فکر و نظر

حکمرانوں کو طنز و مزاح سے اتنی پریشانی کیوں ہے؟

کنگ لیئرتنقید کو بالکل برداشت نہیں کرتے تھے،  مگر انہوں نے ایک درباری مسخرے کو کچھ بھی کہنے کی چھوٹ دے رکھی تھی۔ آج کے  ہندوستان میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے  جمہوری طور پر منتخب لیکن اتنے ہی مطلق العنان رہنما اپنے اردگرد سچ بولنے والے کسی بھی مسخرے کے مقابلےخوشامدی اور چاپلوس لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

زی تمل پر نشر ہونے والے جونیئر سپر اسٹار سیزن 4 میں پرفارم کر رہے چائلڈ ایکٹر۔ (بہ شکریہ: اسکرین گریب)

زی تمل پر نشر ہونے والے جونیئر سپر اسٹار سیزن 4 میں پرفارم کر رہے چائلڈ ایکٹر۔ (بہ شکریہ: اسکرین گریب)

کنگ لیئریوں تو کسی کی تنقیدکو برداشت نہیں کرتا تھا، حتیٰ کہ اپنی بیٹی کی بھی نہیں، لیکن اس نے ایک درباری مسخرے  کو کچھ بھی کہنے کی چھوٹ دے رکھی تھی اور وہ سزا سےبھی آزاد تھا۔ راجا یہ شاید سچ کی نبض تھامے رکھنے کے لیےکرتا تھا، لیکن مطلق العنان رہنما اور آمر ایسی کھلی تنقید کا خیرمقدم نہیں کرتے۔

لہٰذا ہندوستان میں بھی آج اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے جمہوری طور پر منتخب لیکن اتنے ہی مطلق العنان لیڈر اپنے آس پاس سچ بولنے والے ایسے کسی مسخرے کو پسند نہیں کرتے- وہ خوشامدی اورچاپلوس لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی اس معاملے میں بدنام زمانہ اور انتہائی نازک اندام ہے۔ حالاں کہ، دیگر ریاستی حکومتیں بھی کسی بھی طرح سے اپنے عظیم لیڈروں کا مذاق اڑانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے میں پیچھے نہیں ہیں۔

مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کے بارے میں کوئی لطیفہ یا میم شیئر کرنا آپ کو جیل رسید کرنے کے لیے کافی ہے۔ چند سال پہلے ایک پروفیسرصاحب کو اس کا تجربہ ہوچکا ہے۔ مہاراشٹر میں ایک نوجوان کامیڈین کو مبینہ طور پر چھترپتی  شیواجی کے بارے میں توہین آمیزتبصرہ  کرنے کے لیے ، جواس نے  اصل میں کیا ہی نہیں تھا،حکومت نے قانونی کارروائی کی  وارننگ دی تھی۔

ایک وقت تھا جب جواہر لال نہرو نے کارٹونسٹ شنکر سے کہا تھاکہ وہ ان پر مزاحیہ کارٹون بنانا جاری رکھیں۔ یہاں تک کہ ‘تاناشاہ’ اندرا گاندھی نے آر  کے لکشمن سے کہا تھاکہ وہ ان کی  بڑھی ہوئی ناک کا اسکیچ  بنائیں۔

لیکن بی جے پی کے لیے، ہر وہ چیز جس میں انہیں اپنے محبوب رہنما نریندر مودی کی نکتہ چینی نظر آتی ہے، اسے جلد از جلد ہٹایا جانا ضروری ہے۔اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ وہ مرکز اور کئی ریاستوں میں برسراقتدار ہے، پارٹی اور اس سے وابستہ ہندوتوا تنظیمیں اپنے اثر و رسوخ استعمال کرنے میں ہچکچاتی نہیں ہیں۔

حالیہ مثال خاص طور پر قابل ذکر ہے۔تمل ناڈو میں بی جے پی کی مقامی اکائی، جس کی وہاں کوئی خاص موجودگی نہیں ہے، نے ایک مقامی چینل پر بچوں کے پروگرام پر شدید اعتراض کیا۔ ان کے مطابق اس پروگرام میں مودی کا مذاق اڑایا جا رہا تھا۔

شو میں دو کردار تھے، بادشاہ اور اس کا وزیر، جن کے کردار بچوں نے ادا کیے تھے۔ وہ ایک افسانوی بادشاہ کے بارے میں بات کرتے ہیں جو رنگ برنگی جیکٹ پہن کر دنیا بھر کا سفر کرتا ہے، لیکن ملکی معیشت کو آگے بڑھانے میں ناکام رہتا ہے۔ بی جے پی کے مطابق اس پروگرام اور اس میں کام کرنے والے بچوں کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ یہ ڈرامہ نوٹ بندی کا مذاق بناتا ہے۔

راجا کا کردار یہ سوچتا ہے کہ نوٹوں کا ڈیمونیٹائزیشن ایک اچھا خیال ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے کالا دھن ختم ہو جائے گا۔ اس پر اس کا وزیر اسے ‘سنڈیا’کے ایک اور بادشاہ کی یاد دلاتا ہے جس نےایک’احمق’ کی طرح یہی  کام کیا تھا۔

یہاں مودی کا براہ راست کوئی ذکر نہیں کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ واضح ہے کہ اشارہ  ان کی ہی طرف ہے۔ تمل ناڈو کی بی جے پی اکائی کوپروگرام کو دیکھنے والے لوگوں کا تالی بجانا سب سے زیادہ ناگوار گزرا۔

بی جے پی نے فوراًیہ کہتے ہوئے اعتراض درج کرایا کہ وہ وزیر اعظم کا مذاق بناتا ہے۔ یہاں یہ پوچھنا چاہیے کہ ایسا کرنا کب سے جرم ہو گیا؟ کیا ان کی صرف قصیدہ خوانی  ہی کی جا سکتی ہے؟  ان کی  تنقید نہیں کی جا سکتی، ان کا مذاق نہیں بنایا جا سکتا؟

اگر یہ بی جے پی کی مقتدرہ ریاست ہوتی تو شاید بی جے پی کی ریاستی اکائی چینل کے سربراہ کو گرفتار کر کے بچوں سے پوچھ تاچھ کرچکی ہوتی۔ اور یہ اتنا عجیب نہیں ہے جتنا سننے میں  لگ رہا ہے۔

تقریباً ایک سال قبل،کرناٹک کے بیدرمیں اسکولی بچوں کی ایک پیشکش، جس میں انہوں نے متنازعہ شہریت ایکٹ پر تبادلہ خیال کیا تھا،اور جس کا انجام پولیس کے ذریعے بچوں سے پوچھ تاچھ کرنے کے طور پر نکلا تھا۔ بعد ازاں ہائی کورٹ نےوردی پہن کر اور اپنے پاس ہتھیار رکھ کر بچوں سے پوچھ تاچھ کرنےکے لیے پولیس سرزنش کی تھی۔

اس معاملے میں اسکول پر سیڈیشن کا الزام لگایا گیا تھا اور پرنسپل کو گرفتار کیا گیا تھا۔ کرناٹک بی جے پی کی مقتدرہ ریاست ہے اور وہاں اس  کا سکہ چلتا ہے۔

بی جے پی کا مزاح نگاروں(کامیڈین) کے پیچھے ہاتھ دھو کرپڑنے کی مثالوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ منور فاروقی کو ایک بی جے پی لیڈر کے بیٹے کی شکایت کے بعد جیل بھیج دیا گیا، ان لطیفوں کے لیے جو انہوں نے سنائے بھی نہیں تھے۔ اس کے بعد سے فاروقی کے لیے کہیں بھی پرفارم کرنا مشکل ہو گیا ہے – پارٹی ہر جگہ ان کے شو رد کروا  دیتی ہے۔

ایک پرواز میں نیوز اینکر ارنب گوسوامی سےسوال پوچھنے والے کنال کامرا کو انڈیگو اور دیگر ایئر لائنز نے ‘نو فلائی’ لسٹ میں ڈال دیا تھا۔ اس وقت کے شہری ہوا بازی کے وزیر ہردیپ پوری نے مبینہ طور پر ایئر لائنز کو ان پر پابندی لگانے کا ‘مشورہ’دیا تھا۔

آخر بی جے پی کو طنز ومزاح سے اتنی پریشانی کیوں ہے؟ اس معاملے میں یہ کئی آمرانہ حکومتوں سے مختلف نہیں ہے۔ چاہے وہ جمہوری طریقے سے منتخب ہوئی ہوں یا کسی اور طریقے سے، انہیں اپنا مذاق بنایا جانا بالکل بھی پسند نہیں ہے۔

صحافیوں یا اپوزیشن لیڈروں کی طرف سے کی جانے والی سپاٹ تنقیدجس مقام تک نہیں پہنچ سکتی ہے، وہاں اس پر دھاردار طنز سے چوٹ  کیا جا سکتا ہے۔ یہ جلدی عام لوگوں کے ذہنوں میں اتر جاتا ہے، کیونکہ یہ ایک قسم کا کتھارسس ہے، جو انہیں اپنی مایوسی کو باہر نکالنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ وہ ایک ساتھ ہنس کر ایک طرح سےاپنا احتجاج درج کر سکتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے انہیں گرفتاری  کا ڈر نہیں ہوتا۔

بچوں کے اسکولی ڈراموں پر بی جے پی کا اعتراض ظاہرکرتا ہے کہ طنز نےصحیح جگہ پر چوٹ کی ہے۔ کسی ڈرامے کو بند کردینے سےیا کسی مزاح نگار کو قیدکرنے سےیقینی طور پر ان کی حوصلہ شکنی ہوگی جو وزیر اعظم پر لطیفہ سنانا چاہتے ہیں،اورجن کے نازک انا کی حفاظت ہر قیمت پرکی جانی چاہیے۔

بہت سے مزاح نگار اور طنز نگار کہتے ہیں کہ وہ بچ بچ کرچلتے ہیں اور مودی یا امت شاہ کا ذکر نہیں کرتے۔ لیکن بہت سے مزاحیہ اداکار سامنے آئیں گے، اور طنز لکھے اور بنائے جائیں گے، اور مزید میم کی بارش ہوگی- ان میں سے بی جے پی کتنے کو روک پائے گی، کتنے کو گرفتار کرے گی؟

(اس مضمون  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)