔ یہاں چار سے پانچ مسلم خاندان بھی رہتے ہیں۔

کھنڈوا کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس وویک سنگھ کے مطابق، ، اپادھیائےعادتاً مجرم ہے، جس نے 5 جنوری کو پیشہ سے پینٹرشوکت علی پر حملہ کیا اور اسے قتل کی کوشش کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ 19 جنوری کو ضمانت ملنے کے ایک دن بعد اس نے مبینہ طور پر علاقے کے کچھ مسلمانوں کو علاقہ چھوڑنے کی دھمکی دی تھی۔

اگلی صبح مقامی لوگوں کو مبینہ طور پر شوکت علی کا گھر اور سلیم بیگ کا آٹورکشہ جلی ہوئی حالت میں ملا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہاں کے ایک اور رہائشی چندرکانتا کے گھر کے پچھلے حصے میں بھی آگ لگائی گئی ہے۔ دی وائر چندرکانتا سے رابطہ نہیں کرسکا، لیکن علی اور سلیم بیگ کے اہل خانہ سے فون پر بات کی۔

کھنڈوا ضلع کی کوتوالی پولیس نے متاثرین کی شکایت پر 5 جنوری کےبعد سے اپادھیائے کے خلاف چھ الگ الگ ایف آئی آر درج کی ہیں۔

ان چھ میں سے تین ایف آئی آر تین افراد کے املاک کو آگ لگانے کے سلسلے میں 21 جنوری کو آئی پی سی کی دفعہ 435 (آگ یا 100 روپے کا نقصان یا زرعی پیدوار کے معاملے میں 10 روپے کا نقصان پہنچانے کے ارادے سےآگ یا دھماکہ خیز اشیا کا استعمال)، 294 (گالی گلوچ) اور 506 (مجرمانہ دھمکی کے لیے سزا)کے تحت درج کی گئی تھیں۔

اپادھیائے کی جانب سے بیگ اور اس کے خاندان کو علاقہ چھوڑنے کی دھمکی دینے اور شوکت علی کی بہن قمرن بی سے مارپیٹ کرنے کے بعد20جنوری کو دو ایف آئی آر درج کی گئیں۔

ایک اور ایف آئی آر شوکت علی کی طرف سے مسلمانوں کو برا بھلا  نہ کہنے کی وجہ سےان پر بیئر کی بوتل سے حملہ کرنے کے لیےآئی پی سی کی دفعہ 307 (قتل کی کوشش) کے تحت 5 جنوری کو درج کی گئی۔

ایس پی سنگھ نے کہا، ملزم کی گرفتاری کے لیے ٹیم بنائی  گئی ہے۔

دونوں متاثرہ خاندانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بار بار کی شکایت کے باوجود پولیس نے فرقہ وارانہ وجوہات کی بنا پر نشانہ بنانے سے متعلق دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا۔

شوکت علی کی 48 سالہ اہلیہ عقیلہ بی نے کہا کہ ہمیں مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔

الزام ہے کہ 5 جنوری کو شوکت علی کی بیٹی اور اس کا شوہر رشتہ داروں سے ملنے اندور سے کھنڈوا آئے تھے۔ رات 8 بجے کے قریب جب یہ لوگ رات کا کھانا کھا رہے تھے تو بنٹی اپادھیائے ان کے گھر کے پاس کھڑے ہو کر مسلم کمیونٹی کے بارے میں غیر مہذب تبصرے کرنے لگے۔ اس دوران وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بیئر پی رہا تھا۔ جب علی نے اس کی مخالفت کی تو اپادھیائے نے اس پر بیئر کی بوتل سے حملہ کیا۔

عقیلہ بی نے کہا، علی چار دن تک ہسپتال میں رہے اور حملے کے چار دن بعد 9 جنوری کو ہسپتال سے ڈسچارج ہو ئے۔ اپادھیائے کے ساتھیوں کےحملوں کے خوف سے ہمارا خاندان اندور منتقل ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا،جب اپادھیائے کو 19 جنوری کو ضمانت ملی تو اگلے ہی دن اس نے میرے شوہر کی بہن پر حملہ کر دیا، جو گھر کے باہر بیٹھی تھیں۔ اس نے علاقہ نہیں چھوڑنے کی وجہ سے ربڑ کے پائپ سے ان کے چہرے پر وار کیا۔

انہوں نے مزید کہا، چند گھنٹے بعدبنٹی اپادھیائے سلیم بیگ کے گھر گیا اور ان کےدو  بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے علاقہ چھوڑنے کی دھمکی دی۔ اس کے بعد سلیم نے اس کے خلاف کوتوالی تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی۔

انہوں نے الزام لگایا،اگلی صبح اس نے میرے گھر کو آگ لگا دی اور سلیم کے آٹو کو بھی آگ لگا دی۔ ہم نے اپنی زندگی بھر کی کمائی کھو دی ہے۔

شوکت کی بہن قمرن بی نے کہا،اگر پولیس ہماری شکایت سن کر 20 جنوری کو بنٹی کو گرفتار کر لیتی تو سب کچھ معمول پر ہوتا لیکن پولیس نے ایسا نہیں کیا۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے سلیم نے کہا،20 جنوری کو بنٹی ہمارے گھر آیا اور ہمارے 12 اور 13 سال کے بچوں کو علاقہ چھوڑنے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں  زندہ جلانے کی دھمکی دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہندو محلہ ہے اور ہم یہاں مسلمان نہیں چاہتے۔

سلیم نے کہا، ہم نے شام کو ایف آئی آر درج کرائی تھی اور اگلی صبح ہمارا ڈھائی لاکھ روپے کا آٹورکشہ جلا کر راکھ کردیا تھا۔

سلیم (51 سالہ)نے یہ بھی بتایا کہ حال ہی میں ان کی اہلیہ کا آپریشن ہوا ہے اور اس میں ان کی ساری بچت ختم ہو چکی ہے۔

ملزم پر ہلکی دفعات  لگانے کا الزام

متاثرین کا الزام ہے کہ کوتوالی پولیس نے ان کی ناخواندگی کا فائدہ اٹھایا اور ملزمین کے خلاف ہلکی دفعات میں ایف آئی آر درج کی۔

عقیلہ نے کہا، اپنی تمام زبانی شکایتوں میں ہم نے کہا کہ ہم پر حملہ اس لیے کیا گیا کہ ہم مسلمان ہیں۔ میں نے انہیں یہ بھی بتایا تھا کہ ملزم نے گھر کو آگ لگانے سے پہلے قرآن کے اوراق پھاڑ دیے تھے۔ مجھے اس واقعے کے ایک دن بعد قرآن کے پھٹے ہوئے صفحات ملے تھے۔

انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ پولیس کو کیسےیقین دلایا جائے کہ حملہ آوروں کے فرقہ وارانہ مقاصد تھے۔

بہرحال ملزم بنٹی اپادھیائے اور اس کے ساتھیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اقلیتی ترقیاتی کمیٹی کے بینر تلے مسلمانوں نے پولیس کی مبینہ بے عملی پر اعتراض کرتے ہوئے ایس پی کو ایک میمورنڈم پیش کیا ہے۔

ایس پی سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کمیٹی کےسہیل خان نے کہا،  پولیس نے جس طرح سے ایف آئی آر درج کی ہے اس سے لگتا ہے کہ پولیس ملزمین کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ متاثرین کی زبانی شکایات کے باوجود کہ ان پر ان کے مذہب کی وجہ سے حملہ کیا گیا، پولیس نے ایف آئی آر میں اس کا ذکر تک نہیں کیا اور ہلکی دفعات  شامل کیں۔

انہوں نے پوچھا، دو دن ہو گئے، ملزم ابھی تک فرار ہے۔ جب پولیس خود یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ عادتاً مجرم ہے تو کیوں اس کے خلاف این ایس اے نافذ نہیں کرتی یا اس کے خاندان پر سرینڈر کے لیے دباؤ نہیں ڈالتی؟

جب دی وائر نے مدھیہ پردیش کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس وویک جوہری سے متاثرین کےالزامات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا، پولیس کسی عادتاً  مجرم کو کیوں تحفظ دے گی؟ پولیس نے متاثرین کی شکایت پر مقدمہ درج کیا ہے، لیکن اگر متاثرین کو لگتا ہے کہ پولیس نے ان کے بیانات ٹھیک سے نہیں لکھے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ ایس پی سے شکایت کریں اور میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ ان نکات کو جوڑا جائے۔

وہیں فون پر بات کرتے ہوئے ڈی جی پی نے اصرار کیا کہ یہ آتش زنی کا معاملہ ہے۔ ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ مجرموں کو سزا ضرور ملے گی۔

کھنڈوا پولیس نے دی وائر کو بتایا کہ اپادھیائے ایک ٹھیکیدار ہے جس کے خلاف ضلع کے مختلف پولس اسٹیشنوں میں مارپیٹ کے 25 سے زیادہ معاملے درج ہیں۔

واقعہ کے دو دن بعد متاثرین نے کھنڈوا کے ایس پی وویک سنگھ کو لکھے ایک مشترکہ خط میں ایک بار پھر کہا کہ انہیں ان کی مذہبی شناخت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیاتھا۔

متاثرین نے دعویٰ کیا کہ کوتوالی پولیس جان بوجھ کر ہلکے پھلکے الزامات لگا کر مذہبی طور پر ہراسانی  کے معاملے کو روز مرہ کی لڑائی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے، سٹی کوتوالی پولیس اسٹیشن کے افسران آئی پی سی کی ہلکی سیکشن لگا کر جان بوجھ کر کیس کو کمزور کر رہے ہیں۔ اس لیے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ بنٹی اپادھیائے کے خلاف درج ایف آئی آر میں آئی پی سی کی سخت دفعات شامل کی جائیں اور اس کے ساتھیوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے۔

انہوں نے حال ہی میں منظور شدہ مدھیہ پردیش ریکوری آف ڈیمیج ٹو پبلک اینڈ پرائیویٹ پراپرٹی ایکٹ،2021 کے تحت ایف آئی آر کے اندراج پر زور دیا، تاکہ ملزمین کو ان کے نقصانات کی تلافی کی جاسکے۔

(اس  رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)