خبریں

ناگالینڈ کے شہریوں کی ہلاکت: فوج نے ایس آئی ٹی کے سامنے کہا، شناخت کرنے میں غلطی کی وجہ سے پیش آیا واقعہ

ناگالینڈ میں دسمبر میں فوج کی فائرنگ میں عام شہریوں کی ہلاکت کی جانچ کے لیےایس آئی ٹی بنا ئی گئی تھی۔ جانچ کے دوران ایس آئی ٹی کے سامنے بیان دینے والےفوج کے37جوان  اس بات پر مصر ہیں کہ انہیں جو خفیہ اطلاعات  موصول ہوئی  تھیں وہ غلط ثابت ہوئیں، جس کی وجہ سے 13 عام شہری مارے گئے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

ناگالینڈ کے مون ضلع میں 13 نہتے شہریوں کو انڈین سیکورٹی فورسز کی جانب سےہلاک کیے جانے کے ٹھیک دو دن بعد وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیامنٹ میں دعویٰ کیا تھاکہ یہ واقعہ ‘پہچان کرنے میں ہوئی غلطی’ کا نتیجہ تھا۔

اس غیرسنجیدہ بیان اور ہلاکتوں کو جلد بازی میں چھپانے کی شاہ کی کوشش کو ہر طرف سے تنقیدکا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن،  اب ایک ماہ بعد فوج نے بھی اپنے دفاع میں شاہ کا راستہ ہی اختیار کیا ہے۔

دی وائر کو ملی اطلاعات کےمطابق، فائرنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی جانچ  کے لیےبنی ایس آئی ٹی کے سامنے گواہی دینے والے فورس کے 37 جوان اس بات پر مصر ہیں کہ انہیں جو خفیہ اطلاعات  ملی تھیں، وہ غلط ثابت ہوئیں جس کی وجہ سے 13 شہری مارے گئے۔

پوچھ تاچھ میں شامل فوج کے ان 37 سپاہیوں میں سے 31 اس آپریشن میں شامل تھے۔ ایس آئی ٹی نے 85 دیگر شہریوں سے بھی پوچھ تاچھ  کی، جن میں سے اکثر اوٹنگ گاؤں کے رہنے والے تھے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔

ان میں سے دو کے بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے۔ ایس آئی ٹی کا ماننا ہے کہ یہ دونوں گواہ تفتیش کے لیے اہم ہیں اور وہ اپنے بیان سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

آپریشن میں شامل فوجی افسران کو مختلف تاریخوں پر گواہی کے لیے بلایا گیاتھا اور 6 دسمبر سے جنوری وسط تک ان کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے۔

ایس آئی ٹی جانچ  کے بارے میں علم رکھنے والے ایک سینئر پولیس افسر نے دی وائر کو تصدیق کی ہے کہ فوج کے ‘بغیر سوچے سمجھے دیے گئےجواب’ جوابوں سے زیادہ سوال کھڑےکرتے ہیں، بالخصوص حالیہ مہینوں میں کئی بار اسی طرح کی خفیہ اطلاعات کو نظرانداز  کیوں کیا گیا،  جبکہ خصوصی طور پر 4 دسمبر کو ملی جانکاری پر کارروائی کی۔

پولیس افسر نے تصدیق کی ہے کہ یہ اطلاعات انٹلی جنس بیورو (آئی بی ) کے تحت کام کرنے والے ملٹی ایجنسی سینٹر کے ذریعےملی تھیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ تمام ایجنسیاں باقاعدگی سے خفیہ اطلاعات کا ایک جنرل  پول بناتی ہیں اور ان کےآپریشن  کا بہت زیادہ انحصار ان اطلاعات پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی ان پٹ یا جانکاری  غلط ہوتی ہے تو اس سے آپریشن کے منصوبے پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ایس آئی ٹی نے پایا ہے کہ 4 دسمبر کو ناگالینڈ پولیس، آئی بی، ملٹری ایجنسی اور کچھ اتحادی ایجنسیوں سے خفیہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ اب ان اطلاعات کی باریک بینی سے چھان بین کی جا رہی ہے۔

افسر نے یہ بھی کہا کہ اب ایس آئی ٹی واقعہ کے دن موصول ہونے والےخفیہ ان پٹ اور ماضی میں موصول ہونے والے ان پٹ کا موازنہ کرنے جا رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فوج کو روزانہ ایسی اطلاعات ملتی ہیں۔ ہر ان پٹ انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز کی ٹیم نےگھات لگا کر حملہ نے کیا تھا،  اس لیے یہ کوئی اچانک ہواتصادم نہیں تھا اور ایسا نہیں تھا کہ اسپیشل فورسز کو اس کا علم نہیں تھا۔

بتادیں کہ کونیاک قبیلے سے تعلق رکھنے والے تمام  گاؤں  کے لوگ کوئلے کی کانوں میں کام کرتے تھے۔ جب انہیں گولی ماری گئی تو شام کے  چار بج سے کچھ ہی زیادہ وقت  ہوا تھا اور اس وقت روشنی بھی تھی۔

پولیس افسر نے کہا کہ گھات لگا کر حملہ کرنے والے فوجیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے گاؤں والوں کے پاس ہتھیار جیسی کوئی چیز دیکھی تھی۔ تاہم وہ سب نہتے تھے۔ ان میں سے چھ کی موقع پر ہی موت ہو گئی جبکہ دو شدید زخمی ہو گئے۔

اگرچہ گاؤں والوں کو شام 4 بجے مارا گیا،  لیکن جوان رات 9 بجے تک موقع پر موجود رہے۔ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ان کی ان پانچ گھنٹوں تک موقع پر موجودگی گمبھیر  سوالوں کو جنم دیتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، جب گاؤں والے 9 بجے کے قریب موقع پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے رشتہ داروں کی لاشیں ترپال میں لپٹی ہوئی تھیں۔عین ممکن ہے کہ فوج کے جوان موقع سے لاشوں کو اٹھا کر اپنے بیس کیمپ لے جانا چاہتے تھے۔ اس کی وجہ سے گاؤں والوں نے غصے میں آکر فوج کی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔

اس کے بعد 9 بجے کے بعد کی پیش رفت میں فوج نے گولہ باری کی۔ اس دوسرے واقعے میں سات اورگاؤں والوں کی  جان چلی گئی ۔

بہرحال،  ایس آئی ٹی معاملے کے کئی اہم پہلوؤں کی جانچ کر رہی ہے۔ مثلاً،  اگر عام شہریوں کو غلطی سے انتہا پسند سمجھ بھی لیا گیا تو کیا ان پر گولی چلائی جا سکتی ہے؟ کیا فوج اپنے پہلے ہی ردعمل میں گولی چلا سکتی ہے؟

پولیس افسر نے بتایا کہ ایس آئی ٹی اپنی جانچ کی بنیاد ‘طاقت کے کم سے کم استعمال’ کے اصول کو بنا رہی ہے۔ بھلے  یہاں افسپالاگو ہو، فوج محض ‘خدشہ’ ہونے کا دعویٰ کر کے نہیں بچ سکتی۔

حالاں کہ، اپنے بیانات میں فوجی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور دو زخمیوں کو علاج کے لیے آسام بھی لے گئے۔

بہرحال، آسام کی21 پیرا اسپیشل فورس، جس نے اس واقعے کو انجام دیا، میانمار میں 2015 کی سرجیکل اسٹرائیک میں بھی شامل تھی۔ اس فورس کا شمار ہندوستان کی بدنام ترین فورسز میں ہوتا ہے۔

وہیں،  فوج کی طرف سے ایسے معاملوں میں غلط شناخت کا بہانہ دینا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن پولیس افسر کا کہنا ہے کہ شایدیہ پہلی بار ہے کہ ان کے خلاف اتنی باریک بینی سے تفتیش کی جا رہی ہے۔

دی وائر نے ناگالینڈ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) سندیپ تمگاڈگے سے رابطہ کیا اور جمع کی گئی معلومات شیئر کیں تو انہوں نے نہ تو اس کی تصدیق کی اور نہ ہی تردید کی اور کہا کہ جلد ہی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔تب سب کچھ ایک عوامی دستاویزکے طور پر سب کے سامنے ہوگا۔

غور طلب ہے کہ واقعہ کے فوراً بعد ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، تب یہ بہت چھوٹی ٹیم تھی۔ لیکن جب تمگاڈگے کوجانچ کا سربراہ بنایا گیا تو انہوں نے ٹیم کو بڑھا دیا۔ اس وقت 21 ممبران اس میں مختلف پہلوؤں پر کام کر رہے ہیں۔

اس سے قبل یہ تفتیش تزیت پولیس اسٹیشن کو سونپی گئی تھی،جس نے اپنی ایف آئی آر میں کہا تھا کہ فوج نے آپریشن کے لیے مقامی پولیس کو ساتھ نہ لے کر قواعد کی خلاف ورزی کی ہے۔

بہرحال، ایس آئی ٹی میں تمگاڈگےسمیت سات انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) کےافسران شامل ہیں اور متعدد افسران ایسے بھی  شامل ہیں جو متاثرین کے کونیاک قبیلے سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

تمگاڈگے نے کہا کہ جرم کی سنگینی اور تفتیش کے مختلف پہلوؤں میں لوگوں کی کمی کو دیکھتے ہوئے ٹیم کو بڑھایا گیا ہے۔

ایس آئی ٹی کے کام پر وزیر اعلیٰ نیفیو ریوگہری نظر رکھتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد ان کی حکومت نے ریاست سے افسپا کو ہٹانے کے لیے مرکزی حکومت کو خط بھی لکھا تھا اور ایوان کا خصوصی اجلاس بھی بلایا گیا تھا، جس میں افسپا کے خلاف قرارداد منظور کی گئی تھی۔ ریو نے ٹوئٹر پر افسپا کو ہٹانے کی بات بھی کی تھی۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔