فکر و نظر

ہندوستانی قیادت نے پیگاسس میں خصوصی دلچسپی دکھائی تھی، کئی سالوں کے معاہدے کے لیے کروڑوں روپے ادا کیے

دی نیویارک ٹائمس سے وابستہ اسرائیلی صحافی رونن برگ مین نے دی وائر کو بتایا کہ ہندوستان  کے ساتھ ہوئے معاہدے کی شرائط کےمطابق  یہاں کی خفیہ ایجنسیاں بیک وقت پچاس فون کو اسپائی  ویئر حملوں کا نشانہ بنا سکتی تھیں۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

ہندوستان اور اسرائیل کےدرمیان 2017 میں پیگاسس کی خریداری کا خفیہ معاہدہ دونوں ملکوں  کی اعلیٰ سیاسی اور انٹلی جنس قیادت کی’اعلی سطحوں’ پر اٹک گیا تھا۔

اسرائیلی صحافی رونن برگ مین نے دی وائر کو بتایا کہ اس کی وجہ متنازعہ اسپائی ویئر پیگاسس میں مودی حکومت کی خصوصی دلچسپی اور اس کی خریداری پراس کےشدید اصرار کے باعث تھا۔

اس انٹرویوکو نیچے دیے گئے لنک پر ملاحظہ کیاجا سکتا ہے۔

برگ مین طویل عرصے سے اسرائیل کی انٹلی جنس اور فوجی تنصیبات کی رپورٹنگ کر رہے ہیں اور 2007 میں این ایس اوگروپ کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی وہ اس پرنظر بنائے ہوئے ہیں۔

پیگاسس کے بارے میں نیویارک ٹائمس میں گزشتہ ہفتےبرگ مین کی مارک مزیٹی کےساتھ مشترکہ طور پرایک تفتیشی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔

برگ مین کےلفظوں میں،پیگاسس’دنیا کا سب سے طاقتور سائبر ہتھیار’ ہے۔ تل ابیب واقع اپنے گھرسے دی وائر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے 2017 میں ہندوستان کی جانب سے اسرائیل سے 2 ارب ڈالر کےہتھیاروں کے معاہدے کے حصے کے طور پراسپائی ویئر کی خریداری پرنیویارک ٹائمس کےانکشافات کے بارے میں بعض اضافی معلومات فراہم کیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ 2017 میں ہندوستان میں پیگاسس کا سوداکتنےمیں کیا، برگ مین نے کہا کہ اس کی مالیت کئی درجن ملین تھی اور کہا کہ یہ اپریل میں اسرائیل کے ساتھ طے پانے والے 2 ارب  ڈالر کے دفاعی معاہدے کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

برگ مین نےبتایا کہ پیگاسس لائسنسوں کی فیس بیک وقت نگرانی کیے جاسکنے والےفون کی زیادہ سے زیادہ تعداد (کوٹے) کےساتھ آتی ہے اور ہندوستان کےمعاہدے میں ایک وقت میں 50 فون کو نشانے کی بات کہی گئی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ2021 میں پیگاسس پروجیکٹ گلوبل میڈیا کنسورشیم کے حصے کے طور پر دی وائر کی رپورٹ کے بعد سےمودی حکومت نےاب تک  پیگاسس کی خریداری کی نہ تو تصدیق کی ہے اور نہ ہی واضح طور پراس کی  تردید کی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ٹیک لیب کی جانب سے کی گئی فارنسک جانچ میں متعددصحافیوں کے اسمارٹ فون میں ملٹری گریڈ کے اسپائی ویئرہونے کا انکشاف ہوا۔ اس اسپائی ویئر کے ذریعے نشانہ بننے والوں میں دی وائر کے دو بانی مدیران، صحافی پرنجوئے گہا ٹھاکرتا اور سشانت سنگھ اور اپوزیشن کے چیف انتخابی حکمت عملی کار پرشانت کشور شامل ہیں۔ یہ نمبر پیگاسس کے ممکنہ نشانوں کے لیک ہونے والے ڈیٹا بیس کا حصہ تھے۔

اس ڈیٹا بیس میں کانگریس لیڈر راہل گاندھی، سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا، سابق سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما اور مودی حکومت کے دو وزیر اشونی ویشنو اور پرہلاد سنگھ پٹیل کے نام بھی شامل تھے۔

سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی ہدایت پر کام کرنے والی ایک کمیٹی فی الحال اس بات کی جانچ کر رہی ہے کہ کیا حکومت نے پیگاسس کی خریداری کی  اور کیا اس کااستعمال کیا اور اگر ایسا ہے تو کس قانونی اختیار کے تحت یہ کیا گیا؟

توقع ہے کہ کمیٹی آئندہ چند ہفتوں میں اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع  کرے گی۔

اس پس منظر میں نیویارک ٹائمس کے انکشافات نے ایک بار پھر پیگاسس کے استعمال پر سیاسی بحث کو ہوا دی ہے۔

اپوزیشن نےوزیر اعظم کو گھیرتے ہوئے ایک اسپائی ویئرسے ملک کی جمہوریت کا گلا گھونٹنے اور پارلیامنٹ کو گمراہ کرنے کے لیےان پر ملک سے غداری کا الزام لگایا ہے۔

رونن برگ مین۔ فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@ronenbergman)

رونن برگ مین۔ فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@ronenbergman)

برگ مین نے اپنے ذرائع کی رازداری کا حوالہ دیتے ہوئے اس معاہدے میں شامل افراد کے نام یا کس ہندوستانی ایجنسی یا ایجنسیوں نے یہ لائسنس حاصل کیا، اس کے بارے میں سوالوں کا جواب نہیں دیا۔

تاہم، انہوں نے یہ کہا کہ ہندوستانی قیادت نے اسرائیلی قیادت کے ساتھ اپنی بات چیت میں اس لائسنس کے حصول میں خصوصی دلچسپی ظاہر کی اور خاص طور پر اس پر زور دیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی  انٹلی جنس ایجنسی پیگاسس کو خریدے، اسے انسٹال کرے اور اس سسٹم کاآن لائن ایکٹویشن ہوسکے،اس عمل میں لازمی طور پراعلیٰ اسرائیلی حکام  کا کردار ہوتاہے۔ وزارت دفاع کےاعلیٰ عہدیدارکو لائسنس پر دستخط کرنا ہوتا ہے اور یہ صرف وزارت خارجہ کی اجازت سے ہی ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ،عمومی طور پر اس میں اسرائیلی وزیر اعظم اور قومی سلامتی کے مشیر کا براہ راست رول ہوتا ہے…مجموعی طور پر اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا بھی اس میں رول ہوتا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے تمام مختلف اداروں اور ہندوستان کے اعلیٰ حکام…ہندوستانی انٹلی جنس سروسز کا بھی اس عمل میں رول ہونا ضروری ہے۔

اسرائیل میں ٹارگٹ کلنگ کی خفیہ تاریخ پر  کتاب لکھنے والے برگ مین نے بتایا کہ اسرائیلی برآمدی ضوابط کے مطابق پیگاسس کے ہرصارف کو ایک صفحہ کے اینڈ یوزر کے معاہدے پر دستخط کرنا ہوتا ہے، جس میں وہ اس اسپائی ویئر کا استعمال صرف دہشت گردوں اور منظم جرائم کے خلاف کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

اینڈ یوزرکو ایک اینڈ یوزرسرٹیفکیٹ پر دستخط کرنا ہوتا ہے،جس میں وہ (آخر صارف)وعدہ  کرتا ہے-یہ (معاہدہ) اسرائیلی وزارت دفاع اور آخری صارف (اینڈ یوزر)، مثال کے طور پر انڈین بیورو آف انٹلی جنس کےبیچ ہوتا ہےتو، انڈین بیورو آف انٹلی جنس تین وعدے کرے گا: ایک، وہ اس کا استعمال صرف خود کرے گا اور اگر وہ اسے کسی تیسرے فریق کو دے گا تو وہ اس کے لیےاسرائیلی وزارت دفاع سے پیشگی منظوری لے گا۔ دوسرا وعدہ یہ ہے کہ اس کا استعمال  صرف دہشت گردی اور منظم جرائم کے خلاف کیا جائے گا۔ اس پر دستخط کرنے کے بعد ہی لائسنس ملتا ہے اور این ایس او کو فروخت کرنے کی اجازت ملتی ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اسرائیل کی وزارت دفاع کی ڈیفنس ایکسپورٹ کنٹرول ایجنسی (ڈی ای سی اے) صحافیوں، سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف پیگاسس کے استعمال کو ہندوستان  کی طرف سے اینڈ یوز اگریمنٹ کی خلاف ورزی مانتی ہے، برگ مین نے کہا کہ ڈی ای سی اے اور وزارت دفاع سے اتھارٹی سےمتعلق سوال کئی بار پوچھےگئے ہیں، لیکن وہ کبھی جواب نہیں دیتے۔

انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب کے معاملے میں، جس میں سعودی عرب کے سرکاری ایجنٹوں کے ہاتھوں حکومت مخالف صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے بعد وزارت دفاع کے ذریعے ریاض کو پیگاسس کے استعمال کا حق واپس لینے پر غور کیا جا رہا تھا، لیکن سعودی ولی عہد اور اسرائیلی وزیراعظم کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت  کے بعد اسے پھر سےبحال کر دیا گیا۔

ہندوستان کے پیگاسس معاہدے کے اہم نکات کے بارے میں پوچھے جانے پر برگ مین نے کہا،

ہندوستان کوجو مشین فروخت کی گئی، اس کی قیمت کے لحاظ سے دیکھیں تو اس کی ایک مقررہ صلاحیت ہے، اس کی بینڈوتھ ہے، جسے پہلےہی طے کرلیا جاتا ہے۔ …لائسنس کا مطلب کسی وقت پر ایک فون کی  جاسوسی کرنے کی صلاحیت ہے۔ اور پیگاسس کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں، ہندوستان کو جو  پیگاسس فروخت کیے گئے، اس کی تعداداگرچہ مجھے یاد نہیں ہے، لیکن یہ 10 سے 50 کے درمیان ہے۔

تو جیسا طے ہوا ہو،اس کے حساب سے ان میں سے ہر ایک 10 سے 50 فون کی نگرانی کر سکتا ہے…ایک بار جب آپ اس کوٹے سے تجاوز کر جاتے ہیں،تو آپریٹرکو کسی اور فون کی نگرانی کو روکنا پڑتا ہےتاکہ نگرانی کیے جارہےفون کی تعداد کوٹے کے اندر رہے۔

(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)