فکر و نظر

بُلی بائی ایپ کے نشانے پر رہی خواتین کے پاس ایک ہی راستہ ہے … وہ ہے آگے بڑھتے رہنا

سال 2021 میں اقلیتوں کے خلاف ہیٹ کرائم میں اضافہ ہوا،  لیکن میڈیا خاموش رہا۔ اس سال کی ابتدا اور  زیادہ نفرت سے ہوئی،  لیکن اس کے خلاف ملک بھر میں آوازیں بلند ہوئی۔ اقلیتوں اور خواتین سے نفرت کی مہم کا نشانہ بننے کے بعد میں اپنے آپ کو سوچنے سے نہیں روک پاتی  کہ کیا اب بھی کوئی امید باقی ہے؟

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

ماہر نفسیات (سائیکاٹرسٹ)کے دفتر میں

جنوری 8، 2022

میں کئی مہینوں سے یہاں آنے کو نظر انداز کر رہی تھی۔ حالاں کہ نئے سال کے آٹھویں دن سائیکاٹرسٹ سے ملاقات کے لیےمیں ان کے دفتر کے باہر منتظر تھی۔ ملاقات کا وقت 12.30 تھا،  لیکن میں پینتالیس منٹ پہلے ہی پہنچ گئی ۔

اب تک نئے سال کے شروعاتی دن تھانوں اور وکیلوں کے چیمبر کے اندر  باہر کرتے گزرے تھے ، اور اب میں سائیکاٹرسٹ کے پاس تھی۔

اپنی باری آنے کا انتظار کرتے ہوئے میں نے پچھلے ہفتے کے بارے میں سوچا۔ میری آن لائن ‘بولی’ لگائی گئی تھی، جس کے بارے میں مجھے نئے سال کی پہلی صبح آنکھ کھلتے ہی معلوم  ہوا تھا۔

اگلے چند دنوں تک میں نے وہی کہانی بار بار دہرائی۔ نیوز چینلوں پر، ویب پورٹل کو، اخباروں ، خیر خواہوں اور دوستوں  کو۔

‘میری آن لائن نیلامی ہوئی تھی۔ ہاں، میں ایک مسلم خاتون ہوں، ایک صحافی ہوں، جس نےمقتدرہ پارٹی کے بارےمیں کئی تنقیدی خبریں لکھی ہیں۔ میری رپورٹس دی وائر پر پڑھی جا سکتی ہیں۔ جی، پہلی جنوری 2022 کی صبح جب میں اپنے بستر سے اٹھ بھی نہیں پائی تھی تب  مجھے اس کا علم ہوا۔

آخرکار سائیکاٹرسٹ نے مجھے بلایا۔

پھر میں نے آپ بیتی  دہرائی۔ اب تک میں اس میں ماہر ہو چکی  ہوں۔

حالاں کہ  اس بار میں نے اور بھی بہت کچھ بتایا، اور وہ  بتاتے ہوئے اپنے آنسوؤ ں کو  نہیں  روکا۔

§

پولیس تھانہ

جنوری2،  2022

ایک  رپورٹر کی حیثیت سے میں کئی تھانوں میں گئی  ہوں۔ میں نے عدالت کی شنوائیاں  دیکھی ہیں اور وکیلوں سے ملنے جہاں تہاں  گئی  ہوں۔

لیکن اس وقت میں کسی خبر کے لیےکوئی جانکاری لینے تھانے نہیں آئی ہوں۔ میں یہاں ہوں اس شکایت کے سلسلے میں، جو میں نے ‘بُلی بائی ‘ایپ بنانے والوں کے خلاف درج  کروائی ہے۔ وہی ایپ جس کے ذریعے ملک کی مسلم خواتین کی ‘بولی’ لگائی گئی  تھی۔

اس ایپ کے سامنےآنے کے ایک دن بعد میں گووند پوری تھانے میں ہوں۔ ایف آئی آر کی کاپی لے کر میں ایک لفٹ میں چڑھی، جو عام لفٹ سے کچھ بڑی تھی۔

جیسے لفٹ نیچے جانے لگی میں سوچنے لگی۔ کیا مجرم پکڑے جائیں گے؟ کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟

لیکن اب تو میں ایف آئی آر درج کروا چکی ہوں۔ اب پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ہے۔

جیسے ہی لفٹ رکی اور دروازاکھلنے کا اشارہوا، میں نے اپنا ذہن بنا لیا تھا۔ آگے بڑھنے کے علاوہ اورکوئی راستہ نہیں ہے۔

§

گھر

جنوری6 ،2022

اس واقعے کو کئی دن گزر چکے ہیں، لیکن میں نے اپنے والدین سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے۔ ہاں، اس دن میں نے پولیس کو دی گئی شکایت کی کاپی اپنے والد کو وہاٹس ایپ پر ضرور بھیج دی تھی۔

تب سے میں نے ان سے صرف اتنا کہا کہ مجھے پولیس اسٹیشن اور وکیلوں کے دفتر جانا پڑے گا اور انہوں نے اس بارے میں کوئی سوال  نہیں کیا۔

وہ لوگ اس بارے میں ٹی وی پر آنے والی ہر بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور جب بھی کوئی مشتبہ شخص پکڑا جاتا ہے ، تو مجھے بتاتے ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے والدین کی مجھے سمجھنے اور میرا ساتھ دینے  کی قوت کوکم کرکے دیکھا ہے۔

اس واقعہ نے ان پر کس حد تک اثر کیا،یہ  مجھے اس دن معلوم ہوا جب کسی نے ہمارے گھر پھولوں کا ایک بے نام گلدستہ بھیجا۔ جامنی رنگ کے یہ پھول بہت خوبصورت تھے۔

جب یہ پھول آئے تو میری والدہ نے ہی انہیں لیا اور مجھے تب تک ان کو چھونے نہیں دیا جب تک انہوں نے ایک ایک  پھول، شاخ اور پتے کی تفتیش  نہیں کر لی کہ کہیں اس میں کوئی مائیک یا کیمرہ تو نہیں چھپا  ہے۔

کسی دوست نے نیک نیتی سے یہ پھول بھیجے ہوں گے، ‘بیچارا! وہ شخص،’ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔

میں ابھی تک نہیں جانتی کہ انہیں کس نے بھیجاتھا۔ لیکن جس نے بھی بھیجا، میں اسے شکریہ کہنا چاہتی ہوں۔ اس کی وجہ سے میرے اور میرے والدین کے درمیان بُلی بائی کے حوالے سے بات چیت کا راستہ کھلا،  جو شاید پہلی بار ہوا تھا۔

(علامتی تصویر ، فوٹو: Henri Lajarrige Lombard/Unsplash)

(علامتی تصویر ، فوٹو: Henri Lajarrige Lombard/Unsplash)

§

عدالت میں شنوائی

جنوری 14، 2022

مجھے ایک پولیس انسپکٹر کا فون آیا،جنہوں نے میرے معاملے کےکلیدی ملزم 21 سالہ نیرج بشنوئی کی ضمانت عرضی کی سماعت کے بارے میں بتایا۔

انہوں نے کہا، سماعت شروع ہو گئی ہے۔ جلدی جوائن کیجیے۔

کیا بشنوئی کو ضمانت ملے گی؟یا پھر مقدمے میں کئی  لوگوں کی گرفتاری سے میرے دل میں جو امید پیدا ہوئی ہے، وہ برقرار رہے گی؟

میں نے اپنے وکیل کو فون کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سڑک پر ہیں۔ ہمیں اس سماعت کے بارے میں پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی اور اس کی وجہ سے ہمیں بشنوئی کی رہائی کے خلاف اپنی جرح کی تیاری کا وقت نہیں ملا۔

 اپنے وکیل سے بات کرتے ہی میں اس آن لائن سماعت میں شامل ہوئی ۔ کچھ دیر بعد انہوں نے بھی جوائن کیا۔ مجھے تعجب ہو رہا تھا کہ انہیں  سماعت میں حصہ لینے کے لیے اتنی جلدی ایک پرسکون جگہ مل گئی ۔

ضمانت مانگتے ہوئے ملزم کے وکیل کی طرف سے دی گئی تمام  دلیلوں میں سے ایک مجھے نشتر کی طرح لگا، وہ یہ  کہ بشنوئی ایک ‘ابھرتا ہوا ٹیلنٹ’ہے۔

بشنوئی کی عمر 21 سال ہے اور وہ انجینئرنگ کی پڑھائی کر رہا ہے۔ اس کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ ان کی گرفتاری سے ان کے خاندان کی ‘ساکھ’ داؤ پر  ہے۔

اس پر میرے وکیل صارم نوید نے فوراً کہا کہ شکایت کنندہ کی عمر بھی 23 سال ہی ہے۔

چند گھنٹوں بعد مجھے پیغام ملا کہ بشنوئی کی ضمانت عرضی  مسترد کر دی گئی ہے۔

عدالت کے حکم میں ایک جگہ لکھا گیا کہ ،حقائق بتاتے ہیں کہ ملزم نے ایک ایپ بنایا جہاں خواتین صحافیوں، ایک مخصوص کمیونٹی کی مشہور شخصیات، سوشل میڈیا پر معروف لوگوں  کو بے عزت  کرنے اور کمتر دکھانے کے ارادے سے انہیں غلط طریقے سےنشانہ بنایا گیا۔

§

ایک دوست کے گھر

دسمبر31،2021

یہ 2021 کا آخری دن ہے۔ میں اور میرے دوست کووڈ 19، سی اے اے مخالف مظاہروں،فروری 2020 میں ہوئے دہلی فسادات کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ بس وہی عام سی بات چیت۔

میرے دوست کا گھر بالائی منزل پر ہے۔ کھڑکی سے بس  رات کی روشنیاں دکھائی دے رہی ہیں- عمارتوں اور ستونوں کی روشنیاں۔

اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میں امید کی تلاش میں ہوں۔ میں اپنے دوستوں سے کہتی ہوں کہ وہ کوئی ایک چیزبتائیں جو انہوں نے اس سال سیکھی۔

یہ بات شروع کرتے ہوئے   مجھےبزرگانہ سا احساس  ہوا تھا، لیکن  اپنے دوستوں کے جواب سن کر مجھے خوشی ہوئی ۔

ایک دوست، جس نے اس سال اپنے قریبی کزن کو کھویا تھا، نے قرآن کی ایک آیت کا ذکر کیا، جس کا ترجمہ کریں تو مطلب ہوگا کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔

ایک اور نوجوان دوست، جس نے اپنا گریجویشن مکمل کر لیا ہے،نے امکان  کی طاقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اس نے اپنی تمام کوششوں کے بعد اتر پردیش کے ایک گاؤں میں ایک لائبریری قائم کی ہے۔

کسی ایک نے کہا، سب  ہوجاتا ہے۔

ہم ایک تھکی ہوئی آواز میں چھپی مایوسی کو بہ مشکل ہی  نظر انداز کر سکتے ہیں۔

جلد ہی میری باری آئی۔میں نے بتایا کہ بطور صحافی اس سال نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ میں نے کووڈ-19، کسانوں کے مسائل، مسلمانوں کے خلاف بڑھ رہے ہیٹ کرائم، جنس اور سیاست سے متعلق مسائل پر رپورٹ لکھیں۔

ایک رپورٹر کے طور پر میں کئی بار اتر پردیش گئی، اس صوبے میں، جہاں  کے بارے میں دو سال سے لکھ رہی ہوں، اسےمزیدجانا۔

لیکن 2021 وہ سال بھی تھا جب جنوری میں کسانوں کی تحریک سے متعلق ایک رپورٹ کے لیے میرے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا اور میڈیا خاموش رہا۔

کیا میں بیوقوف ہوں جو ایسے وقت میں امید کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہوں؟

§

گھر

جنوری 16، 2022

میں اتر پردیش کےآئندہ انتخابات کے لیے اپنے نوٹ تیارکر رہی ہوں، جب میں نے ایک پیغام کو دوبارہ پڑھا، جسے میں نے پہلی بار سرسری  نظر ڈال کر چھوڑ دیا تھا۔

یہ 3 تاریخ کو آیا تھا اور  ایک نوجوان لڑکی نے بھیجا تھاجسے بُلی بائی ایپ کے ذریعے نشانہ بنایا گیاتھا۔

اس حادثے سے صدمے میں آئی اس  لڑکی کو معلوم ہی نہیں  کہ اس پر کیا ردعمل ظاہر کرے۔ مجھے بھیجے پیغام میں اس  نے لکھا تھا، آپ کو اتنی ہمت سےیہ سب سنبھالتے دیکھ کر مجھے امید ملی  ہے۔

اچانک مجھے ایک بےحد ضروری بات یاد آئی۔ یہ ایک مشترکہ لڑائی ہے۔

لیکن کیا یہ جدوجہد اپنےصحیح مقام تک پہنچے گی؟ کیا ہمیں انصاف ملے گا؟ لیکن انصاف کے معنی کیا ہیں؟

کچھ دن پہلے میں کووڈ 19 سے لڑ رہی تھی۔ جیسے جیسے یوپی انتخابات قریب آرہے ہیں، میں اپنی رپورٹنگ شروع کرنا چاہتی ہوں۔

جنسی ہراسانی اورریپ کو لے کر اپنی رپورٹنگ میں، خاص طور پر ہاتھرس میں ہوئے دلت لڑکی کے معاملے میں، میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح سسٹم انصاف ملنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔

میں دوبارہ اپنے نوٹ پر لوٹتی ہوں۔ مجھے کچھ وقت کے لیے ایسے خیال اپنے ذہن سے نکالنے ہوں گے۔ میں دل ہی دل میں اپنے آپ سے وعدہ کرتی ہوں: ‘آخرکار، کہیں سے تو شروعات ہوئی۔

 (اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)